شہروں میں مکاتب اور عربی ٹیوشن کے مضبوط نظام کی ضرورت

از: رفیع اللہ قاسمی
بچے ہمارے لئے پھول وکھلونے ہیں اور ملک و ملت کا مستقبل بھی۔ یہی بچے چمن اور گھروں کی زینت بنتے ہیں تو کبھی مدارس و مکاتب اور یونیورسٹیوں و کالجوں میں شب و روز عرق ریزی کرتے ہوئے اپنے آپ کو ملک و ملت کا ایسا پھول بنانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے ایک کنبہ و برادری، سوسائٹی و محلہ، شہر، صوبہ اور ملک یہاں تک کہ پوری دنیا ان سے خوشبو حاصل کرتی ہے۔ یہی بچے ہوم ورک اچھا کر کے جب ممبرو محراب، مدارس و مکاتب، یونیورسٹیوں و کالجوں اور پارلیمنٹ کی کرسیوں پر براجمان ہوتےہیں اور حال و مستقبل کا باگ و ڈور سنبھالتے ہیں تو انھیں کے ہاتھوں میں کچھ لوگوں کو بنانے اور بگاڑنے کی کنجی بھی آ جاتی ہے جس سے یہ حضرات اب چاہےاچھا مربی بن کر اپنی ذمہ داریوں کو امانت داری کے ساتھ نبھاتے ہوئے اچھا وارث چھوڑ جائیں یا عیش و آرام کی گدیوں کو زینت بخشتے ہوئے اپنے پیچھے ایسے خلف چھوڑ جائیں جو نہ صرف ملک و ملت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوں بلکہ اپنی زبان، اپنی شناخت، اپنی تہذیب، اپنا تحفظ، اپنے دین و ایمان کا تحفظ کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوں۔ اچھا خلف دینے کے لئے جہاں اچھی تعلیم گاہوں کی ضرورت ہے وہیں اچھی تربیت گاہوں کی بھی ضرورت ہے اور تعلیم و تربیت دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے ہی میں کامیابی و کامرانی پوشیدہ ہے۔ تعلیم و تربیت کسی ایک فرد کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کے لئے جہاں ایک مثالی ماں اور باپ کی ضرورت ہے وہیں ایک اچھے خاندان، ایک اچھے محلے، ایک اچھے ماحول، ایک اچھی تعلیم و تربیت گاہ کی بھی ضرورت ہے۔ انگریزی اسکولوں کا کریز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ افسوس ہوتا ہے ان والدین کی سوچ پر جو اپنے بچوں کے مستقبل کو سوار نے کی کریڈٹ صرف اور صرف انگریزی زبان کو دیتے ہوئے بچے کی پیدائش کے بعد ہی سے ایسے اسکولوں میں بچوں کی تعلیم دلوانے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں آپ کا بچہ A B C D تو سیکھ جائےگا مگر آپ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر پائےگا نہ ہی آپ کے لئے بڑھاپے میں لاٹھی کا سہارا۔ کامیابی و کامرانی کسی کی زبان اپنانے کسی کا لباس اپنانے سے نہیں ملتی ہے۔ مغرب کی کامیابی کا گن گانے والے لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کو کامیابی ان کی زبان اور لباس کی بنیاد پر نہیں ملی بلکہ ان کی کامیابی کے پیچھے اسلام کے وہ تمام اصول ہیں جن کو انھوں نے کسی اور نام سے کسی دیگر تشریح سے اپنا رکھا ہے مگر ان کی جڑ اسلام ہی سے جڑتی ہے۔ مغرب کی کامیابی کے پیچھے ان کی شب و روز کی مسلسل محنت ہے۔ ہم نے ان کی ظاہری اور اسلام مخالف چیزوں کو اپنا کر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں اپنا سب کچھ گنوا دیا اور اس مثل کے مصداق ٹھہرے ” کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا”۔
کامیابی و کامرانی کی کنجی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ اسکولوں کے ناقص نظام نے ہم کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے۔ والدین انگریزی کے نام پر اپنے لاڈلوں کو مشنری اسکولوں میں ڈال کر اور 15 سے 20 منٹ کے لئے ” ا ب ت” یعنی ناظرہ قرآن سکھانے کے لئےکمرشیل و تجارتی رخ پر کام کرنے والے افراد کے حوالے کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کے لئے اسلام تا حیات محفوظ کر دیا!
اللہ کا شکر ہے کہ ابھی امت اپنے لاڈلوں کو ہمارے حوالے کر رہی ہے۔ ہمارے مکاتب اور عربی ٹیوشن لینے والے افراد کے پاس اچھا موقع ہے کہ ان پھولوں میں رونق بھریں اور ایسی جامع منصوبہ بندی بنا کر ان پھولوں پر محنت کریں جن سے مشنری اور تربیت سے عاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے یہ بچے نہ صرف قرآن مع التجوید پڑھنے والے ہوں بلکہ ان کے اسلامی عقائد پہاڑ کی طرح مضبوط ہوں، ان کے اخلاق اور چال چلن غیروں کو اسلام سے قریب کرنے والے ہوں، نماز اور جلمہ اسلامی اعمال کے پابند ہوں، اپنے معاملات اسلامی اصولوں پر کرنے والے ہوں اور ناموافق حالات کا دلجمعی سے مقابلہ کرنے والے ہوں، ان کے ذہنون میں اسلام کی حقانیت کا صحیح تصور اس طرح رچ بس جائے کہ اسلام پر چلنا اپنے لئے باعث فخر سمجھیں اور کامیابی و کامرانی کا یقین انھیں اسلامی اصولوں اور طور طریقوں میں محسوس کرنے لگیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں کچھ مکاتب بہت عمدہ کام کر رہے ہیں۔ اللہ ان کی محنتوں کو قبول کرے اور ان مکتب میں پروان چڑھنے والے بچوں کو امت کا صحیح خادم و رہنما بنائے۔ آمین
Comments are closed.