سیب کے باغباں (کشمیری) کیسے ہوں گے؟

(ایک درد، پوشیدہ رخ)
مفتی غلام رسول قاسمی
سب ایڈیٹر بصیرت آن لائن
8977684860
میں روز و شب بار بار سوچتا ہوں اور کڑھتا رہتا ہوں کہ جب کوئی میرا ایمانی بھائی بیمار ہوتا ہوگا تو لوگ ہسپتال منتقل کیسے کرتے ہوں گے؟ کیونکہ کئی دفعات نافذ ہیں دو افراد ایک ساتھ نہیں نکل سکتے ہیں، جب میری کوئی اسلامی بہن زچگی کے قریب ہوتی ہو گی تو دوا-خانہ کھلا ہوا ہوگا یا نہیں؟ ان ہونے والی شادیوں کا کیا ہوا ہوگا؟ کتنے لڑکے لڑکیاں جن کے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کی تاریخ ان ہی ایام میں رکھی گئی تھیں کیا ہوا ہوگا؟ بوڑھے حضرات جن کو شوگر و دیگر امراض لاحق ہوں گے ان کے لیے میڈیسن میسر ہوتی ہوگی کہ نہیں کیونکہ دکانات کے ساتھ میڈیکل اسٹور بھی مقفل ہیں، نہ جانے ان ایام میں تڑپ تڑپ کر بروقت دوا میسر نہ ہونے کی وجہ سے کنتے لوگوں کی زندگی کی شام(انتقال) ہو گئی ہوگی! نیز سخت پابندیوں کے بیچ ان میت کو کتنے رشتہ دار کندھا دینے کے لیے شریک جنازہ ہوتے ہوں گے؟ پسماندگان کی تعزیت کرنے کتنی خواتین پہنچتی ہوں گی؟ مجھے نہیں معلوم میرے رب! آپ ہی سہارا ہیں! مجھے تو آج بھی وہ واقعات یاد ہیں جب کچھ سال قبل "فاٹا(خیبر پختون کا علاقہ) ” کے لوگوں پر پاکستانی حاکم نے اسی طرح کی پابندیاں عائد کی تھی، اتنے برے حالات تھے کہ مسلم عوام کھڑکی سے جھانک کر مسلم آرمی سے لاحاصل مدد کی بھیک مانگتے تھے امید برآور نہ ہوتی اور نہ ہونی تھی تو اپنے مرحومین کو اپنے گھروں کے کونے میں ہی بغیر نماز جنازہ کے دفن کر دیتے تھے،مسلمانوں کے اس اکثریتی علاقہ میں جہاں غیر پابندی کے ایام میں یومیہ پچاسوں میت قبرستان میں دفن کیے جاتے تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ پابندیوں کےایام میں ایک فیصد بھی قبرستان نہ پہنچ پائے، ہزاروں کی تعداد میں ماؤں کے لخت جگر غائب کر دئیے گئے تھے جن کا ابھی تک پتہ نہیں چلا، فاٹا میں تو آرمی و حکمران بھی مسلمان اور مظلوم پٹھانی قبائل بھی مسلمان تھے تو یہ حالت تھی. میرے ربا! یہاں کیسی کسمپرسی ہوگی؟لال سیب کے باغباں لال گال والے دینی بھائیوں کے کتنے گھروں میں خاموش ماتم ہوتے ہوں گے؟ یہ میں سوچتا ہوں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں. میرے پروردگار ہمیں معاف کردے اور مظلوم کی غیب سے کفالت کیجیے!
Comments are closed.