… اور کہتے جائیے "سب خیریت ہے”!!!

 

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043

اس انجمن میں ہم بھی عجب وضعدارہیں
دل ہے لہو لہان جبیں پر شکن نہیں

نگاہوں میں تصویریں، فکروں میں خیال اور دل میں یادیں، ماضی ہے، کسی کا نام ہے، اور زندگی کی تگ و دو ہے، جینا کیا ہے؟ توشہ حیات کیا ہے؟ بس یہی ہے، جو جی چکے سو جی چکے، اب ایک بوجھ ہے جسے اٹھائے پھرتے ہیں، سانسوں کا ایک دھارا ہے جو بہتا جاتا ہے، کبھی اس کروٹ کبھی اس کروٹ۔ پریشانیاں ہیں کہ ساتھ چھوڑتی نہیں، خوشیوں کا پتہ معلوم نہیں، دن کے اجالے میں شب کی تاریکی ہوتی ہے اور شب میں آنکھوں کی گیرائی نہ جانے کیا ڈبو رہی ہوتی ہے، سوچتے جائیے اور جیتے جائیے، مرتے جائیے اور کہتے جائیے سب خیریت ہے- دل کے انگارے بجھائیے، محبت کو شعلوں میں بھون دیجے اور بولیے! سب خیریت ہے- طبیعت کی بے بسی اور زندگی کی الجھنیں سناتے جائیے، نغموں میں خود کو ڈھونتے جائیے، جگر پر پتھر رکھ دیجئے اور کہیے! سب خیریت ہے- نیندوں کا سودا کیجیے، سرخ آنکھوں میں سپنوں کا خون کیجیے، بجھتے دل اور ٹوٹتے قلب پر سوز کا پردہ چڑھائیے، چہروں کو مرجھائیے، خدو خال کو سکوڑیے اور اعصاب و اشکال کو نچوڑتے رہئے اور کہئے! سب کچھ خیریت ہے۔ ستم گروں کا ستم سہتے جائیے، خود کو لپیٹ کر زندگی کے دام میں گم کرتے جائیے اور بولتے جائیے! سب خیریت ہے- مسکان پر مجبوری کی پرت چڑھائیے، مظلومیت کا خنجر سینے میں گھونپیے، جسم کو درد و کراہ کا قلعہ بنا لیجیے اور کہیے سب خیریت ہے۔
یہی انسان کی کہانی ہے، اس کا قصہ مختصر ہے؛ لیکن ایسا ہے کہ جسے کوئی نہیں سمجھ سکتا، اس سے زیادہ بہتر تعبیر یہ ہوگی کہ انسان کی اس حقیقت کو کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا، کوئی جاننا ہی نہیں چاہتا کہ انسان، صرف جسم کے اعتبار سے انسان ہے یا پھر اس کا دل بھی انسان ہے؟ اب انسان تو خود میں ہی سمایا ہوا ایک ایسا آسمان ہے جس پر بادل منڈلاتے ہیں، لیکن برس نہیں سکتے، اس کی ہر فصل بہاراں معلوم ہوتی ہے؛ لیکن اس کے پس پشت خزاں کا سمان ہی اس کا حقیقی موسم ہوتا ہے، زبان کا کیا ہے؟ وہ تو بس تالو سے لگتی ہے اور کہہ جاتی ہے: سب خیریت ہے، مخاطب کیا سمجھے اور کیا نہ سمجھے اس سے اس کی زبان کا کوئی تعلق نہیں، لیکن کبھی اس کے دل سے بات کیجئے! اس کے جگر پر ہاتھ رکھئے اس کی دھڑکنوں کو سنئے! اس کی نبض پکڑئے اور جاننے کی کوشش کیجئے کہ اس کی خیریت میں کیا خیر ہے اور کیا شر ہے، الفاظ کے جادو سے زائد بھی کچھ ہے یا پھر محض مکھوٹا ہے، نقاب ہے، وہ زمانے میں جینے آیا ہے یا کسی کڑوے کسیلے گھونٹ کو اپنانے آیا ہے، ذرا معلوم کیجئے! اس کے سینہ پر کتنے زخم ہیں؟ کس دل نے اسے سنبھال رکھا ہے؟ وہ کن قدموں سے چلتا ہے، پھرتا ہے؟ کہیں وہ سب کچھ ہو کر بھی زمین کا ایک زائد پرزہ تو نہیں؟
کس کے دل پر کیا بیتی ہے کب سمجھے کب جانے لوگ
گھر بیٹھے سر دھن لیتے ہیں سن سن کر افسانے لوگ
کوئی دیوانہ کہتا ہے کوئی شاعر کہتا ہے
اپنی اپنی بول رہے ہم کو بے پہچانے لوگ

12/09/2019

Comments are closed.