گستاخان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ہم

ہمارے دوست بے نام خاں جب تک ہمیں پریشان نہ کرلیں انہیں چین ہی نہیں آتا ، اب دیکھیے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں لگا ہوا تھا کہ وہ آدھمکے اور شروع ہوگئے ۔ مولانا صاحب ، کیا سے کیا ہوگيا اور آپ ہیں کہ چپی سادھے ہوئے ہيں ! ارے بھائی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور ان کے ساتھیوں سے نسبت ہے تو کچھ تو بولیے ، دیکھتے نہیں کہ چھٹ بھیے کیسی کیسی باتیں بنا رہے ہیں ، کیا کیا اول فول بک رہے ہیں اور آپ ہیں کہ اپنے اوپر سنجیدگی کا جھوٹا مکھوٹا ڈالے ہوئے ہیں ۔
میں نے کہا : خان صاحب ، ایسے لوگوں کو اصحاب علم و دانش اور صاحبان فکر سلیم آئینہ تو دکھا ہی رہے ہیں ، ہمارے کئی نوجوان دوست ہیں جو ما شاءاللہ اچھا رد کررہے ہیں ، اب کیا ضروری ہے کہ سب کوئی ایک ہی کام میں لگ جائیں ؟
ہمارے دوست ہمارے جواب سے غصہ ہوگئے اور کہا : آندھی آتی ہے تو کوئی ایک بھاگتا ہے یا سب بھاگتے ہیں ؟ مصیبت آتی ہے تو ایک بچاؤ کرتا ہے یا سب کرتے ہیں ؟ ارے سب کی اپنی اپنی پہنچ ہے ، اپنے اپنے دائرے ہیں ، تم اپنے دائرے میں یہ نیکی انجام دو ، اپنی حد تک کام کرو اور یوں جب ہر طرف سے دفاع ہوگا ، حق پیش کیا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ باطل کا ستیاناس ہو ، گردو غبار چھٹے اور نسل نو کو بہتر شعور حاصل ہو ۔
میں نے کہا : خان صاحب ، اسلام اللہ پاک کا نازل کردہ دین ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں اور آپ کے صحابہ وہ واسطہ ہیں جن کے ذریعہ یہ دین ہم تک پہنچا ہے ، انہوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لمحہ لمحہ کو اپنی بصارت و بصیرت کے آئینے میں قید کیا اور اپنی زندگی کے شب و روز انہیں لمحوں کے مطابق پوری ایمانداری سے گزارنے کی انتہائی کوشش کی ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسا کوئی نبی نہیں آیا اور آپ کے جیسے صحابہ کسی اور نبی کو نہیں ملے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علی الاطلاق کو ئی ثانی نہیں اور انبیاء کے بعد آپ کے صحابہ کا کوئی ثانی نہیں ،یہ عام لوگ نہیں تھے ، اللہ پاک کے منتخب لوگ تھے جنہیں اللہ نے اپنے پیارے حبیب کی صحبت کے لیے چنا ۔یہ شرف ہی کم نہیں تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں لیکن اللہ پاک نے انہیں مزید یہ کیا کہ جنتی ہونے کی ڈگری دے دی ، ان سے اپنی خوشنودی کا اعلان کردیا بلکہ انہیں ایمان کا معیار بنادیا ۔ فرمایا :
فإن آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارےمیں بہت واضح انداز میں بتایا کہ ان کا مقام کیا ہے ۔ فرمایا ”
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ
میرے صحابہ کو گالی مت دو ، میرے صحابہ کو گالی مت دو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پا سکتا ۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ صحیح ایمان والا آدمی صحابہ کرام کے بارےمیں الٹی سیدھی بات کرہی نہیں سکتا اور جس کے پاس ایمان نہیں ،اس کا کیا ہے وہ تو اللہ پاک کے بارےمیں بھی کچھ بھی کہ دیتا ہے ۔ اللہ کا حق لے کر کسی اور کو دے دیتا ہے ، اللہ کے ایک معمولی بندے کو اللہ کی جگہ پر مشکل کشا ، رب العالمین بنادیتا ہے !! ایسے بد نصیبوں کا کچھ نہیں کیا جا سکتا جو ام المؤمین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں بدزبانی کرتے ہیں ، تینوں خلفاء راشدین ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے بارے میں بدعقیدگی کے حامل ہیں اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر اتہامات رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ معروف بھی ہیں اور اصلا ایمان سے خالی بھی ہیں ۔ عاملھم اللہ بما یستحقون ۔
لیکن تعجب تب ہوتا ہے جب کچھ لوگ پہلے نظریہ بنالیتے ہیں اور پھر اس نظریے پر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کو فٹ کرنا چاہتے ہیں اور جب فٹ نہیں بیٹھتے تو بجائے اس کے کہ اپنے نظریے کو درست کریں الٹے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے لگتے ہیں ۔ان کی فہرست میں سب سے پہلے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا خاندان آتا ہے اور یہ کم نصیب بھول جاتے ہیں کہ ان کے ماننے اور نہ ماننے سے کچھ نہیں ہوتا ، اللہ پاک نے انہیں مان لیا ہے ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مان لیا ہے اور الحمد للہ مسلمانوں نے انہیں مان لیا ہے ، یہ چند بد نصیب ، بھٹکے ہوئے لوگ ہیں ، جن کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔
کاتب وحی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت کو یہ کیا کم ہے کہ ان پر متعدد صحابہ کرام نے بیعت کیا ، انہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کمانڈر بنایا ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھما نے گورنر بنایا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے سلسلے میں اختلاف ہوا اور دونوں کے بیچ لڑائی ہوئی اور پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابن ملجم نے شہید کردیا اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبرداری کرلی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی ثابت ہوگئی کہ ” میرا یہ بیٹا سید ہے ، اللہ اس کے ذریعے دو آپس میں لڑرہی مسلم جماعتوں کے بیچ صلح کرادے گا ”
اس کے بعد اللہ پاک نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذریعے پوری سلطنت کو مضبوطی فراہم کی ، اسلامی سلطنت کی توسیع ہونے لگی اور مسلم سلطنت میں امن و امان کا راج ہوگيا ۔ یہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بڑے عظیم لوگ تھے ، یہ چھوٹے قد کے بونے لوگ نہیں تھے ، یہ جھوٹ موٹ کی دانشوری نہیں بگھاڑتے تھے ۔ یہ واقعہ سنو
ابو مسلم خولانی اور ان کے ساتھ کچھ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : آپ علی رضی اللہ عنہ سے لڑتے ہیں ، آپ کیا ان کے جیسے ہیں ؟ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : نہيں ، اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں ، لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ عثمان رضی اللہ عنہ مظلوم قتل کیے گئے ہیں اور میں ان کی پھوپھی کا بیٹا ہوں اور ان کے خون کے قصاص کا مطالبہ کرنے والا ہوں ، آپ لوگ علی کے پاس جائیے اور ان سے کہیے کہ وہ عثمان کے قاتلین کو میرے حوالے کردیں اور میں ان کا تابع ہو جاؤں گا ، وہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے گفتگو کی لیکن انہوں نے قاتلین کو حوالے نہیں کیا ( عقیدۃ اھل السنۃ فی الصحابۃ نقلا عن سیر اعلام النبلاء )
یہی معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں جب انہیں چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر پہنچتی ہے تو رونے لگتے ہیں ، ان کی بیوی کہتی ہے : کل تو آپ ان سے لڑائی کررہے تھے اور آج ان کی موت پر رورہے ہیں ؟ معاویہ رضی اللہ عنہ جواب دیتے ہیں : ہائے تیری خرابی ، میں تو رو رہا ہوں کہ لوگ ان کی بردباری ، علم ، فضل ، اسبقیت اور بھلائی سے محروم ہوگئے اور ایک دوسری روایت میں ہے : تیری خرابی تجھے تو معلم ہی نہیں کہ لوگوں نے علم ، فقہ اور فضل میں سے کیا کھویا ہے !! (عقیدۃ اھل السنۃ فی الصحابۃ نقلا عن البدایۃ و النھایۃ )
خان صاحب ، یہ صحابہ کرام اللہ کے منتخب کردہ لوگ تھے ، اللہ پاک نے انہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے چنا تھا ، یہ ایسے ویسے لوگ نہيں تھے ، اسی لیے ان کے بارے میں ہمارا عقیدہ بہت درست ہونا چاہیے ۔ایسا نہیں ہو کہ جب ہم دیکھیں کہ ایک صحابی کی اکثر روایت کردہ حدیثیں ہمارے مسلک کے خلاف جاتی ہیں تو انہیں غیر فقیہ کہ دیں یا یہ دیکھیں کہ ہم نے حکومت اسلامیہ کا جو بطور خود نظریہ بنالیا ہے اس پر کوئی صحابی رسول فٹ نہيں بیٹھتے تو انہیں خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے کا طعنہ دے کر ان کے بارے میں کچھ بھی الٹا سیدھا بیان کرنا شروع کردیں ۔ایسا کرکے ہم اپنی کور نگاہی ، کج فہمی اور کم عقلی کا ثبوت فراہم کررہے ہوں گے کہ وہ نفوس قدسیہ تو اللہ کے چنیدہ ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دلارے اور پوری امت کے محسنین ہیں کہ اگر ان کا اعتبار کسی طرح خطرے میں پڑ جائے تو پوری شریعت ہی غیر معتبر ٹھہرے گی کہ انہیں کے ذریعے تو یہ دین ہم تک پہنچا ہے ۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ( یہ صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین کے سلسلے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے والے ) وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں عیب لگانا چاہا لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو عیب لگانا شروع کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہا جائے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیک آدمی ہوتے تو آپ کے صحابہ بھی نیک ہوتے ۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا : اگر کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کو برائی سے یاد کررہا ہے تو اس کے اسلام پر تہمت لگاؤ ۔
اور امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے کہا : اگر تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کررہا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نزدیک حق ہیں ، قرآن حق ہے اور قرآن وسنت کو ہم تک اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی پہنچایا ہے ، وہ دشمن چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے گواہوں کو مجروح کردیں تاکہ وہ کتاب و سنت کو باطل ٹھہراسکیں جب کہ جرح کے یہ دشمن زيادہ مستحق ہيں اور یہ زنادقہ ہیں ۔( تفصیل کے لیے دیکھیے عقیدۃ اھل السنۃ فی الصحابۃ )
اسی لیے ہم صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین کے سلسلے میں اچھا عقیدہ رکھتے ہیں ، ان تمام کے تمام کو عدول مانتے ہیں ، انہیں انبیاء کے بعد سب سے عظیم ہستی دیکھتے ہیں ، ان کی عصمت کے تو قائل نہیں لیکن ان کی صحبت رسول ، نیکیوں ، توبہ اور دوسرے اعمال خیر کے سامنے ان سے دانستہ نا دانستہ ہوئی خطاؤں کو قابل معافی سمجھتے ہیں اور قرآن وحدیث کی روشنی میں انہیں بہر صورت صاحبان ایمان اور مستحقین جنت جانتے ہیں اور ہم اپنا یہ منصب جانتے ہی نہیں کہ ان پر تنقید کرسکیں ، ان کی لغزشوں کو بیان کریں اور ان کا مقام گھٹانے کی نا روا کوشش کریں ، ان سے بتقضائے بشریت اگر کبھی کوئی چوک ہوئی تو ہم عذر تلاش کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور ان پر زبان طعن دراز کرنے کو مہلک ایمان و دین سمجھتے ہیں ۔ ان کے آپس کے نزاعات پر توقف اختیار کرتے ہیں ، ان میں سے کسی کو غلط نہيں کہتے کہ اجتہاد کرنے کی صورت میں اگر درستگی کو پہنچ گئے تو دہرے ثواب کے مستحق ہیں اور اگر غلطی ہوگئی تو بھی وہ ایک اجر کے مستحق ٹھہرتے ہیں ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہم حق کو دلائل و براہین کی روشنی میں ایک کے مقابلے میں دوسرے کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں لیکن اس سے اس بات کا بالکل جواز نہیں نکلتا کہ ہم ان میں سے کسی کے بارے میں بھی کوئی گستاخی کریں ۔
خان صاحب نے مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھا اور کہا کہ ان حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ مولانا نئی نسل کو یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین کے بارے میں ہمارا عقیدہ کیا ہے ۔ اللہ تمہیں بہتر بدلے ۔ والسلام ۔۔۔
Comments are closed.