افغانستان_ سپرپاور ۔۔۔۔ کے لئے قبرستان بنے گا!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
امریکہ نے معاہدے کے اختتامی مراحل میں دجالیت کا شوشہ ابھارا، اپنی فرعونیت اور رعونت کو قائم رکھنے کیلئے پھر سے مردہ جسم میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے، افغانستان اور امریکہ کی باہمی گفتگو جب قطر کی میز پر سجائی گئی، اللہ کے سپاہی اور دین کے متوالے، رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی جاں نشین طالبان نے ان کی سرزمین پر قدم رکھا، تو وہ گویا ان کے سینہ پر قدم رکھنا تھا، عالمی طاقتوں کی دکھتی رگ پر اور صدیوں سے قائم نام نہاد دہشت گردی کے ہیولہ پر ڈنڈہ مارنا تھا، اسی لئے سانپ مرتے مرتے بھی اپنا ڈنک مارنے اور دنیا کو ڈنس لینے کی ضد پر قائم رہا، اس نے مانا کہ طالبان دہشت گرد نہیں، اس نے یہ بھی قبول کیا کہ اسلامی ریاست ہی امن ومان کے قیام کی ضامن ہے، پہاڑیوں میں اور کوہ و قاف میں اگر امان ہو سکتا ہے، تو وہ صرف اور صرف طالبان کے ذریعے ہی ممکن ہے، نہ صرف خطہ میں بلکہ عالمی اعتبار سے اس نظام کی ضرروت ہے، چنانچہ انہوں نے لفظ امارت اسلام پر دستخط کیا تھا_
افسوس صد افسوس!!! لبرلیٹیز کے جام میں مسحور ہو کر، دنیا کی چکا چوند اور ظاہر پرستوں کے دباو میں یہ معاہدہ اختتام سے قبل ہی ختم ہوگیا، جس پر ہندوستان، پاکستان اور مغربی ممالک کے اسلام دشمنوں نے خوب چراغاں کیا، جشن کیا، اوہ___ امیدیں آئیں اور رخصت ہوگئیں، دنیا کے سامنے ایک نیا سورج طلوع ہونے کو تھا، عالمی طاقتوں میں ایک نئی صبح ہونے والی تھی، ابر باراں برسنے کو تھا، کہ جس سے انسانیت سیراب ہوتی اور روشنی و ہدایت کی صاف و شفاف ندی بہہ پڑتی؛ مگر شیطان کو اجالا کب بھایا ہے؟ شفافیت اسے کب راس آئی ہے؟ اس کا کھانا غلاظت ہے، اس کی نیند گندگی میں ہوتی ہے، وہ دوسروں کو بے چین کر کے ہی چین پاتا ہے، ایسے میں امریکی شیطانیت کا سر پھر اٹھا، فرعون وقت نے سجی سجائی میز بگاڑ دی، نکلتی ہوئی نئی راہ اور انسانیت کی ایک نئی سحر زندگی کو ٹھوکر ماردی، وہ خود بکھرے ہوئے ہیں، تو کوئی اور کیوں سنور جائے؟ جن کے زلفوں کی گتھی نہ سلجھتی ہو وہ کسی اور کی گھتی کیسے سلجھنے دیں؟
افغانستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ جنگ ہم پر تھوپی گئی ہے، ہم اب تک خون جگر کے ساتھ لڑ رہے تھے اور جام شہادت پی رہے تھے، اور آئندہ سو سال بھی جنگ کر سکتے ہیں_ اور یہ بات تمام عالمی قوتوں کی نگاہ میں ہے کہ افغانی اپنی سرزمین پر جب عالمی طاقت متحدہ سویت یونین اور روس کو برداشت نہ کرسکے تو بھلا امریکہ کو کیسے برداشت کریں گے؟ انہوں نے اپنی غلطی کی تلافی کا ایک آخری موقع بھی گنوایا، اپنی فوج کو زندہ واپس لانے اور اپنی معیشت کو بچانے کا آخری سہارا بھی کھودیا، وہ اب رسوا ہوگا، برباد ہوگا، اپنی موت آپ مرے گا، وہ خود کا زہر پی کر اور نفرت کی بھٹی میں جھلس کر مر جائے گا، افغانستان کی پہاڑیوں پر ان کے فوجیوں کی لاشیں سوکھتی ہوئی پائی جائیں گی، اس سے پہلے بھی امریکی فوجیں افغان سے زیادہ کچھ نہ چھین سکیں_ سوائے جان کے اور گھر ومکان کے، جو راہ عشق میں کوئی نقصان کا سودا نہیں، راہ وفا میں کوئی خسارہ نہیں_
ہم جو مرتے ہیں محبت میں تو مرنے دیجئے
اس میں مرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں
چنانچہ ان کے حوصلے اور ایمان کو ٹس سے مس نہ کرسکی، بلکہ وقت وقت پر اس نے خود اپنی فوجوں کی لاشیں تعدادوں میں اٹھائی ہیں، انہوں نے ڈپریشن میں خود کشی کی ہے، اور بہت سوں نے ان کے اخلاق و ہمت کو دیکھتے ہوئے اسلام کو گلے لگایا ہے، وہ بھول رہے ہیں کہ یہ کوئی ہندوستانی مسلمان نہیں جو لاشیں اٹھانا ہی اپنا فریضہ اور مصلحت ہی اپنا ایمان سمجھتا ہے، یہ کوئی پاکستانی نہیں جو مسلک و سیاست کی لڑائی میں ایمان و وطن سب کچھ بیچ دیں اور نا ہی خلیجی بزدل اور بے غیرت مسلمان ہیں، جو اپنی گدی کی خاطر حرم کی چادر بھی بیچ کھائیں، وہ افغانی ہیں جن کیلئے خدا اور رسول ہی کافی ہے، یہی ان کا سرمایہ عزیز ہے، اسی کیلئے وہ جیتے اور مرتے ہیں، معاہدے سے مکر کر اور فاشسٹوں کے جھانسے میں آکر تم نے غلطی کی اور بہت ہی خطرناک غلطی کی_ اب تماری قبر بھی روس کی طرح وہیں پر کھدے گی_ اب تم بھی اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ افغانستان کے افق میں ہی ڈوب جاوگے اور امید ہے کہ کوئی اور قوت پوری طاقت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوگی، بلکہ یہ ہمارا ایمان ہے کہ وہی سنگلاخ وادیوں کے شہ سوار اور سرفروش و سربکف نوجوانان اسلام ہوں گے۔
اے عشق! مل سکیں گے نہ ہم جیسے سر پھرے
برسوں چراغ لے کے زمانہ اگر پھرے
ہوجائیں ہم خاک تو یقیں ہے کہ محشر تک
سر پر یہ خاک اٹھائے نسیم سحر پھرے
21/09/2019
Comments are closed.