کاملہ شمسی کو سلام!

اتواریہ: شکیل رشید
ایک ادیب کا فریضہ کیا ہے؟
اگر وہ شدید ترین حقوق انسانی کی پامالیوں کے خلاف آواز نہ اُٹھائے تو کیا کرے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ایک پاکستانی، برطانوی ادیبہ کاملہ شمسی کو دئیے گئے ادبی ایوارڈ کو ان سے ’واپس‘ لیے جانے کے بعد سے موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ یوں تو یہ وہ سوالات ہیں جن پر دنیا بھر میں بات کی جارہی ہے پر جن دو ملکوں میں ان سوالوں کو سب سے زیادہ موضوع گفتگو ہوناچاہئے، یا جن دو ملکوں کے ادیبوں کو۔۔۔بالخصوص اردو کے ادیبوں۔۔۔۔یہ سوالات سب سے زیادہ اُٹھاناچاہئے ، ان ہی دو ملکوں میں کاملہ شمسی کو ایوارڈ دے کر ان سے ایوارڈ چھین لینے کی نہ تو مذمت کرتے لوگ نظر آرہے ہیں او رنہ ہی یہ سوال کرتے کہ اگر ایک ادیب نے کسی گروہ کے حقوق انسانی کی پامالیوں کے خلاف آواز اُٹھائی ہے تو آواز اُٹھانے کا عمل اتنا بڑا جرم کیسے ہوگیا کہ اس سے ایوارڈ ہی واپس لے لیا جائے؟یہ دو ملک ہیں ہندوستان او رپاکستان۔
کاملہ شمسی انگریزی کی ناول نگار ہیں، اب تک ان کے سات ناول شائع ہوکر ادبی دنیا میں پذیرائی پاچکے ہیں۔ انہیں کئی ادبی ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ ایک بار ’بکرپرائز‘ کی لانگ لسٹ میں ان کا نام بھی شامل ہوچکا ہے۔ انہیں جرمنی کے شہر ڈورٹمنڈ نے ’نیلی ساکس پرائز‘ کےلیے منتخب کیاتھا۔ اس ایوارڈ کے لیے جو جیوری تھی وہ آٹھ افراد پر مشتمل تھی۔ کاملہ شمسی کے نام پر اتفاق کی وجہ یہ تھی کہ جیوری ممبران کی نظرمیں وہ ’برداشت اور مفاہمت‘ کو بڑھا وا دینے والی ادیبہ تھیں۔ لیکن اچانک ہی یہ اعلان آیاکہ کاملہ شمسی کو جو ایوارڈ دیاگیا ہے وہ انہیں نہیںدیاجائے گا۔ وجہ؟ وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ کاملہ شمسی ’بی ایڈ ایس‘ یعنی اسرائیل کے ’بائیکاٹ ، ڈیس انویسٹمنٹ ، اینڈ سینکشن‘ کی تحریک میں شامل ہیں یعنی وہ اسرائیل کا بائیکاٹ چاہتی ہیں، وہاں سرمایہ کاری کی مخالف ہیں اوراسرائیل پر پابندیاں عائد کراناچاہتی ہیں اس لیے انہیں یہ ایوارڈ نہیں دیاجاسکتا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ بی ڈی ایس کی تحریک مظلوم فلسطنیوں کی حمایت میں ہے، ان کے حقوق کی پامالیوں کے خلاف یہ ایک زور دار آواز ہے اور اس سے بہت سارےیوروپی، امریکی ادیب و دانشور جڑے ہوئے ہیں۔ یہودی ادیب اور دانشوروں کے گروپ بھی اس میں شامل ہیں۔
اس میں کتنے عرب اور کتنے ہندوستانی، پاکستانی اور اردو والے ہیں اللہ ہی جانے۔ پیغام صاف تھا کہ اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت میں بولنے والے کسی بھی فرد کو انعام نہیں دیاجائے گا۔ نیلی ساکس یہودی شاعرہ تھیں، یہ ایوارڈ ان کے نام پر ہے، مگر ہے جرمنی کے شہر ڈورٹمنڈ کا گویا یہ کہ جرمنی کا ایوارڈ ہے، مگر جرمنی اس لیے اسے دینا نہیں چاہتا کہ کاملہ شمسی فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اُٹھارہی ہیں۔کاملہ شمسی کو برداشت او رمفاہمت کو فروغ دینے والی ادیبہ قرار دینے کا اعلان بلبلے کی طرح پھٹ گیا۔ یہ یوروپ کا وہ چہرہ ہے جو بے حد بھیانک ہے۔ ساری رواداری، سارا فلسفہ آزادی اظہار رائے، ساری لکھنے پڑھنے کی آزادی، انسانی حقوق کے سارے دعوے اسرائیل کے نام پر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہ ادبی ایوارڈوں کی سیاست کو بھی عیاں کرتا ہے۔ یہ ایوارڈ دراصل زبان بندی کےلیے دئیے جاتے ہیں۔ صرف ایوارڈ ہی نہیں گرانٹ بھی اس لیے دئیے جاتے ہیں کہ زبانیں بند رہیں۔ ادیبوں کی خریداری کا یہ سلسلہ دیکھئے کب تک چلے۔ لیکن ادیبوں کی بہت بڑی تعداد زبان بند رکھنے کو، بکنے کو، مول تول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ افسوس کہ ان ادیبوں میں ہندوستانی اور پاکستانی ادیب شامل نہیں ہیں۔ ان ادیبوں کو ہمارا سلام ہے جو ظلم کو ظلم اورظالم کو ظالم کہتے ہیں او رجھکنے سے انکار کردیتے ہیں جیسے کہ کاملہ شمسی۔
Comments are closed.