سب کچھ ریڈی میڈ ہے!!

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

ریڈی میڈ یہ لفظ کانوں کیلئے اجنبی نہیں اور ناہی زندگی کیلئے۔ قدرتی وسائل اور انسانی مصنوعات دونوں کا ویسے تو کوئی مقابلہ نہیں، لیکن آج حال یہ ہے کہ انسان کا زیادہ تر حصہ مصنوعات پر منحصر ہے، اشیائے خورد و نوش سے لیکر خود اب انسان بھی ریڈی میڈ ہوگیا ہے، نارمل پیدا ہوا انسان کے جسم میں نہ جانے کیا اور کیا مصنوعی چیزیں داخل کردی جاتی ہیں؛ بلکہ اب تو یہ بھی امکان ہے ۲۰۲۲ء تک انسان کا دل بھی ٹرانسپلانٹ کیا جا سکے، حد تو یہ ہے کہ اب تو انسان کی تخلیق بھی ریڈی میڈ ہونے لگی ہے، ٹیسٹ ٹیوب بے بی جس کے خاص عمل کے ذریعہ انسان کو وجود بخشا جاتا ہے، دنیا میں اس کا کامیاب تجربہ بھی ہوچکا ہے، اب ایسے میں سوچئے! خالص کیا چیز رہ جاتی ہے، سوائے یہ کہ انسان کے اندر احساسات اور اس کی قوت تمیز باقی رہے، اگر انہیں بھی نکال دیا جائے، تو یقین جانئے اب انسان کو بھی انسان کہنا دشوار ہے، اف!!!! یہ کیسا وقت آن پڑا ہے، ایک طرف یہ خدا کی قدرت کی یاد دہانی کرواتا ہے، تو وہیں قدرتی وسائل کی ناقدری اور قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو بھی بتلاتا ہے، جب آپ ریڈی میڈ کہتے ہیں یا سنتے ہیں تو آپ کو وہ زمانہ بھی یاد آتا ہوگا، جب ریڈی میڈ نہیں بلکہ سیلف میڈ یا قدرتی میڈ ہی ہوا کرتا تھا، وہ دور کچھ تھا یہ دور کچھ اور ہے، اب کے گلاب کی رنگینیوں میں وہ رعنائی کہاں؟ مٹی کی وہ سوندی خوشبو اور وہ لطف زندگی کہاں؟ سنبھال سکتے ہیں تو اس احساس کو سنبھال لیجیے ورنہ اب کچھ نہیں_ کلیم عاجز صاحب مرحوم ویسے بھی ڈاؤن ٹو ارتھ انسان تھے، ان کی زبانی اس ریڈی میڈ کے قصے کو سنیے! ادب کا لطف بھی لیجئے اور غور بھی کیجیے!
” ____ ہائے کیا ہوگیا زمانے کو۔ کچھ تو لوگ ہی نہیں رہے، خود چلے گئے مگر اپنی پہچان چھوڑ گئے۔ اور جو اس وقت کے لوگ رہ گئے وہ اپنی پہچان ایسی کھو بیٹھے، جیسے سانپ کیچلی چھوڑ دے یا کوئی خاتون اپنا برقعہ اتار دے یا کوئی بہروپیہ اپنے اصلی روپ میں آجائے یا یہ کہ بہروپیا ہی کوئی دوسرا روپ بدل لے۔ کاش ایسا ہی ہو۔ گرچہ ایسا ہے نہیں۔ نہ سانپ نے کینچلی چھوڑی ہے، نہ خاتون نے برقعہ اتارا ہے، نہ بہروپئے نے روپ بدلا ہے؛ بلکہ یوں کہئے کہ سیلاب آیا اور سب غازہ، پودر، طرہ، بدھی، سہرا، مکنہ، پگڑیاں، عمامہ، چپکن، اچکن، ازار، شلوار، دری، چاندنی، خیمہ، قنات، فرش، کرسی بہا لے گیا۔ اب کسی کو یاد نہیں کون نوشہ تھا؟ کون شہ بالا؟ کون سمدھی تھا؟ کون گویا؟ کون وکیل؟ کون گواہ؟ کون سراتی؟ کون براتی؟ کون میاں جی؟ کون بجنیا؟ کون باورچی؟ کون نان بائی۔ سیلاب ختم ہوا تو سب دکانوں سے ریڈی میڈ کپڑے لے آئے۔ ریڈی میڈ نام، ریڈی میڈ کام، ریڈی میڈ رشتہ، ریڈی میڈ محبت، ریڈی میڈ تعلق، ریڈی میڈ مذہب، ریڈی میڈ فلسفہ، ریڈی میڈ فن۔ ریڈی میڈ تہذیب۔ سب ریڈی میڈ۔ سب کچھ سپلائی والے کا۔ اپنا کچھ نہیں۔ جو سپلائی آرہا ہے وہی پہن رہے ہیں، وہی کھا ریے ہیں، وہی سن رہے وہی بول رہے ہیں، وہی سوچ رہے ہیں وہی لکھ رہے ہیں، وہی پڑھ ریے ہیں، وہی پڑھا رہے ہیں۔
بات سچی کہتا ہوں۔ سب کچھ ریڈی میڈ ہے۔ حکمران کے پاس بھی محکوم کے پاس بھی۔ آقا کے پاس بھی نوکر کے پاس بھی۔ کارخانہ دار کے پاس بھی مزدور کے پاس بھی۔ استاد کے پاس بھی شاگرد کے پاس بھی۔ پروفیسر کے پاس بھی اور اسٹوڈنٹ کے پاس بھی۔ کسی کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے۔ سب مستعار ہے اور ایک ہی برانڈ ہے۔ باپ کا سب کچھ ریڈی میڈ ہے اور بیٹے کا بھی۔ اور بیوی کا بھی اور شوہر کا بھی۔ یہ تمام ریڈی میڈ برانڈ ان دنوں ٹی وی پر سپلائی ہوتا ہے اور ریڈیو اور اخبارات سے اور رسالوں سے اور کتابوں سے۔ یہ امرتا پریتم برانڈ ہے، یا عصمت چغتائی برانڈ۔ یا قرہ العین برانڈ یا منٹو برانڈ اور سینکڑوں انگلش برانڈ۔ یہی برانڈ ایوان حکومت سے بھی نکلتا ہے۔ چاہے وہ کانگریس برانڈ ہو جنتا برانڈ یا مسلم لیگ برانڈ۔ یہی برانڈ ایوان حکومت سے چل کر کتابوں کے شو کیس میں اور اخبارات و رسائل کے شو روم می آتا ہے اور یہی ریڈی میڈ برانڈ گھروں میں بھی چلتا ہے۔ اور محفلوں میں، مجلسوں میں، تعلیم گاہوں میں، یونیورسٹیوں میں، مدرسوں میں، خانقاہوں میں___” (ابھی سن لو مجھ سے! ۳۳۵-۳۳۶)

22/09/2019

Comments are closed.