خدارا! خود اپنی صفوں کو کمزور مت کیجئے

 

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

اللہ تعالٰی کو ظلم قطعا پسند نہیں ہے۔ وہ ظالموں کو کبھی پسند نہیں کرتے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جگہ جگہ ظلم کی شناعت اور ظالموں سے اپنی بے تعلقی و بے زاری کو واضح کردیا ہے ۔ جس طرح ایک ماں کبھی نہیں چاہتی کہ ان کی اولادیں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کریں ان کے درمیان جور و جفا اور ظلم و ستم ہو وہ ایک دوسرے کے ساتھ ترش روی اور سختی سے پیش آئیں ۔ وہ اپنی اولاد کو باہم میل جول اور محبت و شفقت اور احترام و عقیدت کے ساتھ رہنا اور دیکھنا چاہتی ہیں ۔اللہ تعالٰی کو اپنے بندے سے ستر ماووں سے زیادہ بڑھ کر محبت ہے وہ بھلا یہ کیوں پسند کرے کہ اس کا کوئی بندہ دوسرے بندے پر ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کرے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے کفر و شرک کے بعد ظلم کو سب سے زیادہ ناپسند فرمایا ہے اس نے ظلم کرنے والے کے لئے بدبختی اور محرومی کا اعلان کردیا ہے *و قیل بعدا للظالمین* اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے یعنی ظلم کرنے والے کے لئے کامیابی و کامرانی نہیں ہے ۔ *انہ لا یفلح الظالمون*
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ شرک و کفر کے ساتھ تو حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم تشدد اور نفرت کے ساتھ حکومت نہیں چل سکتی ۔
دنیا میں جو لوگ اور حکومتیں ظلم و جبر اور تشدد و زیاتی کو اپنا وطیرہ بناتی ہیں، نفرت کی دیواریں کھڑی کرتی ہیں وہاں کے رہنے والے اپنے جیسے انسان کو تختہ مشق بناتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ ظالم آزاد ہیں اور اس کو کوئ سزا نہیں مل رہی ہے تو ہم مایوس و ناامید ہوجاتے ہیں خدا پر ہمارا ایمان کمزور ہوجاتا ہے ہمارے یقین و ایمان اور عقیدہ میں اضمحلال پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہاں ہمیں غور کرنا پڑے گا اور خدائ فیصلے کی حکمتوں کو سمجھنا پڑے گا کہ اللہ تعالی نے بعض حکمت اور مصلحت کے پیش نظر دنیا میں یہ نظام اور اصول و ضابطہ بھی بنایا ہے کہ وہ وقتی طور پر دنیا میں ظالموں اور سرکشوں کو مہلت اور ڈھیل دیتے ہیں ۔اس لئے لوگ ظلم و ستم اور جور و جفا کے راستے اور طریقہ پر چل پڑتے ہیں اور اس روش کو اپنا لیتے ہیں ۔ انہیں شروعات میں یقینا مہلت ملتی ہے انہیں ڈھیل دی جاتی ہے لیکن پھر اللہ تعالی ان کی زبردست پکڑ کرتے ہیں پھر وہ خدا کی گرفت سے بچ نہیں پاتے ہیں ۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل اور مہلت دئے جاتے ہیں پھر جب پکڑ کرتے ہیں تو اس کو نجات اور چھٹکارہ نہیں دیتے ۔
ملک عزیز ہندوستان میں پچھلے چند دہائیوں میں اور خاص طور پر گزشتہ چند سالوں میں پورے ملک میں اور خاص طور پر بعض صوبوں اور ریاستوں میں مسلمانوں پر اور دیگر اقلیتوں پر جو ظلم و ستم اور جبر و تشدد اور ناروا سلوک ہوا ہے اور ہو رہا ہے،نفرت کا جو ماحول پیدا کیا جارہا ہے ،انسانیت کا جس طرح قتل و خون ہورہا ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ ہجومی تشدد کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، ان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں، اس نے مسلمانوں کو مایوس ،کم ہمت ،پست حوصلہ اور شکست خوردہ کردیا ہے وہ ایک طرح سے احساس کمتری اور احساس کہتری کے شکار ہوگئے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو لٹا پٹا محسوس کررہے ہیں ۔ ان کو مایوسی ، کم ہمتی اور پست حوصلگی سے نکالنے والے قائدین اور رہنما نہیں مل رہے ہیں ۔ قیادت کا فقدان ہے ، جو قیادت کر رہے ہیں وہ خود اپنوں کی نگاہ میں غیر دانشمندانہ فیصلوں ، قراردادوں اور بیانوں کی وجہ سے مشکوک و متہم ہو رہے ہیں ۔ کہیں نہ کہیں وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور ظالم حکومت کے لئے آلئہ کار بن جارہے ہیں ۔
دوسری طرف وہ طاقتیں اور حکومتیں جو اپنے ظلم و ستم اور جور و جفا کی وجہ سے سر آٹھانے کے قابل نہیں تھیں دنیا جنہیں انسانیت اور مانوتا کا قاتل سمجھا جاتا تھا آج وہ طاقتیں دنیا میں اپنی ذلت و رسوائی اور بدنامی کو چھپانے کے لئے مسلم جماعتوں اور تنظیموں اور ان کے رہبروں و کارندوں کو لبھانے اور پھسلانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کس طرح ان کو دام فریب میں لے کر عالمی طاقتوں کے سامنے رسوائی اور جگ ہنسائی سے بچ جائیں ۔ اس کے لئے وہ بڑی حکمت منصوبہ بندی اور چالاکی و عیاری سے بعض لوگوں اور فرقوں و مسلکوں کے لوگوں کو اپنے سے قریب کررہے ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو ان سازشوں اور عیاریوں سے ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور ان کے ارادوں اور منصوبوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم ظالموں کے ظلم کو فراموش نہ کریں ۔جس نے کبھی اپنے جرم اور ظلم پر معذرت نہیں کی اور نہ مظلموں کے زخم پر مرحم رکھے اور نہ ان کے آنسو پوچھنے کی کبھی کوشش کی ، ہم انہیں اور ان کے ظلم و ستم کو کیسے بھول جائیں ہم انہیں کیسے معاف کردیں ۔ میرے قتل کے بعد بھی تو انہوں نے جفا سے توبہ نہ کیا ۔
اللہ تعالٰی نے ہم کو صرف ظلم سے بچنے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ ہم ظالموں کا ساتھ دیں ان کا تعاون کریں ان کی مساعدت کریں ۔ ان کا آلئہ کار بنیں ۔
مسلمانوں کا یہ شیوہ نہیں ہے،ایک مسلمان کے لیے یہ رویہ درست نہیں کہ وہ حالات سے اور ظالم اور ظالم حکومت سے اتنا خوفزدہ ہوجائے کہ ظالم کو ظالم کہنے کی بھی ہمت نہ کر پائے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تم اس امت کو دیکھو کہ وہ ظالم کی ہیبت اور خوف میں یہ کہنے کی بھی ہمت نہیں کرتی کہ تو ظالم ہو تو پھر ایسے لوگوں سے دوری اختیار کر لو ۔ ( مسند احمد :۲/۱۶۳)
موجودہ حالات یہ ہیں کہ خود مسلمانوں کو ان ہی کے قائدین اور رہنما مایوسی احساس کمتری بے یقینی کم حوصلگی کا شکار بنا رہے ہیں ۔ وہ خود ان کی زبان بند کرنے پر تلی ہوئے ہیں، ایسے حالات میں مسلمانوں کا فریضہ اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کو فراموش نہ کریں اپنے سرمائہ غم کو تازہ رکھیں ،ظلم کو ظلم کہیں اور ظالموں کو ظلم سے روکنے کے لئے جمہوری حدود اور آئین کے تحت پوری کوشش کریں ،عالمی برادری کے سامنے صحیح انداز سے آواز آٹھائیں اور ایسی طاقتوں کم کمزور کرنے کی جمہوری نظام میں جو طاقت ہمارے پاس ہے اس کا صحیح استعمال کریں ۔ اور کبھی اس پر راضی نہ ہوں کہ ہم خود مسلمان بھائ پر ظلم کرنے کی وجہ اور سبب بن جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ مسلمان مسلمان کا بھائ ہے وہ اپنے بھائی پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ظالموں کے حوالے کرتا ہے ۔ (بخاری ) ایسے ظالموں کے ظلم کو فراموش کردینے کی دعوت دینا ان کی طرف سے صفائی دینا ان کو باکل کلن چٹ دینا مسلمانوں کو ظالموں کے حوالہ کر دینے کے مترادف ہوگا ۔ اور جو لوگ ایسے لوگوں کی غلط بات کی بھی تائید کریں گے اور بے جا صفائی پیش کریں گے ۔ حقائق کو غلط انداز سے پیش کریں گے اور خلط مبحت کرتے رہیں گے وہ بھی یاد رکھیں کہ ان کا شمار بھی ظالموں میں ہوگا ۔
ان تنظیموں،جمعیتوں اور جماعتوں کے احسانات کارنامے ، خدمات ،کارکردگی، اور فعالیت سے ذرا بھی انکار نہیں لیکن ایسے مشکل حالات میں اہم ایشوز اور میٹر کو جو بہت نازک اور حساس ہیں بغیر کل جماعتی مشورہ کے حل کرنا پورا پورا کریڈٹ اپنے سر لینا یہ کوئی دانشمندانہ فیصلہ اور درست اقدام نہیں ہے ۔

Comments are closed.