این آر سی کے متعلق ان باتوں پر دھیان دیجئے

مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب، امیر شریعت بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
میں نے کچھ دنوں پہلے ایک اخباری بیان دیا تھا کہ این آر سی (NRC)یعنی نیشنل رجسٹر آف سٹیزن میں داخل ہونے کے لیے ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہئے ۔ میری اس گذارش پر بعض نمایاں شخصیتوں نے مختلف ذرائع سے یہ رائے دی کہ پورے ملک میں این آر سی کا مسئلہ ہوہی نہیں سکتا ، بعض نے کہا کہ حکومت نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے ۔روزنامہ انقلاب نے لکھا کہ یہ کہہ کر مسلمانوں کو بلا وجہ ڈرایا جا رہاہے ، ابھی این آر سی کی بات نہیں ہے ، این پی آر (NPR)یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر کی بات ہے ، اور وہ کام یکم اپریل ۲۰۲۰ء سے لے کر۳۰؍ ستمبر ۲۰۲۰ء تک مکمل کیا جائے گا ۔ اس سلسلہ میں جناب شکیل شمسی (انقلاب دہلی)سے فون پر بات ہوئی ، انہوں نے مجھے مطمئن کرنا چاہااور اپنے موقف کو سمجھایا ، میں نے عرض کیا ،کہ اگر ابھی سے لوگ این آرسی کی تیاری نہیں کریں گے ، اور ستمبر ۲۰۲۰ء کے بعد این آر سی کا معاملہ آگیا ، تو کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کے خلاف لکھوں گا۔ظاہر ہے اس وقت لکھنے سے حکومت کی پالیسی نہیں بدلے گی اور نہ کم وقت میں مسلمان کاغذات اکٹھا کر پائیں گے ۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ این آر سی (NRC)سے باہر رہ جانے والوں میں پریشانی صرف مسلمانوں کو ہوگی۔امت شاہ(موجودہ وزیر داخلہ) نے کہہ رکھا ہے کہ ہندوستانی شہریت قانون (سٹیزن شپ ایکٹ)میں تبدیلی کی جائے گی اور افغانستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش سے جو بھی ہندو ، سکھ، عیسائی ، جینی، بودھسٹ آئے ہیں ، وہ شرنارتھی ہیں ، انہیں ہندوستانی شہریت دی جائے گی ، مسلمانوں کو اس فہرست سے باہر رکھا گیا ہے ، امت شاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اور جو لوگ آئے ہیں وہ گھس پیٹھئے ہیں ، انہیں نکالاجائے گا۔امت شاہ کی اس بات کی تصدیق اس مسودہ قانون (بل)سے بھی ہوتی ہے ، جو پارلیامنٹ میں آچکا ہے ، جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ باہرسے آنے والے ہندو، سکھ، عیسائی، جینی اور بودھسٹ کو شہریت دی جائیگی۔ یعنی مسلمانوں کو نہیں دی جائے گی ۔
یہ وضاحت کافی ہے کہ این آر سی سے جو ہندو ، سکھ ، عیسائی ، جینی اور بودھسٹ باہر رہ جائیں گے، انہیں آنے والے مہینوں میں بننے والے قانون کے مطابق ہندوستانی مان لیا جائے گا،اور جو مسلمان رہ جائیں گے ، انہیں ہندوستانی شہریت نہیں ملے گی ۔این آر سی سے باہر رہ جانے والے مسلمانوں کے بارے میں امت شاہ کی سونچ یہی ہے ، کہ انہیں ہندوستان سے باہر ڈھکیل دیا جائے ۔ مگر ڈھکیلنا بھی آسان نہیں ہے ، قانونی دشواریاں ہیں ، پھر بنگلہ دیش بھی انہیں قبول نہیں کریگا۔ اس لیے جو مسلمان این آر سی سے باہر ہوں گے ان کی زندگی بڑی دشواریوں میں گذرے گی۔
اسی لیے میں نے بار بار یہ بات کہی ہے کہ ابھی سے ضروری کاغذات جمع کیے جائیں ، کاغذات کی تفصیلات بھی شائع ہو چکی ہیں ، کسی کے بیان ، کسی کی تحریر سے خوش فہمی میں نہیں پڑنا چاہئے اور ابھی سے ضروری کاغذات تیار کرنے اور جمع کرنے چاہئیں ۔ابھی ووٹرلسٹ میں ترمیم و تبدیلی کا کام چل رہا ہے ، جو۱۵؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء تک چلے گا ۔ مقامی ذی شعور حضرات، پڑھے لکھے جوان اس کام میں لگ جائیں اور گاؤں گاؤںووٹر لسٹ درستگی کا کام کریں، ساتھ ہی این پی آر اور این آر سی کے متعلق لوگوں کو آگاہ کریں۔
یہ خیال رہے کہ مرکزی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت دے دی ہے کہ ڈٹینشن کیمپ(عارضی قید خانہ )بنایاجائے ، اور صوبوں کو اخراجات بھی مہیا کرادیے گئے ہیں ، اس اقدام سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک میں این آر سی لاگو ہو گا۔
اسی سلسلہ کی دو خبریں اور پڑھ لیجئے ۔
(۱) مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ گوہاٹی میں نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس(این ای ڈی اے) کانکلیو میں حصہ لینے کے لیے پہونچے۔امت شاہ نے اپنے خطاب میں این آر سی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں سبھی کو یقین دلاتا ہوں کہ ایک بھی در انداز آسام کے اندر نہیں رہ پائے گا، اور دوسری ریاستوں میں گھس بھی نہیں پائے گا ۔ ہم صرف آسام کو در اندازوں سے آزاد نہیں کرناچاہتے ہیں بلکہ پورے ملک کو در اندازوں سے آزاد کرناچاہتے ہیں ۔(۹؍ ستمبر۲۰۱۹ء )
(۲) آسام کے بعد اب ایسی خبریں ہیں کہ ریاست مہاراشٹرمیں بھی این آر سی لاگو کرنے کی تیاری ہو ہی ہے ، وزارت داخلہ ریاست مہاراشٹر میں غیر قانونی طریقہ پر رہ رہے لوگوں کو حراست میں رکھنے کے لیے نظر بندی مراکز بنانے کی تیاری کر رہی ہے ۔مہاراشٹر حکومت کی وزارت داخلہ نے نوی ممبئی پلاننگ اتھارٹی سے نظر بندی مرکز بنانے کے لیے زمین دینے کو کہا ہے ۔ حکومت کے اس قدم سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آسام کے بعد مہاراشٹر میں بھی ایسے لوگوں کے پتہ لگانے کی تیاری ہے ، جو غیر قانونی طور پر وہاں رہ رہے ہیں ۔اور ان غیر قانونی لوگوں کو حراست میں رکھنے کے لیے نظر بندی مرکز بنائے جائیں گے۔ (۱۰؍ ستمبر۲۰۱۹ء)

Comments are closed.