بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا فریق و پیرو کار کون!

مقدمہ کے مجموعی ۸؍ فریقوں میں سے۷؍ کا پیروی کنندہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ علماء ہندایک مقدمہ کی پیروی کار
عامر سلیم خان
ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہمار ا سماج، نئی دہلی
ان دنوں سپریم کورٹ میں جاری بابری مسجد ملکیت مقدمہ کے فریق پر اردو حلقہ اور خصوصاً سوشل میڈیا پر جنگی پیمانے کی بحث چھڑی ہوئی ہے ۔ کوئی جمعیۃ علماء ہند تو کوئی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ پر انگلی رکھ رہا ہے ، چہ جائیکہ اتنی بڑی عدالتی معرکہ آرائی میں مقدمہ کی اہمیت اور معاملہ کی سنجیدگی کو موضوع گفتگو بنایا جا ئے ، ایک گروپ ایسابھی ہے ، جس نے علماء اور ملی تنظیموں کو دشنام طرازی اپنا وطیرہ بنایا ہواہے ،فطرۃً یہ گروپ ملی تنظیموں ، علماء اور مذہبی قائدین کی ہجو کر کے بڑا لطف اندو ز ہوتا ہے ، مقدمہ میں لوگ اصلی فریق کی گہرائی تک جانا چاہتے ہیں ، انہیں سب کے درمیان اردو اخبارات کی صحافتی دیانتداری پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک ذمہ دار کا درد کچھ یوں چھلکا کہ کچھ اوروں نے ان کے کندھے پر بیساکھی رکھ کر اردو صحافیوں کو طوائف کا طعنہ تک دے ڈالا اور دل کی ساری بھڑاس نکال ڈالی ۔
بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں مجموعی ۸؍ فریق ہیں ، جن میں ۷؍ کا پیروی کا ر مسلم پرسنل لا بورڈ ہے ، آٹھواں جو اس معاملہ کا اولین فریق ہے ، وہ جمعیۃ علماء ہند ہے ، در اصل حافظ محمدصدیق مرحوم جو جمعیۃ علماء ہند کے اس وقت کے ریاستی ذمہ دار تھے ، انہوں نے بابری مسجد پر رام جنم بھومی ملکیت کی دعویداری اور تنازع کے بعد سب سے پہلے ۱۹۴۹ء میں عدالتی کارروائی شروع کی تھی ، سنی سنٹرل وقف بورڈ جو اس مقدمہ کا دوسرا اہم فریق ہے ، اس کا قیام ۱۹۶۱ء میں ہواتھا، اس طرح اس اہم مقدمہ کی پرانی اور اہم پارٹی جمعیۃ علماء ہند ہے ، جو اب جمعیۃ کے صدر مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی قیادت میں مقدمہ لڑ رہی ہے ، جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ دیگر ۷؍ فریق جن کی پیروی مسلم پرسنل لا بورڈ کر رہا ہے ، اس میں سنی سنٹرل وقف کی دو اپیلیں ، ہاشم انصاری مرحوم کی دو اپیلیں ، جن کی قائم مقامی ان کے بیٹے اقبال انصاری کر رہے ہیں ، مصباح الدین ، حاجی فاروق احمدمرحوم کے صاحبزادے محمد عمراور مولانا محفوظ الرحمن ہیں ۔
بابری مسجدملکیت کے لیے جب فیض آباد میں ۱۹۶۱ء میں مقدمہ فائل ہوا تب اس مقدمہ کے پیروی کنندگان میں بابری مسجد رابطہ کمیٹی اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی تھیں ، سال ۲۰۰۱ء تک یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن جب ان دونوں کمیٹیوں میں سر پھٹول ہواتو معاملہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے آگے آنے کی بات اٹھی ، اور بورڈ نے اپنی آل انڈیا بابری مسجد کمیٹی کے ذریعہ پیروی شروع کر دی ، اس سے قبل بورڈ نے ۱۹۹۰ء میں مسجد میں بت رکھے جانے کے بعد شرعی موقف لیا تھا کہ بت رکھ دینے سے مسجدکی شرعی حیثیت ختم نہیں ہو تی ، اور جب ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو مسجد شہید ہو گئی تب بھی بورڈ نے شرعی موقف لیا کہ مسجد اینٹ گارے کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ جگہ جہاں ایک بار مسجد تعمیر ہوگئی وہ تا قیامت مسجد ہی رہے گی ، بہر حال جب ۲۰۰۱ء میں بورڈ کی بابری مسجد کمیٹی نے پیروی شروع کی تو یہ مقدمہ اور جمعیۃ علماء ہند ودیگر ۶؍کا مقدمہ ۲۰۱۰ء تک الہٰ آباد ہائی کورٹ میں چلتا رہا۔۳۰؍ ستمبر۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ صادر کرتے ہوئے ۷ء۲ ایکڑ زمین کو رام للا ، نرموہی اکھاڑہ اور سنی وقف بورڈ میں تقسیم کر دیا ، اس دوران مسلم پرسنل لابورڈکے علاوہ اس میں مزید ۷؍ فریق تھے ، جس میں ایک جمعیۃ تھی ، اب جومقدمہ سال ۲۰۱۱ء میں سپریم کورٹ میں منتقل ہوا ہے وہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر چیلنج ہے ۔ جس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت جاری ہے ، بتا دیں کہ ۲۰۰۱۔۲۰۰۲ کے دوران جب شیلا پوجن کا معاملہ آیا تھا تو اس پر دہلی کے اسلم بھورے مرحوم نے مقدمہ کیا ، لیکن بورڈ نے کافی غور و خوض کے بعد اطمینان قلب کے لیے خود بھی مداخلت کی تھی اور بحث کے لیے سینیئروکیلوں کپل سبل، سدھارتھ شنکر رے اور ڈاکٹر راجیو دھون کو انگیج کیا تھا، پھر اب جو چیلنج کا مقدمہ سپریم کورٹ میں جاری ہے ، اس میں جمعیۃ علماء ہند اپنے پرانے مقدمہ کی فریق ہے اور بورڈ ۷؍ فریق کی پیروی کر رہا ہے۔
ان تفصیلات اور فریق پر جاری بحث کے تعلق سے بورڈ کے ایک اہم ذمہ دارڈاکٹر قاسم رسول الیا س نے ہمارا سماج سے کہا کہ مقدمہ سبھی تنظیموں اور انفرادی افراد کی مشترکہ کوششوں سے چل رہا ہے ، ہم نے الٰہ آبادہائی کورٹ میں بورڈ کی طرف سے آخری بحث کے لیے ڈاکٹر راجیودھون اور انوپ جارج چودھری کو انگیج کیا تھا، انہوں نے بتایا کہ موجود ہ معاملہ میں بھی وہ جمعیۃ علماء ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے مشترکہ وکیل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اب تک ڈاکٹر راجیو دھون نے پیروی کے لیے کوئی پیسہ مسلم فریق سے نہیں لیا ہے ۔ہم نے ہائی کورٹ کے لیے انگیج کرتے ہوئے ادائیگی کے لیے کہا بھی تو ان کا کہنا تھاکہ اس مقدمہ کے لیے میں پیسہ نہیں لوں گا ۔ علاوہ ازیں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کو ہم (بورڈ) باضابطہ محنتانہ دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ بابری مسجد کے مقدمہ میں جمعیۃ سب سے پہلی فریق ہے ، کیوں کہ بورڈتو ۱۹۷۲ء میں قائم ہوا ہے ، فی الحال بورڈ ۷؍ فریق کی پیروی کر رہا ہے اور جمعیۃ اپنے سب سے پہلے مقدمہ کی پیروی کر رہی ہے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اخبارات اگر اسی بات کو بابری مسجد کی خبر میں بطور فریق لکھیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ، کیوں کہ جمعیۃ بھی تو ہماری ہی تنظیم ہے۔
ادھر جمعیۃ علماء ہند کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ جمعیۃ علماء ہندمقدمہ کی فریق اول ہے ، جمعیۃ اس معاملہ میں رام للا کے براجمان ہونے کے بعد ۱۹۴۹ء سے ہی نہیں بلکہ ۱۹۳۴ء میں بھی تناز ع کے وقت جمعیۃ نے ہی معاملہ میں اقدامات کیے تھے ،بہر حال دونوں جماعتوں اور دیگر ۶؍ فریقوں کی مشترکہ کوششوں سے مسجد کی ملکیت کا مقدمہ لڑا جا رہا ہے۔جمعیۃ وہ جماعت ہے جس نے ۱۹۱۹ء سے آج تک دیش، سماج اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی بھر پور نمائندگی کی ہے اور آزادی کی تحریک میں حصہ لیا ہے ، وہیںمسلم پرسنل لابورڈسے کئی اہم حصولیابیاں جڑی ہوئی ہیں ۔تنقید کنندگان کو خاص طور پر سمجھنا چاہئے کہ بورڈ نے اوقاف ترمیمی قانون کے دوران بڑی محنت کی تھی اوروقف قانون میں کئی ترامیم کے لیے دن رات کی محنت سے کامیاب قانون تدوین کرایاتھا، اس لیے تنظیم اور علماء بیزار افراد کو ملی جماعتوں ، علماء اور مذہبی قائدین و مفتیان پر انگلی اٹھانے یا زبان درازی سے قبل کچھ عقل کے ناخن لے لینا چاہئے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.