حسیناؤں کے ذریعے حکومت کاتختہ پلٹنے کی کوشش!

 

نازش ہماقاسمی

سیاست میں خواتین کا استعمال ہزاروں سال سے چلا آرہا ہے، بڑی بڑی سلطنتیں خواتین کی وجہ سے تباہ و تاراج ہوئیں، بڑے بڑے سیاسی قائدین خاتون کی وجہ سے بے دست وپا ہوئے۔ ان کے عشق کے جال میں پھنس کر اپنی سلطنتیں گنوائیں، اپنی عظمتوں کو کھویا۔ صلیبی وصہیونی جنگوں میں جگہ جگہ اس کام کے لیے خواتین کے استعمال کا تذکرہ ملتا ہے کہ بڑے بڑے شاہوں، فرما نرواؤں، قائدین، مذہبی پیشواؤں کو یہود ونصاریٰ اپنی لڑکیاں ہدیہ دے دیا کرتے تھے اور وہ لڑکیاں انہیں اپنے حسن کے جال میں پھنسا کر ان کی جاسوسی کیا کرتی تھیں اور ان کا ایمان کمزور کرکے بڑے بڑے سودوں پر دستخط کروالیا کرتی تھیں، اور ان مسلم قائدین کے ہاتھوں سے تخت وتاج چھین کر آسانی سے یہود ونصاریٰ کو پیش کردیا کرتی تھیں۔ صلیب پر حلف لینے والی لڑکیوں کےنزدیک ان کا جسم اہم نہیں ہوتاتھا؛ بلکہ صلیب اہم ہوتا تھا ان کا کہنا تھا کہ ہمارا جسم ٹوٹ جائے، لیکن صلیب کبھی نہ ٹوٹے۔ اور انہوں نے اپنے جسم سے وہ فائدہ اُٹھایا جو بنا جسم دیے ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے بڑے بڑے سورماؤں کو اپنی اداؤں سے عاشق بنالیا ، اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر کرلی ، بڑے بڑے بادشاہ ان کے حسین و جمیل چہروں پر فریفتہ ہوگئے، ان کے نزدیک مسلم سربراہوں کو تباہ کرنے کے لیے دس مسلمانوں کے ساتھ راتیں بسر کرنا گوارہ اور جائز و کارِ ثواب تصور کیاجاتا تھا۔ وہ لڑکیاں اپنے جسم سے مسلم رہنماؤں وقائدین کو ناپاک کرنا کار خیر سمجھتی تھیں۔

اس طرح کی چیزیں اپنے ملک ہندوستان میں نہ کے برابر تھیں، بہت کم اسکینڈل سامنے آتے تھے؛ لیکن حالیہ دنوں مدھیہ پردیش سے جو ہنی ٹریپ اسکینڈل کا معاملہ سامنے آیا ہے اس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ کس طرح سیاسی پارٹیاں اس گھناؤنے کام کے لیے خواتین کا استعمال کررہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہنی ٹریپ گروہ کا جو پردہ فاش ہوا ہے ان کے ذریعے اب تک تقریباً تیس بڑے بڑے سیاسی لیڈران، سابق آئی پی ایس افسران وغیرہ ان کے شکار بنے ہیں۔ اس گروہ کا شکار ہونے والوں میں سابق وزیر اعلیٰ بابو لال گور، سابق گورنر کپتان سنگھ سولنکی، بی جے پی کے سابق ریاستی وزیر اروند مینن، سابق ممبر پارلیمنٹ آلوک سنجر، سابق وزیر وجے شاہ، آئی اے ایس پی سی مینا، ساگر کے سابق کلکٹر رمیش کمار اور اندور و ستنا ضلع کے دو ممبر اسمبلی ہیں۔ یہ لڑکیاں ان سیاسی لیڈران کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کی ویڈیو بنایا کرتی تھیں اور ان سے رقم کا مطالبہ کیا کرتی تھیں نہ دینے کی صورت میں ویڈیو کو عام کرنے کی دھمکیاں دیتی تھیں۔ وہ لڑکیاں اونچے عہدوں پر اپنے اہل خانہ کو براجمان کرنے کے علاوہ کروڑوں کے ٹھیکے، اپنے این جی اوز کو بڑی رقم وغیرہ دلانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ ایک اطلاع تو جھنجھوڑ کر ہی رکھ دیتی ہے کہ ان حسیناؤں کا اپنے آقاؤں کی شہ پر مدھیہ پردیش میں حکومت گرانا بھی مقصد تھا اطلاع کے مطابق ۷ کانگریسی ممبران اسمبلی کو پھنسا کر وہ وہاں حکومت گرانے کی کوششوں میں مصروف تھیں جن میں سے دو کو ٹارگٹ کرچکی تھیں اور تیسرے کی تیاری چل رہی تھی۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی کے سابق وزیر کے اشارے پر یہ کام انجام دیاجارہا تھا ان کا مقصد ریاست میں حکومت کاحصول تھا۔ سویتا جین نامی لڑکی کا نام سامنے آیا ہے یہ لڑکی حسیناؤں کے گروہ میں اہم کردار ادا کررہی تھی، ۲۰۱۲ سے اس کا تعلق بی جے پی کے بڑے لیڈروں سے تھا اس نے ۲۰۱۳ میں ممبر اسمبلی کا چناؤ لڑنے کےلیے ٹکٹ بھی طلب کیا تھا؛ لیکن اس کا متنازع ویڈیو وائرل ہونے سے دعویداری ختم کردی گئی۔ تبدیلی اقتدار کے بعد سویتا جین نے حسیناؤں کا دو گروہ بنایا ٹیم اے میں سویتا وجے جین کے ساتھ ریوا شہر میں رہ رہی اس کی سہیلی سویتا سواپنل جین، لوپ لائن میں پڑے تین آئی اے ایس، دو آئی پی ایس، تین سابق وزیر، چار ممبر اسمبلی بھی تھے اس میں تین دیگر لڑکیوں کو جوڑ رکھا، سویتا کے بھروسے مند تین سابق وزیر میں ایک حکومت گرانے کا بار بار بیان دے کر سرخیوں میں رہے ہیں، یہ ٹیم حکومت سے این جی او کے نام پر پیسے کماتی تھی سویتا سواپنل جین اس کے علاوہ الگ سے بھی کمالیتی تھی۔ دوسری ٹیم میں سویتا نے کانگریس میں رسوخ رکھنے والی برکھا کو اہم بنایا، اس کی مدد کےلیے آرتی دیال کو معاون بنایاگیا، اس میں تقریباً ۱۹ لڑکیوں کو شامل کیاگیا، انہیں سیاسی گلیاروں میں پہلے نہیں دیکھاگیا تھا، ان ہی لڑکیوں کی افسر اور نیتاؤں کے ساتھ تعلق بنانے کی ویڈیو برآمد ہوئی ہیں۔ گرفتار حسیناؤں نے اپنا جرم بھی قبول کرلیا ہے کہ ہمیں بڑی بڑی رقمیں اور فلیٹ اور بنگلے اس کے عوض حاصل ہوئے ہیں۔ آرتی دیال نے بتایاکہ ہمارے فلیٹ کے کچھ کمروں میں خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے، جہاں لیڈروں، افسروں اور سرکاری انجینئروں کی برہنہ حالت کی ویڈیو گرافی کی جاتی تھی، آرتی نے تویہ بھی بتایا ہے کہ میں نے کچھ معاملوں میں بالی ووڈ کی بی گریڈ اداکارہ، ماڈلس اور کال گرلس کو بھی ان لیڈران کے لیے مہیا کرایا ہے۔ کانگریس حکومت نے اس کی سرپرستی کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یہاں حکومت سازی کے لیے اس طرح کے گھناؤنے اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ کانگریس نے ملزم حسیناؤں کی دو تصویریں شیئر کی ہیں۔ ایک تصویر میں سویتا جین ریاست کے بڑے بی جے پی لیڈر کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھی ہوئی ہے تو دوسری طرف آرتی دیال ایک پروگرام میں نظر آرہی ہے۔ کانگریس سکریٹری راکیش سنگھ یادو نے الزام لگایا ہے کہ تصویر میں سویتا جین کھرئی حلقہ اسمبلی میں بی جے پی کے چناؤ پرچار کے لیے سجے اسٹیج پر بیٹھی ہوئی ہے، دوسری تصویر میں آرتی دیال کچھ دیگر خواتین کے ساتھ سیلفی لینے میں مصروف ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے اپنے لیڈروں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے پر پارٹی اکائی سے رپورٹ طلب کی ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہوتا ہے اس معاملے میں جس پارٹی کے لیڈران آپسی رضا مندی سے اپنا جسم ایک دوسرے کو سونپتے ہوں، بڑا وزیر ایک لڑکی سے مالش کراتا ہوا نظر آئے، کلدیپ سنگھ سینگر جیسا لیڈر بھی دکھائی دے، پردیپ جوشی جیسا انسان بھی ہو، کشمیری لڑکیوں کے تعلق سے بیان دینے والا کھٹر جیسا وزیر اعلیٰ بھی ہو، رینا ٹھاکر اوپین پنڈت جیسے یوتھ لیڈر ہوں تو اس پارٹی میں شامل لڑکیاں اگر دوسری پارٹی کے لیڈران، وعہدیداران کو اپنے جسم، اپنی اداؤں سے پھنسا کر بڑی بڑی رقموں کا حصول اور حکومت پلٹنے کا خواب دیکھتی ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟….. اس پر حیرت اور تعجب کیوں ہے؟؟؟

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.