سوشل میڈیا، لایعنی بحث اور تباہی

 

اتواریہ: شکیل رشید

وہ قومیں جو لایعنی بحث کرتی ہیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

اور تباہی تو ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ہے۔ ہمارے دشمن ہمیں مٹانے کےلیے وہ کون سے حربے ہیں جو آزما نہیں رہے ہیں ! کبھی مسلمان اس ملک کے حاکم تھے پر آج محکوم ہیں۔ اللہ رب العزت کسی حاکم قوم کو یونہی محکوم نہیں بنادیتا۔ جب وہ لوگ جن کا کام لوگوں کو صراط مستقیم دکھانا ہے خود صراط مستقیم سے ہٹ جاتے ہیں، جب بات بات پر ظلم کیا جانے لگتا ہے، جب مظلومین کی آہ ایک شور کا روپ دھار لیتی اور آسمان کو ہلادیتی ہے تب اللہ رب العزت کو جلال آتا ہے اور وہ سب کچھ زیروزبر کردیتا ہے او رحاکم، ظالم، مغرور، گھمنڈی، وہ جنہوں نے اپنی امت، ملت، اور قوم سے آنکھیں پھیرلی ہوں، جو قیادت کی امانت میں خیانت کرتے ہوں پلک جھپکتے محکوم بنادئیے جاتے ہیں او ران پر دوسروں کو مسلط کردیاجاتا ہے۔ کیا آج ہم پر دوسرے مسلط نہیں ہیں؟

ہم کو یہ فکر نہیں ہے کہ اس ملک میں ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک مسلمان ستائے جارہے ہیں، انہیں مارا پیٹا جارہا ہے، ہجومی تشدد میں ہلاک کیاجارہا ہے، ان کے بچوں کی بڑی تعداد کو بزدل بنایاجارہا ہے۔ شریعت پر حملہ ہے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی تیاری ہے۔ این آر سی کے بہانے انہیں ملک بدر کرنے کی چال چلی جارہی ہے، ان پر تعلیم، روزگار، ملازمتوں اور باعزت زندگی گزارنے کے ہر دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ پر ہمیں یہ فکر ستارہی ہے بلکہ کھائے جارہی ہے کہ ’ندوی اور قاسمی‘ میں برتر کون ہے؟ اورنگ زیب ولی تھا یا نہیں تھا؟ مولانا سلمان ندوی آر ایس ایس کے ایجنٹ ہیں یا مولانا محمود مدنی؟ کیا مولانا ارشد مدنی نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ساز باز کررکھی ہے؟ او رنہ جانے کتنے ہی ایسے سوالات ہیں جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں سے اچھالے جارہے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کہ لوگ ان کی پگڑیاں اچھالتے ہیں جو انہیں ناپسند ہوں۔ سوالات کیے جائیں کوئی پابندی نہیں پر کسی کو ذلیل کرکے نہیں، بلند اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ لیکن آج ذلیل کرنے والے سوالات کیے جارہے ہیں۔ اور سوالات اور جوابات کے اس سارے عمل میں ماں، بہن، بیٹی کی گالیاں تک دے دی جاتی ہیں۔ ابھی چند روز قبل ایک ’عالم دین‘ نے ۔۔۔قاسمی صاحب ہیں۔۔۔ایک سینئر صحافی کو خوب ماں بہن کی گالیاں دیں۔ ان گالیوں سے کیا حاصل ہوگیا! سوائے اس کے کہ ساری دنیا یہ جان گئی کہ مولوی بھی گالیاں دیتے ہیں اور بے طرح سے دیتے ہیں۔ ’صبر‘ کو ہم نے چھوڑ دیا ہے حالانکہ قرآن پاک نے ’صبر‘ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے ’صبر‘ کا عملی مظاہرہ کیا ۔ صحابہ کرام ؓ ’صبر ‘ کے پیکر تھے۔

ہمار ا ایک دوسرے پر ’حق ‘ ہے۔ یہ حق کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ، درد میں شریک ہوں، ایک دوسرے کے مددگار بنیں اور ایک دوسرے کے مسائل اورمصائب کو حل کریں۔اس ’حق‘ کی ادائیگی کاآج سے بڑھ کر اور کوئی دن نہیں آئے گا کہ آج ہی ہم ان مصائب او رمسائل میں گھرے ہوئے ہیں ، جن کا ہم نے کبھی تصور نہیں کیاتھا۔ مرکز ی حکومت نے ایک بار پھر سے ’پاکستان‘ کے نام کا سیاسی استعمال زوروشور سے شروع کردیا ہے۔ مہاراشٹر، ہریانہ اسمبلیوں کے الیکشن جو ہیں! ضمنی انتخابات میں بھی ’پاکستان‘ کے نام پر لوگوں کے ووٹ کا حاصل کرنا برسراقتدار پارٹی کےلیے مشکل نہیں ہوگا۔ لہذا ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم ’پاکستانی‘ نہیں ’ہندوستانی ‘ ہیں یہ بات حکومت جان لے۔ ’پاکستان‘ کے نام پر ہمیں بلی کا بکرا بنانے کی کوشش کوئی نہ کرے۔ مسلم قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینا پڑیں گے۔ آزادی کے فوراً بعد جو مسلم قیادت تھی وہ مخلص بھی تھی اور جرأت مند بھی۔ لیکن آج جو مسلم قیادت ہے اس کے خلوص پر انگلیاں اُٹھتی ہیں او ربجا اُٹھتی ہیں۔ مسلم قیادت کو اپنی قوم کے ساتھ، ملت اور امت کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، اس کے مسائل اور مصائب کے خاتمے کےلیے زور دار آواز اُٹھانی ہوگی، اسی جرأت کے ساتھ جو ماضی کی مسلم قیادت میں تھی۔ ایسا نہ ہوا تو اللہ کا غضب اور تیز ہوگا۔ ایک عالم دین بتانے لگے کہ بے وقت ایسی بارش ہو جو عذاب بن جائے اور دولت کنجوسوں کے ہاتھوں میں چلی جائے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہے۔ آج بارش بھی عذاب بنی ہوئی ہے اور دولت مند کنجوس بھی ،کہ وہ خیر کے کام نہیں کررہے ہیں۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔

Comments are closed.