طوفان ارتداد کی آمد کا اندیشہ( تیسری اور آخری قسط)

تحریر: شاداب ظفر میرٹھی
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہم سب کی نگاہوں سے گزری ہے جس میں آپ نے اپنی غیور قوم کو چودہ سو سال پہلے آگاہی دے دی تھی؛
جس میں آپ ﷺ نے اپنی قوم کے مجبور و مقہور لوگوں کے لئے دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا تھا:
"فاقہ انسان کو کفر کے دہانے تک لے جاتا ہے۔”
یعنی فاقے جیسی کیفیات دینِ اسلام سے منہ پھیر لینے پر بھی مجبور کردیتی ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں یہ بلائے عظیم جو شہریت منسوخی کی صورت میں ہندی مسلمانوں پر پڑنے والی ہے فاقے سے بھی بڑی ہے جو ایک ناخوشگوار خبر صاعقہ بن کر نازل ہونے والی ہے!
اب بھی ہمارے علماء قائدین اور مسلم دانشوران اس جانب توجہ نہیں دیں گے، اپنے سادہ لوح ہندی مسلمان بہن بھائیوں کی خبر گیری اور خیر خواہی کے بارے میں فکر نہیں کریں گے تو نتائج بہت خطرناک وارد ہونے والے ہیں۔
جو عین ہمارے لاشعوری اور لاابالی پن کا مظہر ہوں گے!
جس کی وجہ سے اسلام کے نام لیوا غیر اسلامی نام رکھیں گے اور اپنے کو غیر اسلامی باور کریں گے کاغذات میں غیر مسلم لکھنا مجبوری بن چکا ہوگا۔
لیکن اگر موجودہ صورتحال کی طرح ہم نے پھر بھی ان کے ساتھ حکمت کی آنکھ مچولی کھیلی، اور حکمت کے پھٹے ہوئے لبادے کی بقا کی خاطر ان کے دین و ایمان کی قربانی مانگ لی تو ایک عدد حالت اضطراری کا فتویٰ ان کے گلے میں ٹانگ دیا جائے گا۔
اور ہم ان مسلمانوں کو غیر مسلم ہونے پر بتکلف راضی کر لیں گے۔
لیکن کبھی ہم نے سوچا ان کی نسل اور نسل در نسل کا کیا ہوگا؟
ان کی آل و اولاد کس مذہب کی پیروکار ہوگی؟
ہم نے نہیں سوچا؛ لیکن اگر ہم نے اس بارے میں سوچا تو غیر مذہبیت ان کا مقدر ہوگا اس میں کسی ذی ہوش کو ذرہ برابر اختلاف رائے نہیں!
اسی لئے محسن انسانیتﷺ نے کفر و ارتداد پر پُر زور انداز میں نکیر فرمائی تھی:
حضرت معاذ ؓ کے واسطے سے پوری امت کو یہ وصیت فرمائی ہے کہ ” کسی حال میں شرک نہ کرنا خواہ تم قتل کردیے جاؤ یا جلا دیے جاؤ ( مسند احمد ) ”۔
اسی مضمون پر مشتمل پوری ایک سورت قرآن میں سورہ کافرون کے نام سے موجود ہے ۔ اس سورت کا بنیادی مضمون ہی یہ ہےکہ کفر اور شرک پر کسی صورت میں کوئی مصالحتی معاہدہ یا حمکت کا معاملہ نہيں ہو سکتا!
لہٰذا شہریت ترمیمی بل پر یکطرفہ خاموش حمایت طوفان ارتداد اور مذہب بیزاری کے راستے کھلنے سے پہلے ہمیں اس کے تدارک کے بارے میں سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ورنہ ایک دن لاکھوں لوگ دین سے دور اس کے ماننے والوں سے بیزار ہوکر اس دین متین کو چھوڑ رہے ہوں گے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔
جس کے بارے میں خاص طور سے اہل علم اور اہل عقل سے کل قیامت کے دن باز پرس کی جائےگی!
جب کہ اللہ تعالی کا صریح ارشاد ہمارے سامنے موجود ہے: ” اے ایمان والو ! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں "۔ (التَّحريم)
اسی کے مشابہ اور ذمہ داری بھرا پیغام نبی کریم ﷺ سے منقول ہے :
جس کسی بندے کو اللہ تعالی رعایا کی ذمہ داری دیتا ہے اور اس کی موت اس حالت میں ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکہ کرنے والا ہے تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کردیتا ہے( صحیح بخاری و صحیح مسلم ) –
ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہم قوم کے ذمہ دار علماء و صلحاء، مشائخ و کبار دھوکہ کرنے والوں میں تو شامل نہیں ہیں؟
ہم نے ان کو اپنے مفادات کی خاطر بلی کا بکرا تو نہیں بنادیا ہے؟
مذکورہ حدیث ہماری چشم پوشی اور کوتاہ بینی پر وعید کے زمرے میں تو نہیں ہے؟
اس حدیث نے ہمیں ہمارے اعمال کی طرف متوجہ کرنے کا کام اگر نہیں کیا تو پھر ہماری حس، ہماری ایمانی غیرت و حمیت اور ہمارا دین کا محافظ ہونے کا خوش کن نعرہ بےسود اور رائیگا ہوسکتا ہے!
ہمیں اپنے مسلم سماج اور سادہ مزاج و کم علم قوم کے دین و ایمان کے فکر کرنی ہے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم آئین ہند کا سہارا لے کر مذہبی بنیاد پر شہریت کے بیانات اور بل کے خلاف پُر زور احتجاج درج کراتے اور تمام ملی قیادتیں اس معاملے میں غیر جانبدار اور مسالک و مکاتب کی حدود سے بالاتر ہوکر ساتھ کھڑی ہوتیں اور کندھے سے کندھا ملا کر اس کا تعاقب کرتیں؛ لیکن:
وائے افسوس متاع کارواں جاتا رہا۔
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا۔
یاد رکھیں یہ زمانہ کنویں کو پیاسے کے پاس خود جاکر تشنگی بجھانے کا ہے؛
تاکہ اسلام اور ایمان کی عظمت و رفعت ان کے ذہن و دماغ میں جاگزیں اور باقی رکھی جاسکے،
نسل نو کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اس بات سے آگاہ کریں کہ ایمان اور اسلام ہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ اور مایۂ ناز دولت ہے؛ اس لیے کہ دونوں جہاں کی کامیابی اسی ایمان پر منحصر ہے ۔
انہیں مکی دور میں صحابہ کرام کے مجاہدات سے روشناس کرائیں اور بتائیں کہ ایمان و اسلام کی حفاظت اور بقا کےلئے ادنی سے ادنی مسلمان بھی جان، مال اور اہل و عیال کو نظر انداز کرسکتا ہے اپنی جان کا نظرانہ تو پیش کرسکتا ہے؛
لیکن اس ایمانی سرمایے پر کسی سمجھوتے اور سودے کےلئے تیار نہيں ہوگا۔
اگر ہم نے دینی و ملی بیداری پیدا نہیں کی اور حالات حاضرہ میں ان کا ساتھ نہیں دیا تو تاریخ کے اوراق میں ارتداد کا طوفان بلاخیز فتنۂ تاتار و سقوط اندلس کے حالات ہند میں دوہرائے جائیں گے اور ہم میں سے ہر ایک نام نہاد مصلحت پسند، اور بزعم خود ہندی مسلمانوں کی قیادت و سیادت کے دعویدار اس عظیم جرم میں یکسانیت کے ساتھ شریک ہوں گے۔
ہم اس تحریر کو ڈر خوف کا نام دے سکتے ہیں؛ لیکن حالات سے چشم پوشی اور کانوں میں انگلیاں ڈالنے سے حالات کا دھارا یا اس کے برے نتائج یکسر تبدیل نہیں ہوں گے ہمیں اپنی قوم، ملت اور مسلم کیمونٹی کے لئے آگے آنا ہوگا اور وقت رہتے کچھ کرکے اپنی مساعئ جمیلہ کو سر انجام دینا ہوگا جس کے بعد ہمیں اپنی ناکامی ناکارکردگی پر شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہم حتی المقدور کوشش کرکے اپنے رب کے سامنے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے اپنے مسلم بھائیوں کے لئے جو بن پڑا کیا تھا؛ لیکن ہم پھر بھی تقدیر کے آگے مجبور ہوگئے تھے؛ لہٰذا غور و فکر کریں.
حالات و واقعات اور مشاہدات حالیہ سے سبق لے کر مستقبل کے لئے ایک متفقہ پلیٹ فارم بناکر لائحۂ عمل مرتب کریں۔
ان شاءاللہ ہماری مختصر سی کد و کاوش اور اس اہم و مہتم بالشان معاملے پر چند غور و فکر کے لمحات بارآور اور مفید ثابت ہوں گے.
اور اس کے بہترین و عمدہ دور رس اور کامیاب ترین نتائج برآمد ہوں گے۔
Comments are closed.