جہاں میں آئی دیوالی بڑے چراغ چلے__!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
ہندوستان میں بالخصوص براداران وطن کے مابین منائے جانے والے تمام تہواروں میں دیپائولی یا دیوالی سماجی اور مذہبی دونوں نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اسے دیپ اتسو بھی کہتے ہیں۔ اسے ہندووں کے ساتھ ساتھ سکھ، بودھ اور جین مذہب کے لوگ بھی مناتے ہیں۔ میتھالاجی کے مطابق دیوالی کے دن ایودھیا کے راجہ شری رام چندر اپنے چودہ سال کے بن باس کے بعد واپس آئے تھے۔ سخت محنت اور جفاکشی کے بعد اور راون کی لنکا پھونک ڈالنے کے بعد واپس ہوئے تھے، فرعون وقت کا سر کچل کر اور تخت و تاج کے نشہ میں چور شخص کا گھمنڈ توڑ کر آئے تھے، چنانچہ اہل اودھ کا دل اپنے انصاف پرور راجہ کی آمد سے خوش تھا، وہ دل کھول کر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرنا چاہتے تھے؛ لہٰذا ان کے استقبال کیلئےگھی کے دیئے جلائے، راستے، گلیاں، کوچے اور شہر بھر میں دیپ جلائے گئے۔ کارتک ماس کی گھنی، کالی اماوس کی وہ رات دیوں کی روشنی سے جگمگا اٹھی۔ تب سے آج تک بھارت میں بسنے والے، ہر سال یہ روشنی کا تیوہار خوشی ومسرت سے مناتے ہیں۔ یہ تہوار زیادہ تر اکتوبر یا نومبر مہینے میں پڑتا ہے۔ دیوالی اندھیرے سے روشنی میں جانے کی علامت ہے۔ اس تیوہار سے یہ باور کرایا جاتاہے؛ کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے اور باطل کا ناش ہوتا ہے۔ دیوالی یہی سبق دیتی ہے؛ کہ تکبر زمین دوز ہوجاتا ہے، حکومت کا نشہ مٹ جاتا ہے، عوام پر ظلم کا حامی ختم کردیا جاتا ہے، اور ہمیشہ اندھیرے کے بعد ایک نئی صبح بیدار ہوتی ہے، ایک نئی کرن نکلتی ہے۔
یہ تیوہار بڑی خوشی و جشن کے ساتھ منایا جاتا ہے، گھروں میں دیپ جلائے جاتے ہیں، نئے نئے سامان کی خریداری، بازار کی رونق اور بجلی کے قمقموں کی روشنی قابل دید ہوتی ہے، ہر جگہ خوشیاں بانٹنے اور حق کا علم لہرانے کی قسم کھائی جاتی ہے، رام کو یاد کر کے راون کی بربریت اور ناحق کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ زندہ کیا جاتا ہے، یہ تیوہار اک اجالا ہے، روشنی ہے کہ زندگی بھی روشن رہے، انسانیت خوشی و مسرت سے جھومے اور ایک ایسا ملن و سنگم پیدا ہو؛ کہ انسانیت رشک کرے، یہ بھی حقیقت ہے کہ اک زمانے تک یہ تہوار یونہی منایا جاتا تھا، مذاہب کی پابندیوں کے باوجود لوگ ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلاتے اور مبارکبادیاں پیش کرتے تھے، لیکن ادھر چند سالوں سے فاشسٹوں نے اس خوشی میں پائی جانے والی عظیم شئی بھائی چارگی کو بھی نگل لیا ہے، اب دیپ جلتے ہیں؛ لیکن نفرت کے ساتھ۔ تعصب و تشدد کے ساتھ۔ پورا ملک عجب موڑ پر ہے، ہر ایک کی شکل مشکوک کردی گئی ہے، اب غموں میں شریک ہونے کا مزاج نہیں؛ تو خوشیوں میں شرکت کا بھلا کیا سوال کیا جائے؟ اب وہ دن لد گئے جب ہر گھر کے سامنے دیپ ہوتا تھا اور محبت کا دیا روشن ہوا کرتا تھا، بسنتوں کی وہ رنگینیاں گم ہوگئیں، اب نہ عید کی مٹھاس ہے اور نہ دیپ کہ روشنی ہے، اخوت و مودت کا جنازہ نکل گیا ہے، بھائی چارگی قربان ہوگئی ہے، کیوں نہ اس بار بھائی چارگی کا دیپ جلایا جائے، ہندوستان کی قدیم تہذیب پر عمل کرتے ہوئے اتحاد کا قمقمہ روشن کیا جائے، مذاہب کی پابندیاں ضرور ہوں؛ لیکن نفرت کا بیج بارآور نہ ہونے پائے، اگر ایسا نہ کیا تو کیف بھوپالی کی زبانی بس یہی کہتے رہ جائیں گے:
وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا
دشہرے سے دیوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے
28/10/2019
Comments are closed.