آؤ دوسرا اسپین بنائیں!

۔
عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ
معمارحرم بازبہ تعمیرجہاں خیز
قسط نمبر: 2
(مقالہ برائےسیمینار HNC، بی ایچ ای ایل بھوپال، 7؍ نومبر 2019ء)
بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
(مہدپور ضلع اجین، ایم پی)
ترتیب: مفتی محمد توصیف صدیقیؔ
دعوت کی ضرورت
ہمارے اپنے وجود اور ہستی کو باقی رکھنے کے لئے دعوتِ اسلام کی ضرورت ہے،اگر ہم دعوت میں کوتاہی کریں گے تو ہمارا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ اسے قرآن مجید کی سورہ اعراف کی آیت نمبر 138؍ و 139؍ سے سمجھیں:
وَ جٰوَزۡنَا بِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتَوۡا عَلٰی قَوۡمٍ یَّعۡکُفُوۡنَ عَلٰۤی اَصۡنَامٍ لَّہُمۡ ۚ قَالُوۡا یٰمُوۡسَی اجۡعَلۡ لَّنَاۤ اِلٰـہًا کَمَا لَہُمۡ اٰلِـہَۃٌ ؕ قَالَ اِنَّکُمۡ قَوۡمٌ تَجۡہَلُوۡنَ ﴿الاعراف: ۱۳۸﴾
اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا ہُمۡ فِیۡہِ وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿الاعراف: ۱۳۹﴾
*ترجمہ:* اور ہم نے بنی اسرائیل سے سمندر پار کروایا، تو وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں سے لگے بیٹھے تھے، بنی اسرائیل کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی کوئی ایسا ہی دیوتا بنا دو جیسے ان لوگوں کے دیوتا ہیں۔ موسیٰ [علیہ السلام] نے کہا: تم ایسے (عجیب) لوگ ہو جو جہالت کی باتیں کرتے ہو۔
ارے یہ لوگ تو وہ ہیں کہ جس دھندے میں لگے ہوئے ہیں سب برباد ہونے والا ہے، اور جو کچھ کرتے آرہے ہیں، سب باطل ہے۔
آیت بالا میں انسان کی فطری کمزوری کا بیان ہے، کہ انسان جس ما حول میں ہوگا تو اس ماحول سے متأثر ہوگا۔ اس کی بڑی اور ناقابل تصور مثال بنی اسرائیل ہیں۔ بنی اسرائیل بالکل بے سہارا تھے، ان پر بے انتہا ظلم ہو رہا تھا، ان کے بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جاتاتھا، اور (بیگار کے لئے) ان کی عورتوں کو زندہ رکھا جاتا تھا(سورہ اعراف، آیت نمبر141) بنی اسرائیل کے قبولِ ایمان اور فرعون کے انکارِ ایمان کے بعد فرعون پر اللہ کا عذاب آیا اور بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے فرعون مع لاو لشکر دریا میں غرق کردیا گیا۔ (الشعراء آیات نمبر: 61؍ تا 66؍)
ظالم حکومت کو پوری طرح تباہ کرکے اس بے سہارا اور مظلوم قوم کو ایمان باللہ اور ایمانی تقاضوں پر صبر کی وجہ سے اللہ نے شان و شوکت کے ساتھ اُسی ملک میں حکومت عطا کی۔(اعراف، آیت نمبر: 137؍)
*یعنی اس قوم نے*
1۔ اپنی آنکھوں سے اللہ کا عذاب دیکھا۔
2۔ اپنی ذات پر اللہ کا انعام دیکھا۔
3۔ اس کے درمیان اللہ کے نبی حضرت موسی علیہ السلام موجود ہیں۔
لیکن جب وہ مشرکانہ ماحول میں پہنچی اور مشرکانہ سنگت ملی تو آنکھوں دیکھا اللہ کا عذاب، اللہ کا انعام، اور اپنے نبی کی تعلیمِ توحید کو فراموش کرکے بت پرستی کا مطالبہ کرنے لگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بت پرستی یا کسی بھی غلط ماحول میں، آنکھوں دیکھا اللہ کا عذاب، انعام، نبی کا موجود ہونا بھی دین وایمان کو بچانے کے لئے کافی نہیں ہیں۔
اب ہم اپنا ماحول دیکھیں کہ: ہر نالہ، گٹر، ٹیلہ، پہاڑ، چَورَاہا، اسپتال، سرکاری عمارات، غرض ہر مقام پر بت پرستی، مشرکانہ اعمال و رسومات، نشانات وعلامات کی ظلمت وغلاظت موجود ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے کسی کافر و مشرک پر اللہ کا عذاب آتے ہوئے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ ہی توحید کی وجہ سے بہ ظاہر کوئی خاص انعام بھی اُس طرح ہم نے اپنی ذات پر دیکھا، جس طرح بنی اسرائیل نے دیکھا تھا، نیز ہماری کوتاہیوں پر روک ٹوک فرمانے کے لئے ہمارے درمیان ہمارے نبی علیہ السلام موجود نہیں ہیں۔
اب غور کریں کیا بنی اسرائیل کی طرح ایسے ماحول سے متأثر ہوکر ہمارا وجود نہیں ختم ہو سکتا ہے۔؟
نہیں! نہیں! اگر ہم دعوتِ اسلام کا کام کرتے رہیں گے تو اگرچہ ہمارا ماحول کتنا ہی خراب ہو اور گو ہم نے عذاب، انعام نہیں دیکھا ہو اور ہمارے رسول ﷺ ہمارے درمیان موجود نہ ہوں، پھر بھی ہمارا وجود باقی رہے گا۔ اور اگر دعوت کو ترک کردیں گے یا اس میں کو تاہی کریں گے تو ہمارے وجود اور ہستی کو دنیا کی طاقت نہیں بچا سکتی ہے۔ع
پختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی
ہے یہی اے بے خبر،رازِ دوامِ زندگی
(جاری ۔۔۔۔۔)
[اگلی قسط میں پڑھیں: "تَرکِ دعوت پر خُدائی پھٹکار”]
–
Comments are closed.