جو بیت گئے ہیں وہ زمانے نہیں آتے__!

محمد صابرحسین ندوی
وہ جو محفل میں ناکارے ہیں ہم کو جی سے پیارے ہیں
محفل محفل ڈھونڈ رہے ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانے ہم
جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم نے اپنی کتاب "ابھی سن لو مجھ سے_!” میں دل نچوڑ کر رکھ دیا ہے، اور کلیجہ نکال کر سب کے سامنے پیش کردیا ہے، ایک اقتباس ملاحظہ ہو_ آپ لکھتے ہیں: ” ٹوٹے ہوئے پیمانوں کو ڈھونڈنے والا کون ہے؟ کیوں کوئی ڈھونڈے؟ ایک پیمانہ ٹوٹتا ہے تو اس سے اچھا پیمانہ سامنے آجاتا ہے۔ ارتقا نے اپنا حیرت انگیز وجود اپنی ہوش ربا حقیقت جس تیزی سے موجودہ صدی میں؛ بلکہ پچھلے پچاس (اس سے زائد ہوگئے ہیں: راقم) برسوں میں منوائی ہے، جس کا میں خود گواہ ہوں، یہ تیزی پچھلی صدیوں میں یا اسی صدی (بیسویں صدی مراد ہے: راقم) کی ابتدا میں نہیں تھی، چیزوں میں کس برق رفتاری سے ترقی ہوتی ہے۔ مکان، سڑکیں اور روشنیاں، سواریاں، لباس، پوشاک، کھانے، مشروبات، سامان تفریحات کی تیزئی رفتار کا ہم پیچھا نہیں کر سکتے۔ اور یہ بتانا دشوار ہوجاتا ہے؛ کہ ہم نے کل یہ چیز کیسی دیکھی تھی، آج کیسی ہے اور کل کیسی ہوگی؟
بدلتی جاتی ہے تیزی سے اس قدر دنیا
کہ آشنا کو بھی مشکل یے آشنا کہنا
کیا کل ہم انہیں سے ملے تھے؟ کیا ان کی آواز کل یہی تھی؟ انداز یہی تھا؟ تیور یہی تھا؟ مزاج یہی تھا؟ مشکل ہے فیصلہ کرنا اور فیصلہ کر دو تو مشکل ہے دل کا ماننا، دل کا مطمئن ہونا۔”( ابھی سن لو مجھ سے! ۱۷۸)
جو بیت گئے ہیں وہ زمانے نہیں آتے
آتے ہیں نئے لوگ پرانے نہیں آتے
جس پیڑ کے سایہ میں بسیرا تھا ہمارا
اس پیڑ پہ پنچھی بھی اب رات بتانے نہیں آتے
لکڑی کے مکانوں میں چراغوں کو نہ رکھیے
اب پڑوسی بھی آگ بجھانے نہیں آتے
دیکھا جائے تو اب زمانہ ایسا ہوگیا ہے کہ ان ٹوٹے ہوئے اور شکستہ حال پیالوں کو کوڑے کرکٹ میں پھینک دیا جاتا ہے اور پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا، لیکن سچ جانئے! تو ان ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے مقابلے میں ان چمکتے ہوئے، کھنکتے ہوئے اور نقلی بے سری موسیقی سے ٹھنکتے ہوئے پیمانوں سے تشفی حاصل نہیں ہوتی، صحیح بات یہ ہے کہ اس ادھم مچاتی ہوئی اور شور و غل کی دنیا میں ٹوٹے پھوٹے لوگ ہی ہیں جو پرانے پیمانوں کی شکستہ یادگار بن کر روپوش ہوگئے ہیں، یا زمانے کی تیزی نے انہیں گم کردیا ہے، انہیں تلاش کرنا، ان کی شکستگی سے اور پرانے پیمانوں سے کچھ سیکھ لینا، انہیں زندہ کرنا یہی اصل بات ہے، یہ صبر طلب ہے، لیکن عاشقی بھی صبر طلب اور تمنا بھی بے تاب ہی ہوتا ہے، اگر دنیا سے جستجو کی لذت اور شوق، آرزو، تمنا اور ارمانوں کا ذوق نکال دیا جائے، تو رہ ہی کیا جاتا ہے؟ بس ڈھونڈئے ان شکستہ حالوں کو، ان ٹوٹے دلوں کو جو زمانے کی چوٹ کھا کر سکڑ گئے ہیں، کھینچ لائیے! اس زمانے کو جس نے ان سے منہ موڑ لیا ہے، اس دھن کو پھر سے چھیڑ دیجئے! جس سے ان کے کان آشنا ہیں، جو بیت گئے وہ زمانے بھلے ہی نہ آسکیں؛ لیکن پیمانوں کو جوڑا جا سکتا ہے، انہیں دنیا کے ہجوم سے نکالا جا سکتا ہے، بدلتے آہنگ کو برتا جا سکتا ہے، زمانے کی چال، ڈھال،رفتار اور گفتار کو بدلا جا سکتا ہے، وہ پیڑ اب بھی سایہ دار ہے، وہ پانی اب بھی شیریں ہے، ذائقہ مند ہے، وہ پیاس بجھا سکتا ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ اب بھی کانوں میں رس گھول دیتی ہیں، ذرا آواز تو دیجیے! توجہ کیجیے_! باہیں پھیلا کر ان خوشنما ہواؤں کو محسوس تو کیجیے_!
7987972043
29/10/2019
Comments are closed.