آنسوؤں کی مے بنی، زخموں کا پیمانہ بنا!!!

محمد صابرحسین ندوی
کہتے ہیں مسلمان بنا، اسلام کو ماننے والا بنا، خدا کے سامنے اطاعت کرنے والا اور اپنی زندگی کو ہر چیز سے کاٹ کر صرف اور صرف اللہ کے احکام پر نچھاور کرنے والا بنا____ سب کہتے ہیں؛ لیکن اس بننے والے سے پوچھیے! وہ کیا بنا_ سچ جانئے کچھ نہ بنا، بلکہ جو بنا تھا وہ بگاڑ بیٹھا، دل سے محروم اور انسانیت سے محروم بنا، درد سے عاری اور لگن سے بے نیاز بنا، وہ جو کچھ بنا تو بس اتنا بنا کہ اس کے سر پر خاص علامت آگئی، چہرہ و مہرہ ایک نئی ہیئت میں نکھر گیا، پہننے کا سلیقہ اور چلنے کا ڈھنگ کچھ اور ہو گیا، مگر وہ وہ نہ ہوا جو اسے ہونا چاہیے تھا، ایک مومن جو آنسوؤں کی مے بنالے اور یاد الہی میں بہاتا جائے، زخم کھائے اور اس سے اطاعت کی خوشبو آئے، محبت کا رنگ آئے اور جوش و خروش کا سیلاب امنڈ آئے، ایسے لوگ بن چکے ہی مگر یہ قصہ ماضی کا ہے، اس وقت کا ہے؛ کہ جب لوگوں کے سینوں میں دل ہوا کرتے تھے، قرن اولی ہو یا اس کے بعد بھی کئی صدیاں ہوں، آپ ذرا ان قرون کو آواز تو دیجیے__ پورا کا پورا میکدہ یوں حاضر ہوجائے گا، جیسے کسی اسکرین پر سینیما چل رہا ہو، ہر تصویر صاف اور ستھری، جسم سے دل تک کا راستہ یونہی مل جائے گا، خوشیوں اور مستیوں کے ساتھ اطاعت کا جذبہ لا متناہی ٹھاتھے مارتے سمندر کی طرح کھل کر سامنے آئے گا، آپ بہنے لگیں گے، تیرنے لگیں گے، زندگی کی رمق تازہ ہوجائے گی، دنیا پر ارمانوں کی بساط بچھانے لگیں گے، فتح و کامرانی کی نئی عبارت لکھنے کو تیار ہوجائیں گے، اور ہوگا وہ سب ہوگا جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
آج کا وہ مسلمان کچھ نہیں سوائے اس کے کہ اس نے اپنا نام محمد اور احمد رکھ لیا ہے، وہ فصل گل کا راز نہیں جانتا، وہ سرنہاں سے بے خبر ہے، وہ قوت ایمانی سے بے پرواہ ہے، انسانیت کی مدار سے بے خبر ہے، وہ دیوانہ ہے چمک کا، وہ پروانہ ہے ہر جلتی ہوئی شمع کا اور ہر اس محنت کشی کا جہاں سے اس کے اعصاب پر مستیاں ناچتی ہوں، گنگناتی ہوں، اسے بازوؤں میں لے کر خواہشات کے جھولے میں جھلاتی ہوں؛ عجب حال ہے کہ جہان سے اس کے ایمان پر اور ایمان کی گہرائی پر ضرب پڑتی ہو اسے اس سے کوئی مطلب نہیں ہے، دولت، شہرت اور ہوس کا مجموعہ اب انسان کا کل ہے، قرن اول کو اپنا آئیدیل ماننے والے اور اپنی زندگی کو انہیں کے نقش قدم پر ڈالنے والے اب اس شاخ گل کی تلاش میں رہتے ہیں، جہاں پر ان کی خواہشات کا آشیانہ بنتا ہو، جہاں سے ان کی مرضیات بروئے کار لائی جاتی ہوں، اب تو کعبہ اور بت خانہ کا فرق بھی مٹتا جارہا ہے، مجاور حرم بھی صنم خانوں کا دیوانہ ہے، اور صنم پرور لوگ حرم کی تقدیس بیان کرتے ہیں، اب مزاج یہ بنتا جارہا ہے کہ ایک طرف بتخانہ بنے تو دوسری طرف کعبہ بنے، وہ سنگ سے شیشہ اور شیشے سے سنگ بنانا چاہتے ہیں، اب سب کچھ افسانہ ہے، اک درد ہے، اور قصہ مختصر ہے، ایمان سے بغاوت کا اور ایمان کے نام پر گرم بازاری کا_ ہر طرف دیوانے بک رہے ہیں، سرعام یوسف کی بولی لگ رہی ہے، خریداروں کا ہجوم ہے، اب واقعتا ایسا لگتا ہے کہ آنسوؤں کی قیمت فوت ہورہی ہے، اور محبت کی داستان روٹھتی جارہی ہے، حق و باطل گڈ مڈ ہورہے ہیں، اور اقدار و نیک نامی پر ہوس رانی کا غلاف چڑھ گیا، کاش__ پھر سے وہ لوگ پیدا ہوں جو آنسوؤں کی مے بنائیں اور زخموں سے پیمانہ۔
30/10/2019
Comments are closed.