آؤ دوسرا اسپین بنائیں!( قسط نمبر: 4)

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزیِ افرنگ
معمارحرم بازبہ تعمیرجہاں خیز

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
(مہدپور، ضلع اجین، ایم پی)

(مقالہ برائےسیمینار HNC، بی ایچ ای ایل بھوپال، 7؍ نومبر 2019ء)

ترتیب و پیشکش: مفتی محمد توصیف صدیقیؔ

ترکِ دعوت پر نبی کی زبان سے لعنت

ترکِ دعوت پر آنے والی تباہی اور ہلاکت کو مزید ایک دوسری آیت سے سمجھیں:

لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ ﴿سورۃ المائدۃ:۷۸﴾
کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿سورۃ المائدۃ: ۷۹﴾

”بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے کفر کیا، ان پر داوٗد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت ہو چکی ہے، یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرجاتے تھے اور وہ ایک دوسرے کو اس برائی سے روکتے نہیں تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے۔ یقینا ان کا (یہ) عمل بہت برا تھا۔ (سورۂ مائدہ، آیۃ: 78؍ و 79)

”حضرت داوٗد علیہ السلام کی لعنت کا ذکر زبور (78: 21۔ 23) اور حضرت عیسی علیہ السلام کی متیٰ(33۔31۔32) میں اب بھی موجود ہے۔“
(آسان تفسیر: ج 1، ص391)
ترکِ دعوت پر ہمیں اس آیت میں کس طرح متنبہ کیا گیا ہے، اس کو احادیث ذیل سے سمجھیں جو اسی آیت کی تفسیر ہیں:
عن عبد اللہ بن مسعود ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ ان من کان قبلکم کان اذا عمل العامل فیھم با لخطیءۃ جاء ہ الناھیُّ تعزیراً، فقال یا ھذا اتق اللہَ فاذا کان الغد جالسہ واٰکلہ وشاربہ کانہ لم یرہ علی خطیئۃ بالامس فلمارای عز وجل ذلک منھم ضرب بقلوبھم علی بعض ثم لعنھم علی لسان نبیئھم داوٗد وعیسی بن مریم ذٰلک بما عصواوکا نوا یعتدون؛ والذی نفس محمد بیدہ لتأمرون بالمعروف ولتنھون عن المنکر ولتأ خذون علی السفیہ ولَتاطرن
علی الحق اطرا او لیضربن اللہُ بقلوب بعضکم علی بعض ثم یلعنھم لعنھم۔
(ابوداوٗد، برقم الحدیث: 4337/4336، ترمذی، برقم الحدیث: 3047، وقال الترمذی ھذاحدیث حسن غریب،
ابن ماجہ، برقم الحدیث: 4006، مسند احمد، برقم الحدیث: 3613، طبری: ج 10؍ برقم الحدیث 10267/ و 10268)
”حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: تم سے پہلی امتوں میں جب کوئی خطاکرتا تو روکنے والا اس کو دھمکاتا، اور کہتا کہ اے شخص! اللہ سے ڈر، پھر اگلے ہی دن اس کے ساتھ اٹھتا،بیٹھتا،کھاتا، پیتا، گویا کل اس کو گناہ کرتے دیکھا ہی نہیں، جب حق عزوجل نے ان کا یہ برتاؤ دیکھا تو بعض کے قلوب کو بعض کے سا تھ خلط ملط کردیا اور ان کے نبی داوٗد اور عیسی ابن مریم (علیھماالسلام) کی زبانی ان پر لعنت کی، اور یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کیا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے، تم ضرور اچھی باتوں کا حکم کرو اور بُری باتوں سے منع کرو اور چاہیے کہ بیوقوف نادان کا ہاتھ پکڑو اس کو حق بات پر مجبور کرو، ورنہ حق تعالی تمارے قلوب کو بھی خلط ملط کردیں گے، اور تم پر بھی (تمہارے نبی کی زبانی) لعنت ہوگی جیسا کہ پہلی امتوں پر لعنت ہوئی۔“ (ابو داوٗد ترمذی وغیرہ)
”اہل ایمان کے لئے بُرائی سے بچنا کافی نہیں ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دوسروں کو بھی بُرائی سے بچانے کی کوشش کریں، جس کی صورت یہی ہے کہ برائی کرنے والوں کو بُرائی سے روکاجائے، حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ: پہلی برائی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی، وہ یہی تھی کہ ایک شخص کسی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا اور اس کو اس سے منع کرتا، پھر اگلے دن اسی کا ہم نوالہ وہم پیالہ بن جاتا۔ (سنن ابو داوٗد، باب الا مر والنھی، حدیث نمبر: 4336)
اس آیت کی روشنی میں اہل علم نے لکھا ہے کہ: جو طاقت رکھتا ہو، اس کے لیے برائی سے روکنا فرض ہے۔ (قرطبی ج 6/ص253)
آ ج مسلمان بھی اس معاملہ میں بنی اسرائیل کے نقش قدم پر ہیں، برائی سے روکنے ٹوکنے کا مزاج ختم ہوگیا“۔(آسان تفسیر: ج 1، ص392)
دین سے دور ہوجانے اور پھر اللہ کی لعنت آنے کا سبب یہ ہے کہ غلط ماحول میں پڑے ہوئے لوگوں کو ہم دین کی تبلیغ نہ کریں۔ اگر دین کی تبلیغ ترک کردیں تو یہی نہیں کہ ہم معاشرہ کے غلط اور مشرکانہ اثرات سے متأثر ہو جائیں گے۔ بلکہ ہمارے اوپر ہمارے نبی ﷺ کی زبان سے لعنت ہو گی، جس کا انجام آخرت کے سا تھ دنیا میں بھی تباہی ہے۔

جاری۔۔۔۔۔۔

اگلی قسط میں پڑھیں: ["ترکِ دعوت پر برکاتِ وحی سے محرومی”]

Comments are closed.