سلام اے مسلم پرسنل لاء بورڈ، تیری سعی ناتمام پر تجھے سلام!

نقاش نائطی
+966504960485
آج 9 نومبر 2019 مطابق 11 ربیع الاول 1441ہندستانی عدلیائی تاریخ کا ایک اہم دن مانا جائیگا،جس دن ایک طرف ربع صد سالہ پرانے بابری مسجد رام مندر تنازعہ پر دیش کی عدلیہ کا حتمی فیصلہ سنا دیا گیا ہے بلکہ زمینی، ملکیتی،قضیہ کو ہندو برادری کی آستھا سے جوڑ کر، تاریخی و ملکیتی و قبضہ جاتی حقائق کو درکنار کرتے ہوئے،دیش کی سب سے بڑی اقلیت کے،دیش کی عدلیہ عالیہ پر اعتماد کا خون کیا گیا ہے۔ ہم یہ بات صرف یونہی نہیں کہہ رہے ہیں خود عدالت عالیہ کے آج کے فیصلے کے تناظر میں یہ ہم کہنے پر مجبور ہیں۔ یہ اس لئے کہ تقریبا ربع صد یا کہ کم و بیش پچاسی سال قبل کے بابری مسجد رام مندر قضیہ عدالت عالیہ میں، ملکیت دعویداری مقدمہ کی حیثیت سے تھا.
1528 میں شہنشاء ھند بابر کے حکم سے اس کے سپہ سالار میر باقی کی تعمیر، بابری مسجد، 1528 سے 1949 پورے 421 سال تک مسلم سنی وقف بورڈ کے قبضہ میں، نہ صرف باقاعدہ پانچ وقتی نماز پڑھنے کے لئے استعمال ہوتی تھی بلکہ 1989 وشو ھندو پریشد کے اس جگہ پر بھگوان شری رام کا بھویہ مندر بنائے جانے کے اعلان سے قبل تک، فریقین کی طرف سے بحثیت بابری مسجد قبول کی جاتی تھی۔22 دسمبر 1949 مسلمانوں کے عشاء کی نماز پڑھ کر، مسجد بند کر جانے کے بعد، ھندو مہاسبھائیوں نے، دیوار پھاند کر، بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھی تھیں۔ جس کے بعد ہندستان پاکستان بٹوارے کی نفرت جھیل رہے آزاد بھارت میں، فیض آباد ڈسٹرکٹ ادھیکاریوں کی ملی بھگت سے، ایک منظم سازش کے چلتے، ہندو مسلم دنگا بھڑکنے کا بہانہ بناکر، بابری مسجد پر، عدالتی ٹالے لگوائے گئے تھے اور 6 دسمبر 1992 وشو ھندو پریشد کے کارسیوکوں نے، دیش کی عدلیہ کی طرف اس متنازعہ بابری مسجدامتناع کےباوجود، بابری مسجد کا انہدام کیا گیاتھا۔گذشتہ ڈیڑھ ماہ دوران میراتھن ریس جیسے مسلسل سپریم کورٹ سنوائی دوران،دیش کی عدلیہ کی طرف سے یہ بابری مسجد رام مندر قضیہ، زمین ملکیت قضیہ ہے اسے کسی بھی صورت مذہبی آستھا سے جوڑ کر نہیں دیکھا جائیگا، سپریم کورٹ جج صاحبان کی طرف سے یقین دہانیوں کے باوجود، اور آج کے سنائے تاریخی فیصلے میں، 1949 تک بابری مسجد مسلمانوں کے تصرف و ملکیتی قبضے میں ہونے کے اعتراف کرتے ہوئے اور 1949 ہندو مہاسبھائیوں کی طرف سے رات کے اندھیرے میں مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے کے عمل کو غلط ٹہرانے کے باوجود اور 6 دسمبر وشو ھندو پریشد کارسیوکوں کے، امتناع عدلیہ کے،بابری مسجد انہدام کو جرم ٹہرائے جانے کے باوجود، سنی وقف بورڈ والی، بابری مسجد، جملہ زمین کو رام للہ کا بھویہ مندر بنانے کے لئے، سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے، رام للہ مندر ٹرسٹ کے نام کروانے کا فیصلہ، کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟ لیکن چونکہ سپریم کورٹ دیش کی سب سے بڑی عدلیہ ہے اور اسکے فیصلوں کا احترام ،ہر ہندستانی پر لازم ملزوم عمل ہے اور چونکہ ہم پچیس کروڑ ہندستانی مسلمانوں نے،اپنے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مادھیم سے، دیش کی اعلی عدلیہ کا،کسی بھی فریق کے حق میں آئے فیصلے کا احترام کرنے کی یقین دہانی کرچکے ہیں،اس لئے دیش کی عدلیہ کے اس تاریخی فیصلہ کا ہم، مسلمانوں کی آستھا یقین عقیدے کے خلاف جانے کے باوجود، ہم اس فیصلے کو پوری طرح تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔چاہے اب ان چھ سالوں سے چمنستان ہندستان پر حکومت کررہی سنگھی زعفرانی پارٹی، بی جے پی،آرایس ایس نے ، کیرالہ ایپا سوامی مندر میں، دیش کے نساء کی پوجا پاٹ اختیار دینے کی گوہاڑ پر، سنائے گئے اسی دیش کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف، عوامی احتجاج میں شرکت کر،دیش کی عدالت عالیہ کا مذاق کیوں نہ اڑایا ہو!،ہم اس دیش کی سب سے بڑی اقلیت، ہم مسلمان، اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے، ہماری آستھا عقیدے کے خلاف آئے، عدلیہ کے اس فیصلے کے خلاف، بالکل ہی نہیں جائیں گے اور ہمارے خلاف آئے اس فیصلے کا احترام بھی بالکلیہ کرتے پائے جائیں گے۔ انشاءاللہ
سلام ہے آئے ممبران مسلم پرسنل لاء بورڈ ، بابری مسجد سنی وقف بورڈ ممبران اور ممبران جمیعت العلماء بند، بابری مسجد حصولیابی کی اتنی لمبی قانونی جنگ، اتنے اچھے طریقے سے لڑنے پر، آپ سبھوں کو سلام، آپ کی متعین کردہ سپریم کورٹ کے محترم وکیل آر کے دھون صاحب اور انکی پوری ٹیم کو، اتنے اہم اور تاریخی کیس کو، بغیر پیسوں کے لالچ کے، پوری دیانت داری اور تیاری کے ساتھ لڑنے کے، گنگا جمنی تہذیبی جذبے کو سلام۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کو اچھی طرح دیکھنے پڑھنے اور سمجھنے کے بعد،ہم مسلمین کے ہمارے نمائیندے،سپریم کورٹ فیصلے پر نظر ثانی درخواست کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا اب آئے فیصلے کو ہی من و عن تسلیم کرتے ہیں اس کا فیصلہ کرنے کا حق بھی،ہم آپ جمیع ممبران مسلم پرسنل بورڈ و جمیعت العلماء ھند اور سنی وقف بورڈ ممبران ہی کو تفویض کرتے ہیں۔ آپ کا، دیش و مسلم امہ کی ہت میں لیا ہوا ہر فیصلہ،ہمیں پوری طرح سے،آج بھی قبول ہے اور کل بھی قبول رہیگا۔ انشاءاللہ
عموما ہر کھیل ہار اور جیت پر منتج ہوا کرتا ہے۔ بظاہر آج کے آئے فیصلے کے تحت وقتی طور ہم مسلمانوں کی ہار یا سبکی خجالت لگتی ہے، لیکن اتنی محنت اور جانفشانی کے باوجود یہ ہار ہمیں تسلیم ہے اس لئے کہ، کل کو مرنے کے بعد، اللہ کے حضور، ہمیں شرمندہ پیش نہیں ہونا پڑیگا کہ اس کے نام وقف بابری مسجد ملکیت زمین کے حصول کے لئے، ہم نے اپنی طرف سے کوئی کسر، کوئی کمی،کوئی کوتاہی نہیں چھوڑی تھی۔ ہم نے کسی کے بھی، کسی بھی اقسام کے ڈر، لالچ یا بلیک میلنگ کا شکار بن کر، ایشور اللہ کے نام وقف کردہ زمین کا ،در پردہ کوئی سودا نہیں کیا ہے ۔ ہم نے تو اپنی طرف سے پوری ایمانداری، دیانت داری کے ساتھ وقف زمین کی حصولیابی کی کوشش کی ہےاور ہماری تمام کوششوں کے باوجود، حکومت وقت اور دیش کی عدلیہ کا فیصلہ، انصاف کے تقاضے کے تحت، ہمارے حق میں حاصل کرنے میں،اگر ہم ناکام رہے ہیں تو اس میں بھی ایشور،اللہ کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہے اس کا ہم گمان کرتے ہیں۔اور دیش کی اعلی عدلیہ کے اس فیصلہ کو بھی، ہم ہندستانیوں کے لئے، خیر کا فیصلہ بنائے، اس کی دعا اور منو کامنا ایشور اللہ سے کرتے ہیں۔اس موقع پر ہماری متفقہ رائے یہی ہے کہ حکومت وقت کی ایماء پر، یا ان کے کسی ذاتی یا اجتماعی لالچ یا ڈر و خوف کے تناظر میں،ہم نے ان کے آلہ کار بڑی اور محترم شخصیات کے ساتھ مل کر،دیش ہی کے ہت اور امن و شانتی کے بہانے سے،اپنی قوم، اپنی ملت کے ساتھ سودا بازی نہیں کی ہے یا غداری نہیں کی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی محترم سے محترم شخصیت، اپنے علم وقار و رتبہ میں، کسی بھی اعلی و ارفع مقام متمیئز پر ممکن ہی کیوں نہ ہو، اور کسی بھی آل نسب سے تعلق خاص رکھنے والی شخصیت ہی کیوں نہ ہو، اور انکے سجھاؤ مطابق ہی کیوں نہ،آج عدالت عالیہ کا فیصلہ آیا ہو، ہم ان کے افکار، انی سعی ناتمام سے، اپنی برات کا اظہار کرتے ہوئے،قوم و ملت کے جمہور علماء ھند اور مقتدر شخصیات ملت کے، جمہور متفقہ فیصلے کے پیچھے آج بھی کھڑے پائے جاتے ہیں اور انشاءاللہ آئیندہ بھی، اپنے جمہور علماء کے پیچھے ڈٹے اور کھڑے پائے جائیں گے۔انشاءاللہ فثم انشاءاللہ.
آج 9 نومبر 2019، دیش کی اعلی عدلیہ کے اس تاریخی فیصلے پر، ہم مسلم فریق،مطمین نہ رہتے ہوئے بھی،اسے آمنا و صدقنا قبول کرنے کی وجہ ،اس چمنستان ھندستان کی ہزاروں سالہ گنگا جمنی ھندو مسلم امن و شانتی والی فضا، جو مکدر اور نفرت زد بنی ہوئی ہے یا کہ اپنے گندے سیاسی مفاد کے حصول کے لئے پراگندہ بنائی گئی ہے، ایسے پراگندہ اور نفرت زد ماحول میں بھی، امن سکھ وشانتی کے دامن کو تار تار ہونے سے جو بچایا گیا ہے ، یہ ہم مسلمانوں کے صبر جمیل کی وجہ سے ہی ہے۔ اگر بالفرض محال، دیش کی عدلیہ نے، متنازعہ زمین ملکیتی کاغذات و سنی وقف بورڈ کے مستقل قبضہ کے پیش نظر،آج آئے فیصلے کے اپرید یا مخالف،فیصلہ سنی وقف بورڈ کے حق میں دیا ہوتا تو، کیا دیش پر راج کررہے یہ مذہبی جنونی سنگھی، چمنستان ہندستان میں اس وقت والا امن و آمان باقی رکھ پاتے؟ نہیں بالکل نہیں۔ سو سواسو سال قبل شروع کی گئی شدھی تحریک، اوراس کے بعد جنمے مہاسبھائیوں کا، آزادی کے فورا بعد، بابائے قوم مہاتما گاندھی کا آپنے گرگے، مذہبی جنونی دہشت گرد گوڈسے کے ہاتھوں قتل کروانا،اور اب کچھ سال قبل تک، غالبا اسی کے دیے کی ابتداء میں، دیش کی پہلی ایمرجنسی بعد بننے والی پہلی غیر کانگریسی حکومت ساجھے داری کے مزے لوٹنے سے پہلے تک، آزاد ہندستان کے سیکیولز دستور العمل و ترنگے کو علی الاعلان قبول نہ کرنے کے، ان کے رویہ اور فیصلے نے، اور اب چمنستھان ہندستان پر انکے چھ سالہ سنگھی راج میں، دیش کی انتی ترقی کے لئے، سب ورگ کے،مسلمان مسیحی،دلت آدیواسیوں کو ساتھ لیکر دیس کی ترقی انتی کے لئے کام کرنے کے بجائے، مسلم دلت عیسائی مخالف ان کے طرز حکومت، یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ آج کا، دیش کی اعلی عدلیہ کا آیا یہ تاریخی فیصلہ، آستھا پر دئیے جانے کے بجائے، زمین ملکیت و زمین قبضہ کے پیش نظر فیصلہ دیا گیا ہوتا تو، آج پورا چمنستان ہندستان ہندو مسلم نفرت کی آگ میں جل رہا ہوتا۔اس کا مطلب صاف ہے اس ملک کے سوا سو کروڑ عوام کو اس بات کا بخوبی ادراک ہونا چاہئیےکہ اس ملک ہندستان میں،امن و سکون وشانتی کون قائم رکھے ہوئے ہیں؟ ہزاروں سال اس ملک میں امن و سکون و شانتی سے رہتے آئے،ہم مسلمان؟ یا دیش کی سپھتا ہتھیانے کی فکر میں غرق، سو سوا سو سال قبل قائم کی گئی، کل تک فرنگی سامراج کے تلوے چاٹنے والی،اور آج یہود و نصاری والے عالمی سپر پاور کے اشاروں پر، ہندستانی زرعی جمہوری امن و سکون والے نظم کو، عالمی پونجی پتی نظام سے ہم آہنگ کرتے ہوئے، سونے کی چڑیا ہندستان کو مکمل معشیتی طور تاراج و برباد کرنے والی، آزادی ھند قبل کے ھندو شدت پسند مہاسبھائی، اور آج کی ہندو شدت پسند، راشٹریہ سیوم سیوک اور اسکے اتحادی مذہبی جنونی پارٹیاں، اس چمنستان ہندستان میں ہندو مسلم نفرت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں؟اس کا ادراک کروڑوں سیکیولر ذہن دیش واسیوں کو ہونا چاہئیے.
آج آئے دیش کی اعلی عدلیہ کے فیصلے میں، توازن قائم رکھنے کے لئے،ایودھیاہی کےدرمیان پانچ ایکڑ زمین، مسلمانوں کی مسجد کے قیام کے لئے سنی وقف بورڈ کو دینے کی ہدایت سپریم کورٹ نے، حکومت وقت کو جو دی ہے، و یقینا بابری مسجد کو، کسی کی طرف سے ایشور اللہ کے نام وقف کی ہوئی زمین کا نعم البدل کسی بھی صورت نہیں ہوسکتی ہے۔ اور نہ ہی مسلمانوں کے اپنے عقیدے آستھا کے مطابق ایک مرتبہ تعمیر مسجد تا قیامت مسجد ہی باقی رہے گی، والے اپنے عقیدے کا بدل پانچ ایکڑ زمین کسی بھی صورت ہوسکتی ہے؟ پھر بھی مسلم پرسنل بورڈ کے ایک سرگرم رکن ممبر پارلیمنٹ المحترم اسدالدین اوئسی کے اس سجھاؤ یا پرستھاؤ پر، کہ بابری مسجد زمین کے عوض ملنے والی پانچ ایکڑ زمین نہیں لی جانی چاہئیے، ان کے اس سجھاؤ کے مخالف یا اپرید، ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے معزز ممبران سے التجا، و درخواست کرتے ہیں کہ دیش کی اعلی عدلیہ کے فیصلے کو دل سے مانتے ہوئے، وسط شہر ایودھیا میں ہی، پانچ ایکڑ زمین شکریہ کے ساتھ قبول کی جائے اور اس پر ہزاروں سالہ ہندستانی ھندو مسلم بھائی بھائی والی،گنگا جمنی سیکیولر تہذیب کی، نہ صرف بقا، بلکہ اس کی بہتر آبیاری کے لئے،بین المذہبی، آپسی تفاخری دوڑ کے لئے نہیں،ساتھ ساتھ ایک شہر میں دیش کے سکھ و شانتی کے قیام میں مدد و تعاون دینے کے لئے، ایک عالی شان جامع مسجد کے ساتھ ہی ساتھ ، آسمانی ویدک سناتن دھرم والے منو وادی رشی منی منو(جو کہ ہم مسلمین کے عقیدے مطابق حضرت نوح علیہ سلام ہی ہیں) کے منو وادی دھرم کی طرف، برادران وطن کی صحیح رہنمائی کرنے والے، بین المذہبی دعوتی مرکز یا بین المذہبی آسمانی کتب، قرآن، بائبل اور مختلف وید منو اسمرتی پر تحقیق کرنے اور حقایق اپنے برادران وطن کے سامنے پرت در پرت کھول کھول کر رکھنے لائق ، اسلامی یونیورسٹی قائم کی جائے۔ اور اپنے گندے سیاسی مقصد کے لئے، سنگھیوں کے بنائے اس منافرتی ماحول کو، پیار و محبت امن و شانتی والے ماحول میں بدلنے کا موقع نہ گنوایا جائے۔ نفرت پھیلانے والوں کو نفرت کا بازار گرم کرتے رہنے دیں، ہم دین اسلام کے ماننے والے، امن و شانتی کا درس عالم کو دینے والے، اپنےچمنستان ہندستان میں وہی ہزاروں سال قبل کی، گنگا جمنی، محبت چین و سکون کی فضا واپس لانے کی جہد مسلسل کرتے رہیں گے۔ ایودھیا نگری میں بننے والا یہ بھوئیہ شاندار رام مندر دیکھنے ہزاروں لاکھوں کروڑ دیش بھر کے برادران وطن، جب رام مندر کے درشن کرنے ایودھیا نگری آئیں، تو اسی رام کی نگری میں، مختلف المذہبی، آسمانی ویدک کتب اور قرآن و بائیبل کے متفقہ احکامات کو قریب سے انہیں دیکھنے سمجھنے کا موقع انہیں دستیاب ہو اور ان دو تین دہوں درمیان گندی سیاست کے حصول کے لئے، دیش بھر میں پھیلائے منافرتی رنگ کے باوجود رام کی ایودھیا نگری میں،ہم ھندو مسلمانوں کو ساتھ ساتھ مل جل کر، امن و سکون و شانتی کا درس دیتے دیش کی فضاء کو پرامن بناتے، اپنی آنکھوں سے دیکھ پائیں۔ یہی تو اس چمنستان ہندستان کی ہزاروں سالہ گنگا جمنی امن و شانتی والی تہذیب ہے جس کی بقاء کی ایک لمبی جنگ، گنگا کنارے ایودھیا نگری میں ہم ھندو مسلمان سبھی ورگ کے لوگوں کو، ساتھ ساتھ مل کر لڑنا ہے۔اور انشاء اللہ ہم خلوص سے اس سمت کوشش کریں گے تو بھگوان ایشور اللہ ہماری مدد ضرور کریگا اور یہ چمنستان ہندستان پہلے ہی کی طرح اب کے بعد والے ہزاروں سال تک ،امن چین و سکون والا گہوارہ بن کر رہے گا۔
بقول المحترم اسد الدین اویسی کے، اگر عدلیہ کے فیصلہ کے تحت وسط شہر ایودھیہ نگری میں، ہم مسلمین کو ملنے والی پانچ ایکڑ زمین لینے سے انکار کرنے کے بجائے عدلیہ کے فیصلے کو آمنا و صدقنا قبول کرتے اس پانچ ایکڑ زمین کو ہندو بھائیوں کے درمیان رہتے،امن سکھ و شانتی سے رہنے کے لئے ہم وچن بند پائے جائے گے تو ہم یقین ان سنگھی حکومتی بھوکے سیاستدانوں کو کھلی شکست دینے کامیاب و کامران ہو جائیں گے۔اور ہمارے اس فیصلے کے بعد وسط شہر ایودھیا، عدلیہ فیصلے کو مانتے ہوئے، ہمیں پانچ ایکڑ زمین دینے کے سلسلے میں سنگھی پارٹی یا سنگھی حکومت آنا کانی کرتی یا اسے تین ماہ سے زیادہ التوا میں رکھتی پائی جائیگی تو دیش کی عدلیہ عالیہ کے ساتھ ہی ساتھ،کروڑوں سیکیولر ذہن ھندو بھائیوں کو، اس بات بخوبی احساس ہوگا کہ کون دیش کی عدلیہ عالیہ کا فیصلہ سر تسلیم خم مانتا ہے اور کون اسے ماننے میں آنا کانی کر ،دیش کی عدلیہ کا اپمان و بے عزتی کرتا ہے۔ انشاءاللہ ایشور اللہ بھگوان نے چاہا تو یقینا ہم نفرت کے سوداگروں کو کھلی مات دیتے ہوئے، اس چمنستان ہندستان کو ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بنانے میں کامیاب و کامران رہیں گے انشاءاللہ فثم انشاءاللہ ۔
وما علینا الا البلاغ
Comments are closed.