عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لینا……..!

 

 

زکریا واحدی

 

کس قدر خوشی وشادمانی کا مقام ہے کہ خدا نے ہمیں امت محمدیہ میں پیدا فرمایا اور امام الا نبیاء سید نامحمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر رسول سے ہمیں سرفراز فرما،اس خدا ئی نعمت اور احسان الہی پر جس کو خود خدا نے جتلایا ہے، جنتی بھی خوشی منائی جائے اور رب کریم کا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۶۴﴾

ترجمہ:

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

( آل عمران – 3 ایت نمبر 164)

یقینا ایسے رسول کی آمد پوری کائنات کے لئے باعث فرحت و مسرت ہے جس کا اظہار ہونا چاہئے اور ضرور ہونا چاہئے، پیہم اور لگاتار ہونا چاہئے، اور ہردم وہرآن ہو چاہئے۔ ارو جس طرح زمان ومکان کی قید سے ازاد کرکے مالک کائنات نے محبوب کائنات کا تذکرہ کیا ہے ” وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ۔

ترجمہ:

اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔ سورہ الم نشرح آیت نمبر 4.

 

اسی طرح ہمارا بھی طریقہ کار ہونا چاہئے کہ ہردم وہرآن حب رسول جواں رہے؛

کہ یہی تقاضئہ محبت ہے اور عشق حقیقی کی پکار ہے ۔رانجھا ہیر، شریں فرہاد اور لیلا مجنوں جو عشق مجازی کے کردار ہیں ان کے یہاں بھی محبت کا تسلسل ہے اور محبوب کی ہر چیز سے حتی کہ در و دیوار سے الفت کا اظہار اور لگاو ہے، قيس بن ملوح یعنی مجنو کے اشعار میں ذرا عشق کی طاقت دیکھتے چلیں کہ عاشق زار کہتاہے:

أمر على الديــــــار ديار ليـلى …

أقبل ذا الـــــــجدار وذا الجـدارا

وما حب الديار شـــــغفن قلبي …

ولكن حب من ســـــــكن الديارا۔

 

کہ میں جب لیلا کے علاقے سے گزرتاہوں تو تو اس کے در و بام سے لپٹ جاتا ہوں کہ کبھی اس دیوار کو کبھی أس دیوار کو چوم تاہوں اور ان در و دیوار سے لپٹنے پر مجھے میرے محبوب کی محبت مجبور کر تی ہے ورنہ ان سنگ و خشت میں رکھا کیا ہے۔

غور کا مقام ہے کہ عشق مجازی میں اگر اتنی طاقت ہے تو پھر بنی سے عشق جو ایمان کا اٹوٹ حصہ ہے اور حقیقی ہے وہ کیسے موسمی ہو سکتا ہے اور ان کی محبت اتنی کمزور کیسے ہو سکتی کہ اس نبی کے اہم احکامات پر بھی اس کے دیوانے کو آمادہ نہ کر سکے، یہ کونسی محبت ہے کہ ہم بنی کے نام پر جھوم جائیں اور حکم سنے تے ہی گھوم جائیں، یہ کونسی دیوانگی اور کیسا دیوانہ پن ہے؟

معلوم ہوا کہ لفظ محبت کا استعمال حقیقی معنی میں نہیں ہو رہاہے کیوں کہ حقیقی محبت تو رسول کی اطاعت ہے ان کے احکامات کی بجاآوری ہے، ان کی محبت کے نام پر انہی کے احکامات کی خلاف ورزی، یہ کہاں انصاف ہے جس میوزک کو نبی حرام قرار دیا ہو ا نہی کا نام لیکر اس میوزک کا استعمال عین بے حرمتی اور سراسر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟

یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ٹیپو جینتی منائے اور طور طریقہ حضرت رحمہ اللہ کے جانی دشمن انگریزوں کا اپنا ئے اور ناچنے اور تھڑکنے کا کام کرے، یقینا ایسا شخص حضرت علیہ الرحمہ کو خراج عقیدت پیش نہیں بلکہ اپنی خواہش کی تکمیل موج و مستی کر رہا ہو تا ہے، حقیقی محبت کا تقاضہ تو یہ ہےکہ ہم اپنی موجودہ نسل کل کے قائدین کو ان کی جرات و بہادری اور ان کی دین داری کے ساتھ ساتھ ان کے نظم و نسق اور ان کی حکمرانی اور طرز حکمرانی سے واقف کرائیں، غیروں پر کئے گئے ان کی بخشش اور جود وسخاء، مندر و مسجد کے لئے ان کے عطیاجات سے نوجواں نسل آگاہ کیا جائے،اسی طرح ان کی خوبیاں بتاکر انہیں خود بھی اپنا نے کا عزم کیا جائے اور دسروں کو بھی اپنے اندر اتار نے کی ترغیب دی جائے، تب جاکر ٹیپو جینتی، ٹیپو جینتی ہوگی؛ ورنہ اس کو اپنے شوق پورا کرنے کا ذریعہ سمجھا جائے، حضرت علیہ الرحمہ کی مبارک سیرت، شجاعت و بہادری سے پر شیر کی سی زندگی اور ان کی آمد کی آڑ لینے ضرورت ہی کیا ہے اگر گیدڑوں کی سی بے مقصد زندگی گرانی ہے۔

یہی طریقہ کار بلکہ اس سےبھی زیادہ مضبوط اور کار آمد طریقہ دعوت آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کے موقعہ پر اپنا جا ئے٬ کہ اس دن میں نبی کی تعلیمات کو عام کرنے انہیں خود اپنا نے اور دوسروں تک پہنچا نے کا عزم کیا جائے٬ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جو زہر لوگوں کے ذہن و دماغ میں گھولا گیا ہے اور اب بھی جاری ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے، بنی کے نام پر تھڑکنے اور ڈانس کرکے نبی کی روح کو تکلیف پہنچا نے، اور اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے غلط طریقے پر پیش کر نے سے مکمل طور پر گریز کیا جائے، نبی سے حقیقی محبت یعنی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے عہد کی تجدید کی جائے، کتاب وسنت اور ان کی روشنی میں چل کر زندگی کو سنوار نے کا عزم کیا جائے، اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا داری نبھائی جائے کہ یہی حقیقی محبت اور عشق ہے،کیونکہ عشق کے تقاضے اتنے اسان نہیں ہو تے کہ صرف نعروں اور دو چار جملوں سے ادا ہو جائے۔

 

عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لینا

اک آگ کا دریا پے اور ڈوب کے جانا ہے۔

Comments are closed.