خطبہ حجۃ الوداع عظیم الشان بین الاقوامی منشور اور عالمی دستاویز

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
حجة الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تاریخ ساز خطبہ جسے خطبئہ حجة الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ھے ،امت مسلمہ کے لئے یہ قیامت تک ایک آئین اور ابدی پیغام کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ خطاب مسلمانوں کی زندگی کا حصہ ھے ۔
خطبئہ حجۃ الوداع ایک ایسی عظیم الشان بین الاقوامی دستاویز اور عالمی منشور ہے جو نہ صرف اپنے دور میں آگے یا پیچھے کوئی مثال نہیں رکھتی ،بلکہ آج بھی انسانیت کے پاس ایک عظیم منشور حقوق موجود نہیں ہے جسے دینی تقدس کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے ایک عالمی جماعت یا امت کام کرنے کے لئے تیار کی گئی ۔ اس کے بعض اجزا جدید دور میں دوسروں کی دستاویزات میں بھی ملتے ہیں، مگر ان کا کاغذی پھولوں میں عمل کی خوشبو کبھی پیدا نہ ہوسکا ۔ خطبئہ حجۃ الوداع کے اساسی عقائد کے علاوہ بعض اہم اجزا ایسے ہیں جن کی قدر و قیمت سے ہماری آج کی روشن دماغ دنیا آشنا ہی نہیں ۔
خطبئہ حجة الوداع نہایت ہی خوبی سے اس حقیقت کو اجاگر کردیتا ہے کہ اب تک کے دو تین ہزار سالہ دور تاریخ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہ پہلی مبارک شخصیت ہیں جو ساری انسانیت کے لئے وسیع اور جامع پیغام لے کے آئے اور ضرورت ہے کہ اس پیغام کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کیا جائے ۔ اور اس پر مبنی حکومتیں قائم کی جائیں اور پوری دنیا میں اس منشور کو پھیلایا جائے ۔
خطبئہ حجۃ الوداع کو سمجھ کر پڑھنا اور زندگی کو اس ہدایت کے مطابق گزارنا ہمارے لئے ضروری ہے ۔ یہ آج بھی اسی اہمیت کا حامل ہے جتنا ۱۴ سو سال قبل تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تاریخی خطبے میں ان انسانی حقوق و فرائض کے تصور کو اجاگر کیا ،مساوات کا درس دیا ، دین کی تبلیغ کا درس دیا ،اور اس ابدی پیغام کو عام کرنے کی ہدایت فرمائی، حج کے دن نبی کریم میدان عرفات میں تشریف فرما تھے ۔ جب سورج ڈھلنے لگا تو آپ نے اپنی اونٹنی، قصواء، کو لانے کا حکم فرمایا ، اونٹنی حاضر کی گئی ۔آپ اس پر سوار ہو کر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا ۔اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کرتے ہوئے آپ نے خطبہ کی ابتدا فرمائ : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا ۔اس نے اپنے بندے (رسول ) کی مدد فرمائ اور تنہا اسی کی ذات نے باطل کی ساری مجتمع طاقتوں کو زیر کیا ۔لوگو، میری بات سنو،میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی اس طرح کی مجلس میں یکجا ہو سکیں گے۔لوگو! اللہ کا ارشاد ہے :اِنسانوں کو ہم نے ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تم سب کو جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا ہے کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو ،تم میں زیادہ عزت والا اور کرامت والا اللہ کی نظر میں وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔ چنانچہ نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کالا گورے سے افضل ، نہ گورا کالے سے ،ہاں بزرگی اور فضیلت کا معیار ہے تو وہ تقوی ہے ۔ انسان سارے ہی آدم کی اولاد اور آدم کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے ۔اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاوں تلے روندے جا چکے ہیں، بس بیت اللہ کی تولیت اور حاجیوں کی پانی پلانے کی خدمات علی حالہ باقی رہیں گی ۔
قریش کے لوگو! ایسا نہ ہو کہ ایک دن تم اللہ کے سامنے اس طرح آو کہ تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہو اور دوسرے لوگ سامان آخرت لے کر پہنچیں ،اور ایسا ہوا تو میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا ۔
قریش کے لوگو! اللہ نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کرڈالا۔ اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر و مباہات کی گنجائش نہیں ۔ لوگو! تمہارے خون و مال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام کر دی گئیں ،ہمیشہ کے لئے،ان چیزوں کی حرمت ایسی ہی ہے جیسے تمہارے لئے اس دن کی اور اس ماہ(ذی الحجہ) کی خاص کر اس شہر میں ہے۔ تم سب اللہ کے حضور پیش ہوگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس فرمائے گا ۔
لوگو! دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں کشت و خون کرنے لگو۔ اگر کسی کے پاس امانت رکھوائ جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے ۔لوگو، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائ ہیں ۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو،ہاں غلاموں کا خیال رکھو ،انہیں وہی کھلاو جو خود کھاتے ہو ۔ ایسا ہی پہناو جیسا تم پہنتے ہو۔ دور جاہلیت کا دستور میں نے اپنے پیروں سے روند دیا ۔
زمانئہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں ۔ پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں ،میرے اپنے خاندان کا ہے ۔ ربیعہ بن الحارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون،جسے ہذیل نے مار ڈالا تھا، اب میں معاف کرتا ہوں ۔ دور جاہلیت کا سود اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پہلا سود جسے میں باطل قرار دیتا ہوں میرے چچا عباس بن عبد المطلب کے خاندان کا سود ہے۔ اب یہ سود ختم ہوگیا۔
لوگو! اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا، اب کوئی کسی وارث کے حق کے لئے وصیت نہ کرے ۔ بچہ اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر پیدا ہوا۔جس سے حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا سنگساری ہے ۔ حساب و کتاب اللہ کے ہاں ہوگا۔ جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے مالک کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا مالک ظاہر کرے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔
قرض قابل ادا ہے ۔ عاریتا لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے ۔ تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کوئی ضامن ہے وہ تاوان ادا کرے ۔ کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے ،سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور وہ خوشی خوشی دے ۔ خود ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو ۔
عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے ۔دیکھو تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں ۔ اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں ۔ عورتوں کے اوپر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے ۔اور وہ ایسا کریں تو اللہ کی جانب سے اس کی اجازت ہے کہ تم انہیں معمولی سزا دو اور اگر وہ باز نہ آئیں تو انہیں اچھی طرح کھلاو پہناو ۔ عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تمہاری پابند ہیں ۔ان کے بارے میں اللہ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اللہ کے نام پر حاصل کیا ہے اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں ۔
لوگو! میری بات غور سے سنو۔ میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا ہے ۔ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہوسکو گے ۔ اگر اس پر قائم رہے ،اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور ہاں ،دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ ان ہی باتوں کے سبب ہلاک کر دئے گئے ۔
لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو ،پانچ وقت کی نماز ادا کرو،مہینے بھر کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی زکوۃ خوش دلی سے دیتے رہو،اپنے رب کے گھر کا حج کرو اور اپنے اولو الامر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاو گے ۔
اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا ۔ اور اب نہ باب کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا نہ بیٹے کے بدلہ باپ سے لیا جائے گا ۔ سنو،جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور باتیں ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں نہیں ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ کرنے والا ہو ۔
اور لوگو! تم سے میرے بارے میں اللہ کے یہاں سوال کیا جائے گا، بتاو تم کیا جواب دو گے ؟
لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے امانت دین پہنچا دی ۔ اور آپ نے حق رسالت ادا فرمایا اور ہماری خیر خواہی فرمائ ۔ یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائ اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ ارشاد فرمایا :
اے لوگو گواہ رہنا ۔ اے لوگو گواہ رہنا ۔ اے لوگو گواہ رہنا
۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ تفصیلی اور جامع خطبہ ۹/ ذی الحجہ ۱۰ھج مطابق فروری ۶۳۲ء حج کے موقع پر دیا جو حجة الوداع کے نام سے مشہور ہے ۔ خطبہ کے مندرجات اور تمام شقوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گویا اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق انسانی کا مکمل چارٹ اور نقشہ پیش فرما دیا ہے یہی در اصل انسانی حقوق کا پہلا منشور ہے اس خطبہ میں سچائ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق انسانی سے متعلق اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ اس میں بیان فرما دیا ہے ۔ اس تاریخی اور انقلابی خطبہ میں اگر حقوق انسانی کو دفعات کی شکل میں پیش کیا جائے تو بہت سے دفعات نکل سکتے ہیں ۔ چند دفعات اس طرح ہیں ۔
*جان و مال، عزت و آبرو اور اولاد کے تحفظ کا حق
*امانت کی ادائیگی، قرض کی وصولیابی اور جائیداد کے تحفظ کا حق
*سود کے خاتمہ کا تاریخی اعلان
*پر امن زندگی اور بقائے باہمی کا اعلان
*ملکیت ،عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق
*انسانی جان کے تحفظ اور قصاص و دیت میں برابری کا قانونی حق
*انسانی مساوات کا حق اور انسانی تفاخر و طبقاتی تقسیم کے خاتمہ کا تاریخی اعلان
*عورتوں کے حقوق اور ان کی رعایت کا تاریخی اعلان
*غلاموں کے حقوق کا انقلابی اور عملی اعلان
*عالمگیر مساوات انسانی اور بھائ چارہ کا حق
*انسانیت کے منشور اعظم خطبہ حجة الوداع اور اس کو نافذ العمل بنانے کا اعلان
خطبئہ حجة الوداع میں بیان کردہ انسانی حقوق کا یہ ایک سرسری جائزہ ہے ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان حقوق میں کتنی گہرائ اور جامعیت ہے ۔نیز ان حقوق کا تحفظ کس طرح سے کیا گیا ہے ۔
نوٹ اس خطبہ اور مضمون کی تیاری میں سیرت کی مختلف کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ۔
Comments are closed.