عظمت رفتہ کی بازیابی کے لئے مطالعہ ناگزیر ہے

 

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

پوسٹ ڈاکٹر یٹ فیلو شعبہ دینیات سنی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

[email protected]

علم و حکمت ،دانش وبیش ،فہم وشعور، آ گہی ، سنجیدگی ، پاکیزہ خیالات اور اخلاق حسنہ کو پروان چڑھانے کے لئے ہر ذی علم اپنے آ پ کو مطالعہ کے زیور سے آراستہ کرتاہے ۔کیونکہ مطالعہ کی اہمیت وافادیت ہر دور اور زمانہ میں مسلم رہی ہے۔ تاریخ کے اوراق اور شخصیات کی سوانح نگاری بھی اس بات کی ببانگ دہل شہادت دیتی ہے کہ آ ج جن افراد کو علم ودانش کے کسی بھی شعبہ میں سند اور مرجع کی حیثیت حاصل ہے ان کی زندگی کا محبوب مشغلہ کثرت مطالعہ رہا ہے۔نیز تنقیدی اور تجزیاتی نگاہ اس مطالعہ کو مستحکم بناتی ہےاور جلابخشتی ہے ۔واضح رہے کہ تنقید برائے اصلاح ہو نہ کہ تنقید برائے تنقیص ہو۔ جب تک مطالعہ میں توسع اور گیرائی وباریکی کا عنصر غالب نہیں ہوگا اس وقت تک مطالعہ کی افادیت اور اس سے مرتب ہونے والے نتائج نہ صرف محدود ہوکر رہ جائیں گے بلکہ اس سے کوئی بھی سماج و معاشرہ پر مثبت اثر نہیں پڑ سکتا ہے۔اسی طرح صاحب مطالعہ کی شخصیت کے امتیازی اور عظمت کے گوشے بھی نمایاں نہ ہوسکیں گے۔ بناء بریں مطالعہ میں وسعت و باریکی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اہل علم کافکری توازن واعتدال اور صالح وپاکیزہ افکار و نظریات کو جاگزیں کرنا بھی لازمی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کثرت مطالعہ روح کی غذا ہے ۔پاکیزہ خیالات ،صالح نظریات کو پروان چڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔بلکہ مستند اور صالح مصنفین کی تحریروں کا مطالعہ روحانی پاکیزگی ۔اور توازن واعتدال کا خوگر بناتا ہے۔ مطالعہ کی طہارت و سنجیدگی کا اثر سماج کو بھی منظم و متحد اور بہتر خطوط کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ نیز مطالعہ کی عظمت و بالیدگی کا ایک روشن و تابناک پہلو یہ بھی ہیکہ سماج و معاشرہ میں ایسے افراد و شخصیات وجود میں آ تی ہیں جو معاشرہ کی ترقی و فتحیابی کا ضامن ہوتی ہیں۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ جو معاشرہ تعلیم و تربیت اور مطالعہ کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے وہ اپنے تعلیمی معراج اور پاکیزہ افکارو نظریات کی بدولت دیگر تمام ناخواندہ معاشروں پر اپنی برتری اور بالادستی قائم کرلیتا ہے۔ سماج کا کوئی بھی فرد تعلیم یافتہ اور پڑھ لکھ کر اپنی منزل پالیتا ہے تو اس کا فایدہ صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا ہے بلکہ اس کے افکار و نظریات سے معاشرہ اقتصادی ،معاشی اور سیاسی طور پر بھی مستفید ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی ترقی صرف اس معاشرہ کا اقبال بلند نہیں کرتی ہے بلکہ پورے ملک کے لئے وہ سعادتِ مندی کا واسطہ ہوتا ہے۔ بناء بریں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاشرہ و سماج کی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے مطالعہ کا شوق پیدا کیا جانا انتھائی ضروری ہے۔ مطالعہ کا ایک نمایاں اور قابل فخر پہلو یہ ہیکہ معاشرہ و سماج میں عدل و انصاف کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ رواداری،ہم آ ہنگی اور باہم اعتماد و یقین جیسی خوشگوار فضاء کی رحمت و برکت معاشرہ پر سایہ فگن رہتی ہے۔ مطالعہ کی برکت ہی ہے کہ صاحب مطالعہ سماجیات،سیاسیات،ادبیات، اخلاقیات ،معاشیات و اقتصادیات اور سائنس و جغرافیہ کے تمام پنہان گوشوں اور نکات سے واقف ہوجاتا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مطالعہ میں جتنی وسعت پیدا کی جائے گی اتنے ہی اس کے مفید و دور رس نتائج معاشرہ پر اثر انداز ہونگے۔ آ ج سماج میں جو ابتری ، بد عنوانی اور بد امنی پھیلی ہوئی اس کی بنیادی وجہ یہ ہیکہ ہم نے اپنی توجہ مطالعہ سے ہٹا کر دوسری غیر ضروری چیزوں میں لگا رکھی ہے۔ بچوں اور نئی نسل کی اصلاح وتربیت میں بھی مطالعہ کا اہم کردار ہے ۔یعنی سماج کے تمام مسائل کا حل صالح فکر اور کثرت مطالعہ میں مضمر ہے ۔ نفرت،تعصب،تنگ نظری،انتھا پسندی،عداوت و شدت کا خاتمہ بھی مطالعہ اور متوازن فکر سے بہت آ سانی سے ہوجائے گا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہیکہ آج نوجوان طبقہ کے اندر سے مطالعہ کی وسعت کا گراف بڑی تیزی سے گررہا ہے ۔اور اس کی جگہ سوشل میڈیا کے حسین و جمیل،پر کشش اور پر لطف مناظر میں ہمارے معاشرہ کا نوجوان طبقہ الجھ کر رہ گیا۔ یقینا سوشل میڈیا بھی آ ج کی ضرورت ہے مگر اس کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ اور اس کے مثبت گوشوں کو اختیار کرکے اپنے وقت کی قمیت کو سمجھنا ہوگا۔ افسوسناک بات تو یہ ہیکہ ایک زمانہ تھا جب لوگ سفر و حضر میں کتاب کو ساتھ رکھتے تھے اور اپنا وقت مطالعہ میں گزارتے تھے ۔ذرا سوچئے کیا آ ج بھی سفر و حضر میں ہم مطالعہ کو ضروری گردانتے ہیں یا پھر اس وقت کو سوشل میڈیا میں صرف کردیتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عہد حاضر میں آ ن لائن مطالعہ کا چلن عام ہوچکا ہے۔ آ ج ہم نیٹ کے توسل سے ایک کلک کے ذریعہ سے کسی بھی موضوع کے متعلق ان گنت مضامین اور کتب کا مطالعہ کرسکتے ہیں اور ہمارے سامنے ہر پہلو سے متعلق محقیقن کی آ راہ اور نظریات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے ۔ یقینا جو سہولت آ ج انٹرنیٹ کے استعمال سے ہوئی ہے اس کا احساس ہر صاحب علم کو بخوبی ہے ۔گوگل کی سر زمین پر آ ج ہزاروں مکتبے ،کتب خانے اور لائبریریاں موجود ہیں ۔اور گوگل نے ان کتابوں،دستاویزات،اور مخطوطات کو قریب کردیا ہے جن کا حصول و دستیاب ہونا آ سان نہیں تھا۔

جب سے آ ن لائن مطالعہ کا رواج عام ہوا ہے اس کے جہاں بہت سارے فوائد سامنے آ ئے ہیں وہیں اس کے نقصانات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آ ن لائن مطالعہ سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ کتابوں کی خریداری کا سلسلہ کم ہوا ہے ۔ جب انٹر نیٹ کا زمانہ نہیں تھا اس وقت لوگ کتاب خریدار کر پڑھتے تھے ۔ کتاب کو سامنے رکھ کر مطالعہ کرنے سے جو روحانی لذت و خوشی حاصل ہوتی ہے وہ آ ن لائن مطالعہ سے کبھی بھی نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو لوگ آ ن لائن مطالعہ کرتے ہیں وہ کتاب کی کسی بھی بحث کو اس طرح سے محفوظ نہیں کرسکتے جس طرح سے سامنے رکھ کر کتاب کے مباحث و کو ذہن کی راہ دانیوں میں پیوست کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی بتادوں کہ آ ن لائن مطالعہ سے تشنگی باقی رہتی ہے ۔جو تشفی اور تسکین کتاب کو چھو نے اس کو دیکھنے اور ورق گردانی کرنے سے حاصل ہوتی اس کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔ آ ن لائن کتاب کا عکس سامنے آ تا ہے نہ کہ اصل کتاب اب تصور کیجئے کیا عکس اور فوٹو سے وہ چیز حاصل ہوسکتی ہے جو اصل سے حاصل ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات اور نکل کر سامنے آ تی ہے وہ ہیکہ ان لائن مطالعہ کسی بھی نوعیت سے قاری کو اس کے اصل مقاصد سے ہم آ ہنگ نہیں کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہیکہ مطالعہ اور تعلیم و تربیت سے جس طرح ہمارا سماج متاثر ہوتا تھااور معاشرہ میں اس کے روحانی اثرات جابجا دیکھنے کو ملتے تھے اس روحانی منظر کا اب فقدان ہے ۔آ ج کے زمانے میں ہر شخص اپنے موبائل فون ،لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ میں ایک لائبریری اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اب کتب خانوں کی افادیت و عظمت سے بھی لوگ دھیرے دھیرے بے بہرہ ہورہے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ پہلے کسی کتاب کے نہ ملنے پر کتب خانوں سے رجوع کیاجاتا تھا ۔کتاب کی تلاش و جستجو محقق کو تازگی بخشتی تھی اور کتاب ملنے کے بعد جو مسرت و شادمانی حاصل ہوتی تھی اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ آ ج انٹرنیٹ کی سہولت سے وقت تو بچا مگر ان تحریروں میں وہ تازگی اور روحانیت نظر نہیں آ تی ہے جو پہلے ہمارے اکابر و اسلاف کی کتابوں اور تحریروں میں دیکھنے کو ملتی تھی ۔ اس تحریر کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ آ ن لائن مطالعہ نہ کیا جائے یا انٹر نیٹ کی سہولت و آ سانی سے فایدہ نہ اٹھایا جائے وہ بھی ضروری ہے ۔تاہم ہمیں سوچنا ہوگا کہ مطالعہ کا جو مقصد و منشا ہے کہیں ہماری عجلت پسندی سے وہ تو فوت نہیں ہورہا ہے۔ اور ہمارے معاشرہ اور خود اپنی ذات پر اس کے کیا اثرات پڑ رہے ہیں اس پر بھی سنجیدگی سے غور وفکر کرنا ہوگا۔

اس لئے آ ن لائن مطالعہ کا اپنے آ پ کو خوگر نہ بنایا جائے، بلکہ جہاں تک ہوسکے کتاب کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا جائے اور پھر قاری کو موازنہ کرنا چاہئے کہ اس مطالعہ اور اس مطالعہ میں کیا واضح فرق ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ جب لوگوں کو کتابیں خرید کر پڑھنے کا شوق تھا تو زیادہ تر افراد دھیرے دھیرے اپنی ذاتی لائبریری یاکتب خانہ اپنے گھر میں بنالیتے تھے ۔ اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔مگریہ چیز اب دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔جہاں تک ہم اخبارات کی بات کریں تو یہ کہا جاسکتا ہے جب سے آ ن لائن مطالعہ کا گراف بڑھا ہے اس وقت سے تمام زبانوں کے اخبارات کی تعدا د میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

Comments are closed.