حق بات کہو جرآت ایمان نہ بیچو!

 

محمد عظیم فیض ابادی

دارالعلوم النصرہ دیوبند 935816328

کسی پنچایت ، دارالقضاء ،عدالت یا کورٹ کا احترام الگ چیز ہے اور اس سے صادر ہونے والے فیصلے کے غلط ہونے پراس سے اتفاق یا عدم اتفاق بالکل دوسری چیز ہے عدالت کے احترام کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے ہر غلط وصحیح فیصلے کا تسلیم کرنا بھی ضروری ہو

ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ

ہندوستان کثیر المذہب ملک ہے ہر مذہب کا احترام ہی ایک زمانےتک اس کی شناخت وپہچان رہی ، یہ مختلف تہذیبوں کا سنگم ہے ، بھات بھات کی بولیاں ہیں ، ظالم قوموں نے بھی حکمرانی کی وقت بدلا تو مظلوم قوموں کوبھی سربراہی کا موقع ملا بعض بعض حکمرانوں نے تو ظلم کی بھی حد کردی بعض بعض قوموں کے ساتھ بہت ناروا سلوک بھی برتاگیا لیکن عدالتی نظام ہمیشہ عدل وانصاف پر ہی مبنی رہا عدالتوں نے ہمیشہ ثبوت وشواہد ہی پر اپنے فیصلے کی بنیاد رکھی ہندوستان میں جب پنچایتوں اور قاضیوں کا نظام تھا تب بھی اور اب جب عدالتوں کا نظام رائج ہے تب بھی

ظاہر ہے کہ ثبوت وشواہد کے بغیر انصاف کے تقاضوں کو پوراہی نہیں کیا جاسکتا ایک بڑی خصوصیت اس ملک کی یہ بھی رہی کہ جب بھی کسی پنچایت یا قاضی نے کوئی غلط وغیر مناسب فیصلہ کیا یا فیصلہ سنانے میں جانب داری برتی تب ہی انصاف پسند طبقے نے بلا اختلاف مذہب وملت اس پر انگلی اٹھائی اور غیر مناسب وغلط فیصلے پر سوال کھڑے کئے

حق ہمیشہ حق ہی ہوتاہے وہ کسی بھی قوم ومذہب کے ساتھ ہو اس کا اظہار واعلان عدالتوں کا فرض ہوتاہے اور اگر عدالتوں سے چوک ہوجائے کسی بھی طرح خطاء وغلطی ہوجائے تو انصاف پسند طبقہ کا فرض ہے کہ جرأت وبے باکی کے ساتھ اس کا برملا اظہار کرے ورنہ عدالتوں اور پنچایتوں سے قوم کا اعتماد اٹھ جائے گا اور فریادرسی کا کوئی چوکھٹ ایسانہیں رہ جائے گا جہاں انصاف کی اپیل کے لئے فریادی فریاد لے جائیں

اب وطن عزیز کے اندربابری مسجد کے تعلق سے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس نے ہندوستان کے عدالتی نظام پر سیاہ دھبہ لگادیا یہ انصاف نہیں بلکہ انصاف کا گلا دباکر پوری دنیا کے اندر انصاف کے مندر کو بدنام کردیاگیا ہے باوجود اسکے کہ ثبوت وشواہد دوسری فریق کے پاس تھے مگر آستھا آستھا کی رٹ لگانے والوں کو تقریبا پانچ 5 سو سال پرانی مسجد اور اسکی آراضی دے دی گئی رام کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ رام سے اپنی جھوٹی عقیدت کے نام پر اپنی سیاسی بیساکھی کو مضبوط کرنے کے لئے ہے

آج اگر رام زندہ ہوتے تو اپنے نام کا غلط استعمال کرنے والوں سے سخت ناراض ہوتے ، نہ تو مسجد توڑنے کی اجازت دیتے بلکہ مسجد تورنے والوں سے اپنی برأت کا اظہار بھی کرتے اور اپنے نام پر ملنے والی اراضی نہ قبول کرتے ، نہ ہی ایسی مندر کا منہ دیکھتے جسے جبراغصب کرکے بنایاگیاہو ، نہ رام کی سچی تعلیمات اس کی اجازت دیتی ہے کہ کہ کسی مسجد یا عبادت گاہ کو توڑکر مندر بنایاجائے

جبکہ خود کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات کو تسلیم کیاہے کہ یہاں پہلے سے مسجد موجود ہے اور مسجد کی شہادت غلط اور خلاف قانون ہے اس کے مسمار کرنے والے مجرم ہیں ، کورٹ نے یہ بھی ماناہے کہ مسجد کسی مندر کو توڑکر نہیں بنایاگیاتھا ان تمام باتوں کے تسلیم کرنے اور تمام طرح کے ثبوت وشواہد کے باوجود یہ فیصلہ بڑے بڑے تاریخ داں اور قانون کے ماہرین کے لئے سمجھ سے بالاتر ہے اسی لئے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مہاتماگاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ” اگر مہاتماگاندھی کے معاملے میں سپریم کورٹ میں پھر سے سماعت ہوتی ہے تو فیصلہ یہی ہوگا کہ ناتھورام گوڈسے ایک قاتل ہے لیکن محب وطن ہے ”

اور سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو نے تو کہا کہ ” سپریم کورٹ کا فیصلہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف ہے ”

سب کچھ کے باوجود سپریم کورٹ کا بھرم ابھی تک لوگوں میں اتنا ضرورتھا کہ کسی بھی کیس میں کسی بھی تعلق سے معاملہ سپریم کورٹ کے حوالے ہونے کے بعد یہ اطمینان ضرور ہوتاتھا کہ یہاں پورے طور پر انصاف ملے گا یہ انصاف کا مندر ہے یہاں ناانصافی کا کوئی تصور نہیں لیکن سال گذشتہ فروری میں جج لویا کے کیس میں چار فاضل ججوں کا پریس کانفرنس کرکے یہ کہنا کہ سپریم کورٹ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہاہے سے ہی لوگو کے اعتماد کو کافی ٹھیس لگی ، اور اب بابری مسجد پر استھا کی بنیاد پر ائے فیصلے نے نہ صرف مسلمانون کا بلکہ عام انصاف پسند طبقہ کا اعتماد متزلزل کردیاہے

خود اسی بابری مسجد کے تعلق سے بھی مسلم طبقہ کی رائے یہی تھی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمیں تسلیم ہوگا چونکہ یہ مقدمہ ملکیت کا تھا اور کورٹ کاکام ثبوت کو پیش نظر رکھنا ہوتاہے لیکن آستھا کے مطابق فیصلہ مسلم طبقے کے لئے اس کی توقع کے بالکل خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے لئے بھی غیر مناسب ہے

اس پورے معاملے میں مسلم قوم کی توقع کے خلاف فیصلہ آنے کے باوجود صبر وتحمل اور ملک میں امن آمان برقرار رکھنے میں قوم کاکردار تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ محفوظ رہے گا یہ ایک سچے شہری اور ممن پسند قوموں کی علامت ہے ملک سے بےپناہ محبت کی دلیل ہے امن وآتحاد ہی کسی ملک کی ترقی کا ضامن ہوتاہے یہ بات دیگر قوموں کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور ملک سے محبت کا دھونگ رچنے والےامن کے دشمنوں سے ہوشیار رہنے کی بھی ضرورت ہے.

Comments are closed.