ہندوستانی معیشت کی ترقی کے لئے جرات مندانہ اصلاحات کی ضرورت

فرینک اسلام
آئی ایم ایف ورلڈ کی حالیہ میٹنگ میں شرکت کرنے کے بعد نئی دہلی واپس ہونے سے پہلے وزیر خزانہ نرملا سیتھا رمن نے ہندوستانی معیشت کا ایک حوصلہ افزا منظر پیش کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ معیشت کی بنیادیں مضبوط ہیں اوران کے مطابق ہندوستانی معیشت کو لاحق مسائل عالمی مندی کی وجہ سے ہیں۔ اسی دوران ورلڈ بینک نے اعلان کیا کہ ہندوستان کاروبار کرنے کی سہولت کے لحاظ سے 77سے 63ویں پائیدان پر پہنچ چکا ہے ۔ یعنی اس دوران اس کا درجہ 14 پوائنٹ کم ہوگیا ہے۔ کل ملا کرہوسکتا ہے کہ یہ اعداد وشمار یہ بتا رہے ہوں کہ ہندوستانی معیشت کو آگے لے جانے کے لئے مضبوط شرح نمو کے لئے راستہ ہموار ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے۔ معاشی ترقی جتناکہنا آسان ہے اتنا ہی عملا کرنا مشکل ہے۔ ملک اور بیرون ملک کے معاشیات کے ماہرین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ تقریبا تین ٹریلین کی معیشت کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔مثال کے طور پر ریزروبینک آف انڈیا اور آئی ایم ایف سمیت کئی اداروں نے ملک کی معاشی شرح نمو کو زوال پذیر اور کم بتایا ہے۔ ایسا اس وجہ سے بھی ہے کیوں کہ عالمی بازار میں مندی کا اثر ہے لیکن اس میں کئی داخلی عوامل بھی کارفرما ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے پہلے دور اقتدار میں ہندوستانی معیشت کی بیشتر ترقی اصلاحات اور نئے اقدام کی مرہون منت تھی۔ اور یہ بھی ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ معیشت کو آگے لے جانے کے لئے اضافی اصلاحات اوراقدامات کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم کے پہلے دور اقتدار میں بہتر نتائج لانے والی معاشی اصلاحات کی بنیادی توجہ بزنس اور داخلی فلاح وبہبود پر تھی۔ عوامی فلاح وبہبود کے ضمن میں لاکھوں لوگوں کو گیس کنکشن فراہم کیے گئے،کسانوں کی مدد کی گئی اور سرکاری خرچ پر حفظان صحت کی فراہمی نے نہ صرف شہریوں کی زندگی میں تبدیلی لائی بلکہ اس کا فائدہ مودی کو الیکشن میں بھی ہوا۔ بزنس کے معاملے میں انسالوینسی اور بینکرپسی (دیوالیہ پن) کے بنیادی پیمانوں کو تبدیل کیا گیا، میک ان انڈیا مہم کا آغاز ہوا اورسرمایہ کاری کرنے والوں کوخصوصی رعایت سے نہ صرف ان کا حوصلہ بڑھا بلکہ اس سے بڑے پیمانے پر ایف ڈی آئی کا حصول ہوا۔ لیکن سارے معاشی اصلاحات سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ معاشی ماہرین عا م طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے مطلوبہ مقاصد اور نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔
نوٹ بندی جس سے تقریبا 86 فیصد کرنسی جس کی مالیت 210 بلین ڈالر ہوتی ہے کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا کو شروع میں بہت بے باک فیصلہ قراردیا گیا تھا اور یہ امید کی گئی تھی کہ یہ ملک میں غیر قانونی معاشی سرگرمیوں پر بندھ باندھنے میں معاون ہوگی۔ لیکن نقدی کی کمی سے مینوفیکچرنگ اور زراعت سمیت کئی شعبوں پر بہت ہی برا اثر پڑا۔
ملازمت پر بھی اس کا برا اثر پڑا۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے مطابق 15لاکھ لوگوں کو اس کے سبب اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کا اثر جی ڈی پی پر بھی پڑا اور سال 2011 سے پہلی بار مائیکرو لیول کی معیشت میں سات فیصد کی کمی درج کی گئی۔
جی ایس ٹی جسے سال 2017 میں نافذ کیا گیا تھا کے نظام کو کو اس وقت کے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے اداروں کے ذریعہ ٹیکس وصول کیے جانے کے نظام کے بدلے ہندوستانی کے ٹیکس نظام کی اصلاح کے لئے ضروری قرار دیا گیا۔ لیکن اس میں کئی ناہموار تبدیلیوں نے کافی الجھن پیدا کردی ۔ اور ابھی بھی چھوٹے کاروباریوں اور صنعتوں نے جی ایس ٹی کو پوری طرح سے نہیں اپنایا ہے۔
ان اقدامات کے غیر ارادی نتائج کے علاوہ ایک تیسرا اور داخلی عنصر جس کی وجہ سے گزشتہ پانچ سالوں میں ہندوستانی معیشت نے مطلوبہ اور اطمئنان بخش نتائج نہیں دئے وہ اصلاحات کے عمل کا انتہائی سست رفتار ہونا بھی ہے۔ اس بات کو میڈیا میں کافی جگہ ملی کہ پارلیمانی انتخابات کی تیار ی میں حکومت نے کلی طور پر اصلاحات کے عمل کو روک دیا تھا۔ ان عوامل اور دوسرے عوامل کی وجہ سے آج ہندوستانی معیشت یقینی طور پر سست رفتاری کا شکا ر ہے۔ کھپت پچھلے نو ماہ سے مسلسل گھٹتی چلی جارہی ہے۔ گاڑیوں کی صنعت جو کہ پچھلے کئی سالوں سے تیزی سے ترقی کررہی صنعتوں میں سے ایک تھی ، گزشتہ سال سے خصوصی طور پر متاثر ہے۔دوسرے اہم شعبے جیسے بینکنگ، مینوفیکچرنگ اور ریئل اسٹیٹ کی کارکردگی بھی کافی خراب رہی ہے۔
آئی ایم ایف کا اندازہ ہے اس مالیاتی سال میں ہندوستان کی شرح نمو 6.1 رہے گی۔ دی سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی نے اس سے بھی کم کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس کے اندازے کے مطابق معیشت کی شرح نمو 5.9فیصد ہی رہے گی جو کہ "پچھلے سات سالوں میں سب سے کم شرح ہے۔”
تو آخر ہندوستانی معیشت کو موجودہ سست رفتاری سے نکالنے اور اس کو ترقی کی منزلیں طے کرانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟سب سے مقدم اور اہم بات یہ ہے کہ مودی انتظامیہ معاشی اصلاحات کے عمل کے تعلق سے اپنے عزم کو دہرائے اور اصلاح کے عمل کو شروع کرے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک میں معاشی ترقی کے شعبہ کے ڈائرکٹرسیمون جانکوف کہتے ہیں کہ بزنس کرنے کی سہولت کی درجہ بندی والی فہرست میں ہندوستان کو اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لئے ایکّ” نئے مجموعہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ”
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان نے اصلاحات کے عمل کو دوبارہ شروع کردیا ہے۔ ماہ ستمبر میں وزیر خزانہ سیتھا رمن نے منافع پر کارپوریٹ ٹیکس کو 30 فیصد سے کم کرکے 22فیصد کردیا جس کو بزنس اور سرمایہ کاری سے متعلق لوگوں اور اداروں نے کافی سراہا۔ اب کئی شعبوں بشمول توانائی اور انشورنش، ریٹیل اور دفاع کے شعبہ میں ایف ڈی آئی کی افزدگی میں اسی طرح کی جرات مندانہ اصلاحات کی تسلسل کے ساتھ ضرورت ہے۔
معیشت کی ترقی کے لئے ایک اور اہم ضرورت یہ ہے کہ ملک کے بنیادی ڈھانچہ کی جدید کاری کی جائے۔ کچھ علاقوں کو چھوڑکر ہندوستان میں سڑک اور یلوے میں بڑے پیمانے پر جدید کاری اور بہتری کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں مرکزی وزیر برائے اسٹیل دھرمیندر پردھان نے اعلان کیا کہ حکومت اگلے پانچ سالوں میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں 1.4 ٹریلین ڈالر خر چ کرے گی۔ اگر کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی اور پھر انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں 1.4 ٹریلین ڈالر خر چ دونوں باتوں کو سامنے رکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت اصلاحات کے بارے میں سنجیدہ ہے۔ حکومت نے کئی دوسرےبہتر اقدامات کا اعلان کیا۔ مزید یہ کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے ری پرچیز کی شرح کو اس سال تقریباچھ گنا کم کردیا۔ ان سب کے باوجود ہندوستانی معیشت کافی بڑی ہے اور اس میں وقت کے ساتھ مسلسل بہتر تبدیلی کے لئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
یہ سہ ماہی جس کی شروعات اکتوبر میں ہوئی ہے انتہائی اہم ہے۔ اگر کارپوریٹ ٹیکس میں کمی واقع ہوتی ہے اور دیگر محرکات مؤثر ہوتے ہیں تو اس کا اثر سہ ماہی اعدادوشمار جو کہ اگلے سال تک دستیاب ہوں گے میں دکھائی دے گا۔ امید ہے کہ یہ اعداد وشمار بہتر ہی ہوں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ترقی کے عمل میں پائیداری آئے گی ۔ اور اگر ایسا نہ ہوا توفوری طور پر کچھ فیصلے لینے ہوں گے۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے چیئر مین رجنیش کمار جو کہ وزیر خزانہ سیتھا رمن کے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف میٹنگ میں ہندوستانی وفد کے ساتھ نے کہا کہ ہندوستانی معیشت عبوری تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ ا ن کے خیال میں ہندوستان”شرح نمو کے لحاظ سے نچلے پائیدان پر ہے۔” مودی انتظامیہ نے جس طرح پہلے دور اقتدار میں تسلسل کے ساتھ جدوجہد کی تھی اور اصلاحات کا عمل کیا تھا اگر اسی پر آج بھی عمل پیرا ہوتو اپنے تخمینے کوصحیح ثابت کرسکتی ہے۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نژاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Comments are closed.