غیر مسلموں کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک

 

(پہلی اور دوسری قسط)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ

غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ ربط و تعلق کے سلسلہ میں اسلام نے دو بنیادی تصور دیا ہے ، ایک یہ کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں :

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا(الحجرات:۱۳)

اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اورتم کو قبائل اور خاندانوں میں اس لئے تقسیم کیا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔

پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات میں اس بات کی وضاحت فرمائی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو : کلکم من آدم و آدم من تراب (مجمع الزوائد، حدیث نمبر: ۱۳۰۸۹)

آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ میں اپنی تعلیمات کا خلاصہ دو جملوں میں پیش فرمایا : إن الٰہکم واحد وإن اباکم واحد(کنز العمال، حدیث نمبر: ۵۶۵۲) یقیناً تمہارا خدا ایک ہے اورتمہارے باپ بھی ایک ہی ہیں ، تمام انسانوں کی ایک ماں باپ سے پیدائش کے تصور سے دوسرا تصور انسانی اُخوت کا پیدا ہوتا ہے کہ تمام انسان ، چاہے وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں ، کسی خاندان سے ان کا تعلق ہو ، کالے ہوں یا گورے ، سب بھائی بھائی ہیں ؛ چنانچہ آپ ﷺ نے ایک موقعہ پر اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام بنی آدم بھائی بھائی ہیں (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۵۱۰) دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان بحیثیت انسان قابل احترام ہے ، اور دنیا کی جو بے شمار نعمتیں ہیں ، چاہے ان کا تعلق خشکی سے ہو یا سمندر سے ، اور اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو بھی پاک غذائیں پیدا کی ہیں ، ان سب میں تمام انسانوں کا حق ہے ، ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں :

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ۔ (بنی اسرائیل: ۷۰)

ہم نے بنی آدم کو باعزت بنایا ہے ، ہم نے ان کو خشکی میں اور سمندر میں سوار کیا ہے اور انھیں پاکیزہ روزی عطا کی ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے مختلف ارشادات میں انسان کی فطری شرافت و وقار کا ذکر فرمایا ہے (کنز العمال، حدیث نمبر: ۳۴۶۲۱) گویا اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکے نزدیک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم ، وہ انسان ہونے کی حیثیت سے قابل احترام اور باعزت ہے اور کائنات میں اللہ تعالیٰ نے جو وسائل رکھے ہیں ، ان پر صرف مسلمانوں کا حق نہیں ہے ؛ بلکہ تمام انسانوں کا حق ہے ۔

یہ دو بنیادی اُصول ہیں ، جن پر اسلامی نقطۂ نظر سے مسلم وغیر مسلم تعلقات کی بنیاد ہے اوررسول اللہ ﷺ نے اپنے اخلاق و اُصول کے ذریعہ اس کے عملی نمونے پیش کئے ہیں ۔

اکرام و احترام:

رسول اللہ ﷺ غیر مسلم حضرات کے ساتھ ہمیشہ باہمی احترام و اکرام کا معاملہ فرماتے تھے ، آپ نے متعدد غیر مسلم بادشاہوں اور سرداروں کو خطوط لکھے اور انھیں اسی لقب سے مخاطب کیا ، جس لقب سے ان کی رعایا ان کا ذکر کیا کرتی تھی ، جیسے روم کے بادشاہ ہرقل کے لئے ’ عظیم الروم ‘ ایران کے بادشاہ کسریٰ کے لئے ’ عظیم الفارس ‘اور حبش کے بادشاہ نجاشی کے لئے ’ عظیم الحبش (بخاری، حدیث نمبر:۱، کنز العمال، حدیث نمبر: ۱۱۳۰۲، نصب الرایہ:۴؍۵۰۰) عظیم سے مراد عظمت والی شخصیت ، باعزت ہستی ، ظاہر ہے کہ اس میں مخاطب کا احترام ہے ، ابوجہل آپ کا بدترین دشمن تھا ، اس نے آپ کو تکلیف پہنچانے اور بُرا بھلا کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ؛ چوںکہ اس کے اندر فیصلہ کرنے اور لوگوں کے معاملات کو حل کرنے کی خاص صلاحیت تھی ؛ اس لئے اہل مکہ اس کو ’ ابو الحکم ‘ کہتے تھے ، آپ ﷺ نے بھی اس کو ابوالحکم کے لفظ ہی سے مخاطب فرمایا کرتے تھے (سیرت ابن ہشام:۱؍۳۸۹)

ابو سفیان ایمان نہیں لائے تھے اور وہ اہل مکہ کے سردار تھے ، جب مکہ فتح ہوا اور حضور نے عمومی معافی کا اعلان فرمایا تو آپ نے کہا: جو لوگ اپنے گھر میں داخل ہوجائیں ، ان کے لئے امن ہے : من دخل دارہ فھو اٰمن، آپ کے اس ارشاد میں ابوسفیان کا گھر بھی داخل تھا ؛ لیکن ابوسفیان کے اعزاز و اکرام کے لئے آپ ﷺکے خصوصی طورپر اعلان فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے ، اس کے لئے امن ہے : من دخل دار ابی سفیان فھو آمن(مسلم، حدیث نمبر: ۱۷۸۰)

آپ ﷺنے مکہ سے ہجرت کرنے سے پہلے چاہا کہ کعبۃ اللہ میں دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع مل جائے ، کعبہ کی کنجی قبیلہ بنو شیبہ کے پاس رہا کرتی تھی اور اس وقت یہ کنجی اس قبیلہ کے ایک شخص عثمان بن طلحہ شیبی کے پاس تھی ، کسی شخص کے پاس کعبۃ اللہ کی کنجی کا ہونا اس کے لئے بہت اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی ؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺکے خاندان بنو ہاشم کے لوگ چاہتے تھے کہ کنجی انھیں مل جائے ؛ تاکہ ان کے اعزاز میں اضافہ ہو ، ان کی طرف سے حضرت علیؓ –جو آپ کے چچازاد بھائی بھی تھے اور داماد بھی — نے درخواست کی کہ کلید ِکعبہ بھی ہمیں دے دی جائے ؛ تاکہ کعبۃ اللہ کی خدمت ’’ سقایہ‘‘ ( پانی پلائی) تو پہلے سے بنو ہاشم کے پاس ہے ، یہ دوسرا اعزاز ’حجابہ ‘( کلید برداری ) بھی بنوہاشم کو مل جائے ، جب آپ ﷺکعبۃ اللہ سے باہر تشریف لائے تو آپ نے عثمان شیبی کو طلب کیا اور انھیں یہ کہتے ہوئے کنجی واپس فرمادی کہ آج کا دن حسن سلوک کا اور عہد کو نباہنے کا دن ہے ، (سیرت ابن ہشام: ۲؍۴۱۲) یہ عربوں کے معاشرہ میں غیر معمولی اعزاز کی بات تھی او راس اعزاز و اکرام کا معاملہ آپ نے ایک ایسے شخص کے ساتھ فرمایا ، جو ابھی مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے اورجنھوں نے آپ کو آپ کی خواہش کے باوجود کعبہ میں دو رکعت نماز تک پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی (الخصائص الکبریٰ:۱؍۴۴۶)

آپ ﷺنے زندگی میں ہی نہیں ؛ بلکہ مرنے کے بعد بھی اس تکریم و احترام کو پیش نظر رکھا ؛ چنانچہ حضرت سہل بن حنیف ؓاور قیس بن سعد ؓکے بارے میں روایت ہے کہ وہ دونوں قادسیہ ( ایران کے مقام کا نام ) — میں بیٹھے ہوئے تھے — سامنے سے جنازہ گذرا تو یہ دونوںحضرات کھڑے ہوگئے ، کہا گیا : یہ کسی مسلمان کا جنازہ نہیں ہے ، غیر مسلم کا جنازہ ہے ، ان حضرات نے کہا : رسول اللہ ﷺکے سامنے سے جنازہ گذرا تو آپ بھی کھڑے ہوگئے تھے ، آپ سے عرض کیا گیا تھا : یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے ، آپ ﷺنے فرمایا : کیا وہ انسان نہیں تھا ؟ الیست نفساً (بخاری، حدیث نمبر: ۱۲۵، مسلم حدیث نمبر: ۹۶۱)

اسی طرح آپ ﷺنے اپنے سے بڑی عمر والوں کی عزت و توقیر کا حکم دیا ہے (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۹۲۱) اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ۔

غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ:

مسلمانوں کے جو غیر مسلم رشتہ دار ہوں ، ان کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کی تاکید کی گئی ، قرآن مجید میں بارہ مواقع پر رشتہ و قرابت کا لحاظ رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے ، نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرابت دار کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں دوہرا ثواب ہے ، صدقہ کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی (ترمذی، حدیث نمبر: ۶۱۸) ایک اور موقع پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : جو چاہتا ہے کہ اس کی روزی میں کشادگی ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اس کو رشتوں کا خیال رکھنا چاہئے (بخاری، حدیث نمبر: ۹۹۱) ایک اور موقع پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : جو برابر سرابر کا معاملہ کرنے والا ہو ، وہ رشتوں کا پاس و لحاظ کرنے والا نہیں ؛ بلکہ پاس و لحاظ رکھنے والا وہ ہے کہ جو اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہیں کرے ، وہ اس کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا معاملہ کرے (بخاری، حدیث نمبر: ۵۹۴۶)

صلہ رحمی کی بنیاد مذہب پر نہیں ہوتی ، رشتہ و قرابت پر ہوتی ہے ، رشتہ دار چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، آپ نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ، حضرت اسماء بنت ابی بکر جو آپ ﷺ کی نسبتی ہمشیرہ تھیں ، ان کی والدہ ان کے پاس مدینہ آئیں ، حضرت اسماء نے حضور ﷺسے دریافت کیا : کیا میں ان کو کچھ دے سکتی ہوں ؛ حالاںکہ ابھی وہ مشرک تھیں ، تو آپ نے ان کےساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا (بخاری، حدیث نمبر: ۳۰۱۲) اسی طرح مختلف صحابہ کے والدین یا ماں باپ میں سے کوئی ایک غیر مسلم تھے ، جیسے حضرت ابوبکرؓکے والد حضرت قحافہ مکہ فتح ہونے تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ؛ لیکن حضرت ابوبکر ؓان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہے ، حضرت ابوہریرہؓ کی والدہ ایمان نہیں لائی تھیں اور رسول اللہ ﷺکو بُرا بھلا کہتی تھیں ، پھر بھی آپ ان کو اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے (الدرالمنثور:۶؍۵۲۱) اسی طرح کا معاملہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی والدہ کا بھی تھا ، آپ نے ان کے ساتھ بھی بہتر سلوک جاری رکھنے کی تلقین فرمائی ، مدینہ کے کئی انصاری صحابی اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کی مالی مدد کیا کرتے تھے ، اِن مسلمانوں نے اپنے اُن رشتہ داروں کو اسلام لانے کی دعوت دی ، مگر وہ مسلمان ہونے کو تیار نہیں ہوئے ، تو انھوںنے ان کی مدد روک دی ، ان کے اس طرز عمل کو قرآن نے منع کیا ( تفسیر قرطبی:۳؍۳۳۷) کہ ان کی ہدایت تمہارے ذمہ نہیں ہے ، اللہ جس کو چاہتے ہیں ، ہدایت دیتے ہیں : لیس علیک ھداھم ولکن اللّٰه یھدی من یشاء (البقرہ: ۲۷۲) حضرت ابو طالب ایمان نہیں لائے ؛ لیکن آپ ﷺان کی مدد کرتے رہتے تھے ، یہاں تک کہ حضرت علی ؓکی پرورش کا ذمہ آپ نے قبول فرمالیا اور آپ ہی کی توجہ دہانی پر ان کے ایک اور صاحبزادہ حضرت عقیل ؓکی پرورش کی ذمہ داری حضرت عباسؓنے قبول فرمائی ، اہل مکہ قریب قریب سبھی آپ کے رشتہ دار تھے اور آپ ہمیشہ ان کے ساتھ حسن سلوک کا خیال رکھتے تھے ؛ چنانچہ — جیساکہ آگے آرہا ہے —جب مکہ میں شدید قحط پڑا تو آپ ﷺنے ان کا خطیر مالی تعاون فرمایا ۔

غیر مسلم پڑوسی:

جیسے رشتہ داری کا تعلق ایک قریبی تعلق ہوتا ہے ، اسی طرح کا تعلق پڑوس کا ہے ، قرآن مجید میں دو طرح کے پڑوسیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ایک : رشتہ دار پڑوسی ، دوسرے : اجنبی پڑوسی (النساء:۳۶) جس کو ’ الجار الجنب ‘ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ، بعض مفسرین نے تو اس سے خاص طورپر غیر مسلم پڑوسی ہی مراد لیا ہے ، (تفسیر ابن کثیر، آیت مذکورہ) اور ان دونوں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ، رسول اللہ ﷺنے خاص طورپر اس کی تاکید فرمائی — آپ نے فرمایا : وہ شخص صاحب ایمان نہیں —جس کا پڑوسی اس کے شر سے مطمئن نہ ہو ، یہ بات آپ نے تین بار قسم کھاکر ارشاد فرمائی (بخاری، حدیث نمبر: ۵۶۷۰) پڑوسی سے مراد وہ شخص ہے جس کا مکان اس کے مکان سے قریب ہو ، اس میں آپ نے مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ، رسول اللہ ﷺکی ان ہی تعلیمات کا اثر تھا کہ آپ کے صحابہ غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا خاص خیال رکھتے تھے ، حضرت عبد اللہ بن عمر ؓکے یہاں ایک بکری ذبح کی گئی ، جب وہ گھر تشریف لے گئے تو دریافت کیا : کیا میرے فلاں یہودی پڑوسی کو گوشت بھیجا گیا ؟ پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمایا کرتے تھے (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۱۵۴) پڑوسی کی ایک اور قسم ’’ وقتی پڑوسی‘‘کی ہے ، جیسے : ٹرین یا ہوائی جہاز یابس کا ساتھی ، اس کو قرآن مجید کی اس آیت میں ’’ صاحب الجنب ‘‘ کہا گیا ہے ، اور ان سے اچھے سلوک اور بہتر برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے ، اس حکم میں بھی مسلمان و غیر مسلم دونوں شامل ہیں ۔

خوشی و غم میں شرکت:

ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلق کا تقاضا ہے کہ خوشی و غم میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں ، رسول اللہ ﷺاس کا بھی خیال رکھتے تھے ، اگر کوئی غیر مسلم بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کیا کرتے تھے ، ایک یہودی نوجوان جو آپ کے ساتھ آمد و رفت رکھتا تھا اور محبت کے ساتھ آپ کی خدمت بھی کیا کرتا تھا ، بیمار پڑ گیا تو آپ نے اس کی عیادت فرمائی (بخاری، حدیث نمبر: ۵۶۵۷) غیر مسلم اہل تعلق کی آخری رسومات میں بھی آپ نے شرکت فرمائی ہے ؛ چنانچہ حضرت ابوطالب کے جلوس جنازہ میں آپ تشریف لے گئے اور مقام تدفین تک پہنچے (سنن بیہقی، حدیث نمبر: ۶۴۵۹) اسی طرح آپ نے حضرت علیؓ کواپنے والد ابوطالب کی تجہیز و تکفین کا حکم دیا ، جو مسلمان نہیں ہوئے تھے (اعلاء السنن ۸؍۲۴۲) آپ کی ان ہی تعلیمات کا اثر تھا کہ آپ کے رفقاء بھی اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے جلوس جنازہ میں شریک ہوا کرتے تھے ۔

تعزیت کے معنی پرسہ دینے کے ہیں ، اس کی بھی اجازت ہے ، اگرچہ آپ ﷺکا صریح عمل اس سلسلہ میں منقول نہیں ہے ؛ لیکن آپ نے عمومی طورپر غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ جس حسن سلوک کی تعلیم دی ہے ، اس کی روشنی میں شریعت اسلامی کی شارحین نے غیر مسلم بھائیوں کی تعزیت کرنے کی تلقین ہے ۔

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ مریضوں کی عیادت کیا کرو ، جو مریض کی عیادت کرتا ہے ، وہ گویا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں رہتا ہے (مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۶۸) اس ہدایت میں آپ نے مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں کیا ، عیادت کا یہ حکم تمام مریضوں کے لئے ہے ، اسی طرح آپ ﷺنے مصیبت زدہ لوگوں کی دلداری اور ان کی خبر گیری کی تلقین فرمائی : من عزی مصاباً فلہ مثل اجرہ (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۰۷۳) یہاں بھی آپ نے پرسہ دینے اور تعزیت کرنے میں مسلمان اور غیر مسلم کا فرق نہیں رکھا ؛ اس لئے یہ احکام تمام لوگوں کے لئے ہیں ، خواہ وہ مسلمان ہو ںیاغیر مسلم ۔

ایفاء عہد:

اخلاقی نقطۂ نظر سے جو احکام آپ ﷺنے دیئے ہیں ، وہ عام ہیں اور اس میں مسلمان وغیر مسلم دونوں شامل ہیں ، مثلاً شریعت کا ایک اہم حکم ہے : وعدہ کو پورا کرنا ، تو جیسے مسلمانوں سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا ضروری ہے اور وعدہ خلافی گناہ ہے ، اسی طرح غیر مسلموں کے ساتھ بھی وعدہ خلافی گناہ ہے اور وعدہ کو پورا کرنا واجب ہے ، رسول اللہ ﷺکی زندگی میں اس کے واضح نمونے ملتے ہیں ، آپ نے ایسے موقع پر بھی ایفاء عہد کا خیال رکھا ہے ، جب کہ عام طورپر نہیں رکھا جاتا اورایسے حالات میں بھی رکھا ، جن میں وعدہ کو پورا کرنا مسلمانوں کے لئے نقصان کا سبب بن سکتا تھا ،اس کی دو مثالیں ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی ، مکہ کے مشرکین جو حملہ آور تھے ، وہ تقریباً ایک ہزار تھے ، ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ایک ایک فرد کی اہمیت تھی ، جنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور ان کے والد حضرت حُسَیْل دشمنوں کی فوج کے پیچھے کی طرف سے آرہے تھے ؛ تاکہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں ، اہل مکہ کو اس کا اندازہ ہوگیا ، انھوںنے ان دونوں کو پکڑ لیا اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک نہیں ہوں گے ، وہ حضور ﷺکی خدمت میں آئے اوران کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوجائیں ؛ لیکن آپ ﷺنے فرمایا کہ چاہے جو بھی ہو ، معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے ؛ چنانچہ آپ ﷺنے ان کو جہاد میں شریک نہیں فرمایا (مسلم، حدیث نمبر: ۱۷۸۷)

اس کی دوسری مثال صلح حدیبیہ ہے ، صلح حدیبیہ میں یہ بات طے پائی تھی کہ مکہ سے جو لوگ مسلمان ہوکر مدینہ جائیں گے ، مسلمان انھیں واپس کردیں گے ، ابھی یہ معاہدہ طے ہی پارہا تھا کہ حضرت ابو جندلؓ پابہ زنجیر رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ ان کو اپنے ساتھ لے چلیں ، مسلمان بھی ان کی حالت دیکھ کر اور فریاد سن کر بے چین ہوگئے اور آپ نے اپنے ذاتی تعلق کا حوالہ دے کر سہیل بن عمرو کو راضی کرنے کی پوری کوشش کی ؛ لیکن وہ تیار نہیں ہوا ؛ چنانچہ آپ نے ان کو واپس کردیا اور فرمایا کہ اللہ ہی ان کے لئے کوئی راستہ نکالیں گے ۔ (البدیہ والنہایہ:۳؍۴۰)

دعوت دینا اور قبول کرنا:

سماجی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کا ایک مظہر دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ غیر مسلم حضرات کو مدعو کیا کرتے تھے ، جب آپ اللہ کے نبی بنائے گئے تو آپ نے بنو ہاشم کو کھانے پر مدعو کیا اور تمام لوگوں کو جمع فرمایا ، ان کی تعداد تیس نقل کی گئی ہے ، کھانا کھلانے کےبعد آپ ﷺنے ان کے سامنے اسلام کا تعارف پیش فرمایا (البدایہ والنہایہ:۳؍۴۰)

اسی طرح ۷؍ہجری میں آپ ﷺنے عمرۃ القضاء فرمایا اور اسی موقع پر اُم المومنین حضرت میمونہؓ سے آپ کا نکاح ہوا ، آپ نے ولیمہ میں اہل مکہ کو مدعو کیا ؛ لیکن انھوںنے دعوت قبول نہیں کی ۔ (سیرت ابن ہشام: ۲؍۳۷۲)

اسی طرح آپ ﷺنے مہمان نوازی کی ترغیب دی ہے اور مہمانوں کا اکرام کرنے کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، اس میں مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے ، آپ کے پاس مختلف قبائل کے سردار اور وفود آیا کرتے تھے اور آپ ان کی ضیافت فرمایا کرتے تھے ، بدر کی لڑائی میں جو لوگ قید کئے گئے ؛ حالاںکہ وہ حملہ آور تھے ؛ لیکن آپ نے اپنے رفقاء کو ترغیب دی کہ ان کے کھانے پینے کا بہتر انتظام کریں ؛ اسی لئے بہت سے صحابہ خود معمولی کھانا کھاکر ان کو بہتر کھانا کھلایا کرتے تھے (مجمع الزوائد:۶؍۱۱۵، حدیث نمبر: ۱۰۰۰۷)

آپ ﷺغیر مسلم بھائیوں کی دعوت قبول بھی فرمایا کرتے تھے ، اسی طرح کے ایک واقعہ میں ایک یہودی خاتون نے آپ ﷺکو مدعو کیا ، اور بکرے کے دست کے حصہ — جس کا گوشت آپ ﷺکو زیادہ مرغوب تھا — میں زہر ملا دیا ، جس کی تکلیف کا اثر آپ کو مرض وفات تک رہا (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر: ۴۵۲)

سلام:

رسول اللہ ﷺنے ایک دوسرے سے ملاقات کے لئے جو جملہ مقرر کیا ہے ، وہ ہے : ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ (تم پر سلامتی ہو یعنی تم محفوظ رہو ، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں) — سلامتی کے معنی ہیں محفوظ رہنا ، اس میں ہر طرح کی سلامتی شامل ہے ، گناہوں سے ، بیماریوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے ، رحمت میں اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں شامل ہیں ، مال واولاد ، اور آخرت کی نجات ، برکت سے مراد یہ ہے کہ جو نعمتیں حاصل ہیں ، وہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں اور زیادہ دنوں تک باقی رہیں ، غرض کہ یہ ایک دُعاء ہے اور دُعاء مسلمان کے لئے بھیجائز ہے اور غیر مسلم کے لئے بھی ؛ اس لئے غیر مسلم کو بھی سلام کرنا جائز ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد مسلمان نہیں تھے ؛ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو سلام کیا ، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے : ’’قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ‘‘ (مریم: ۴۷) رسول اللہ ﷺ نے ایسے مجمع کو سلام فرمایا ہے ، جس میں مسلمان بھی تھے ، مشرکین بھی اور یہودی بھی (صحیح بخاری، باب التسلیم فی مجلس فیہ، حدیث نمبر: ۵۸۹۹) اور جب کسی مجمع کو سلام کیا جاتا ہے ، اور سلام کرنے والے نے کسی کی تخصیص نہیں کی ہو تو سبھی حضرات مخاطب ہوتے ہیں ۔

مدینہ کے یہودی جب رسول اللہ ﷺ سے یا مسلمانوں سے ملتے تو زبان دباکر ’السام علیکم ‘ کہتے ، یعنی سننے والے کو تو محسوس ہوتا کہ وہ سلام کررہے ہیں ؛ لیکن حقیقت میں وہ اس کی بجائے ’ السام علیکم ‘ کہا کرتے تھے ، جس کے معنی ہیں : ’’ تم پر موت آجائے‘‘ ان کی اس شرارت کی وجہ سے آپ ﷺنے فرمایا کہ تم ان کو سلام نہ کیا کرو اور اگر وہ ’ السام علیکم‘ کہیں تو صرف ’ وعلیکم‘ کہہ دو ، یعنی تمہارے ہی ساتھ ایسا ہو ، (بخاری، باب کیف الرد علی اہل الذمہ بالسلام؟ حدیث نمبر: ۵۹۰۲) یہ ممانعت خاص طورپر ان یہودیوں کے لئے تھی ، جو ’السام علیکم ‘ کے لفظ کا غلط استعمال کیا کرتے تھے ، عام غیر مسلم حضرات کو سلام کرنے کی یا ان کے سلام کا جواب دینے کی ممانعت نہیں ۔

تحفہ کا لین دین:

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور کدورتیں دُور ہوتی ہیں ، (معجم کبیر للطبرانی:۲۵؍ ۱۶۲، حدیث نمبر: ۳۱۳، عن اُم حکیم) اس میں آپ ﷺنے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے ؛ بلکہ عمومی طورپر ہدیہ دینے کی ترغیب دی ہے ، حضرت عمر ؓکو آپ ﷺنے ایک حلہ (دو چادروں کا لباس ) عطا فرمایا ، جس کو آپ نے خود اپنے لئے اس کے قیمتی ہونے کی وجہ سے پسند نہیں فرمایا ، حضرت عمر ؓنے عرض کیا : جب آپ ﷺنے اس کو اپنے لئے پسند نہیں کیا تو مجھے

کیوں عنایت فرمایا ؟ آپ ﷺنے فرمایا : میں نے یہ تم کو اس لئے نہیں دیا ہے کہ تم خود استعمال کرو ؛ بلکہ تم اسے بیچ دو یا کسی اور کو دے دو ، حضرت عمرؓ کے ایک بھائی ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور مکہ میں مقیم تھے ، آپ نے ان کو عنایت فرمادیا ۔ (بخاری، کتاب الھبہ، حدیث نمبر: ۲۴۷۶)

اہل مکہ نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ؛ لیکن جب مکہ میں قحط پڑا ، یہاں تک کہ لوگ مردار کھانے پر مجبور ہوگئے تو آپ نے مکہ کے قحط زدہ غیر مسلموں کے لئے پانچ سو دینار بھیجے ؛ حالاںکہ اس وقت مدینہ کے مسلمان خود سخت مالی مشکلات سے دوچار تھے ، پانچ سو دینار کی قدر کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ بیس دینار ساڑھے ستاسی گرام سونے کے برابر ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ پانچ سو دینار بہت بڑی رقم ہوئی اور یہ رقم آپ نے سردارانِ قریش ابوسفیان اور صفوان ابن اُمیہ کو بھیجی کہ وہ اسے تقسیم کردیں ، جو اس وقت اہل مکہ کے قائدین تھے اور مسلمانوں کی مخالفت میں پیش پیش تھے ۔ (ردالمحتار: ۳؍۳۰۲، باب المصرف)

مکہ سے ایک ’ مطر بہ ‘ یعنی گانا بجانا کرنے والی عورت مدینہ آئی اور رسول اللہ ﷺسے مالی مدد کی طلب گار ہوئی ، آپ نے خود بھی اس کا تعاون فرمایا اور اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں سے بھی اس کی مدد کرائی ؛ حالاںکہ وہ مسلمان نہیں تھی اور گانا گایا کرتی تھی ، جس کو اسلام نے پسند نہیں کیا ہے ۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۳۹۳۹)

اس لئے آپ ﷺنے رحم اور حسن سلوک کی عمومی تعلیم دی ہے ، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : تم ان لوگوں پر رحم کرو ، جو زمین میں ہیں تو تم پر وہ ذات رحم کرے گی ، جو آسمان میں ہے ، (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۹۲۴) ظاہر ہے کہ اس میں مسلمان اور غیر مسلم یہاں تک کہ جانور بھی شامل ہیں ، ایک موقع پر آپ ﷺنے فرمایا ہر جاندار کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی خدمت کرنے میں اجر ہے ، (بخاری، حدیث نمبر: ۶۰۰۹) نیز ارشاد ہے : مسلمان درخت لگائے اور اس میں سے کوئی انسان یا جانور کھائے تو اس کو صدقہ کاثواب ملے گا : ’’ فأ کل منہ انسان او دابۃ إلا کان لہ صدقۃ‘‘ (مسلم، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم، حدیث نمبر: ۵۶۶۶) اور اس کے مقابلہ میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص انسان پر مہر بانی نہیں کرتا ، اللہ تعالیٰ بھی اس پر مہر بانی نہیں فرمائیں گے : ’’ لا یرحم اللّٰه من لا یرحم الناس‘‘ ۔ (بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر: ۶۹۴۱)

جیسے آپ ﷺنے غیر مسلم حضرات کو تحفے عنایت فرمایا کرتے تھے ، اسی طرح ان کے تحفے قبول بھی کیا کرتےتھے ؛ چنانچہ روم کے بادشاہ ہرقل نے آپ کو تحفے بھیجے ، جس میں نفیس کپڑا بھی تھا ، (ابو داؤد، کتاب اللباس، حدیث نمبر: ۴۰۳۹) اور سونٹھ بھی تھی ، (لابن أبی حاتم، حدیث نمبر: ۹۰۶) آپ نے ان تحائف کو قبول فرمایا اور اپنے رفقاء کو بھی اس میں سے عنایت فرمایا ، ایک اور سردار اُکَیْدِرْدُوْمَہْ نے بعض تحائف بھیجے ، جن میں کپڑے بھی تھے اوربعض دوسری اشیاء بھی تھیں ، آپ نے قبول کیا اور اپنے رفقاء کو بھی اس میں سے عنایت فرمایا ، (مسند احمد، عن انس: ۴۶-۱۲۲۴۵) حضرت علی کی روایت میں شاہ ایران کے بھی تحفہ بھیجنے اور آپ ﷺکے قبول کرنے کا ذکر آیا ہے ۔ (ترمذی، باب ما جاء قبول ہدایا المشرکین، حدیث نمبر: ۱۵۷۶)

جان و مال کا احترام:

غیر مسلموں کے جان و مال کے احترام کو آپ ﷺنے وہی درجہ دیا ، جو مسلمانوں کی جان و مال کا ہے ، آپ نے اس سلسلہ میں اُصول بیان فرمادیا کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہیں اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح : ’’دمائھم کدمائنا وأموالھم کأموالنا‘‘ (نصب الرایہ: ۳؍۳۸۱) ایک موقع پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :

من قتل معاھدا لم یرح رائحۃ الجنۃ ، و إن ریحھا یوجد من مسیرۃ أربعین عاماً ۔ (بخاری، عن عبداللہ بن عمرو، حدیث نمبر: ۳۱۶۶)

جس نے کسی معاہد ( وہ غیر مسلم جس سے پر اُمن زندگی گذارنے کا معاہدہ ہو ) کو قتل کیا ، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ؛ حالاںکہ اس کی بُو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جاسکتی ہے ۔

عہد نبوی میں مسلمان نے ایک غیر مسلم شخص کو قتل کردیا تو وہ مسلمان بھی اس کے قصاص میں قتل کیاگیا ، (سنن دار قطنی، کتاب الحدود، حدیث نمبر: ۱۶۵) آپ ﷺکے اسی اُسوہ کا اثر تھا کہ آپ ﷺکے بعد آپ کے صحابی حضرت عمر ؓنے اپنے عہد خلافت میں ایک غیر مسلم کے قتل پر یہی حکم جاری کیا ، (سنن بیہقی: ۸؍۳۰، حدیث نمبر: ۱۵۷۰۴) اور حضرت علیؓ نے بھی اپنے عہد حکومت میں اسی طرح کا عمل فرمایا ۔ (سنن بیہقی:۸؍۱۵۷۱۲)

قاتل پر مقتول کے قتل کے بدلے یا تو قصاص واجب ہوتا ہے یا دیت ، یعنی خون بہا واجب ہوتی ہے ، آپ نے غیر مسلم شخص کے قتل کی وہی دیت رکھی ، جو دیت مسلمانوں کے قتل کی ہے ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک غیر مسلم کی وہی دیت ادا کی جو دیت مسلمان کی ہوتی ہے ،(سنن دار قطنی، کتاب الحدود، حدیث نمبر: ۱۴۹) اس طرح آپ ﷺکی نظر میں غیر مسلم کا مال بھی مسلمان ہی کے مال کی طرح قابل احترام ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا :

الامن ظلم معاھدا او انتقصہ أو کلفہ فوق طاقتہ أو اخذ منہ شیئاً بغیر طیب نفس ، فأنا حجیجہ یوم القیامۃ ۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۳۰۵۳)

آگاہ ہوجاؤ ! جس نے کسی معاہد پر ظلم کیا ، اس کی حق تلفی کی ، یا اسے اس کی رضامندی کے بغیر لے لیا ، تو میں قیامت کے دن اس کا فریق ہوں گا ۔

اور تو اور آپ جنگ کے موقع پر بھی اس کا لحاظ رکھتے تھے کہ جب دشمن ہتھیار ڈال دیں یاصلح پر راضی ہوجائیں تو ان کی املاک کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے ، فتح خیبر کے موقع سے بعض مسلمان فوجیوں نے یہودیوں کے جانور ذبح کردیئے اور کچھ پھل کھا لئے ، رسول اللہ ﷺکو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺنے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اس عمل پر ناگواری ظاہر کی اورفرمایا کہ یہ تمہارے لئے حلال نہیں ہے ، (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۳۰۵۰) یہودیوں کے پاس ایک کنواں ’بیئر روما ‘ نام کا تھا ، جس سے پینے کا پانی حاصل ہوا کرتا تھا ، جس سے تمام لوگ پانی لیا کرتے تھے ، وہ یہودی مسلمانوں سے پانی روک لیا کرتا تھا ؛ حالاںکہ آپ اس کو سلطنت کی عمومی مصلحت کے لئے عوامی مفاد کے پیش نظر بحق حکومت ضبط کرسکتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺنے ایک مالدار مسلمان ساتھی حضرت عثمان ؓسے خواہش کی کہ وہ اس کو خرید کر لیں ، انھوںنے بارہ ہزار درہم میں کنویں کا آدھا حصہ خرید کرلیا اور اس کو عام نفع کے لئے وقف کردیا ۔ (زادالمعاد:۵؍۷۱۳-۷۱۴)

کاروباری تعلق:

تجارتی اور کاروباری تعلق میں آپ ﷺنے مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی ، ابوسفیان اور جُبَیْر بن مُعْطِم مسلمان نہیں ہوئے تھے ، اس وقت بھی آپ ان کو اپنا سرمایہ تجارت کے لئے دیا کرتے تھے کہ وہ اسے تجارت میں لگائیں ، اور جو نفع ہو ، اس میں آپ کو بھی شریک کریں ، مدینہ کے مسلمانوں کی تجارت عام طورپر یہودیوں خاص کر بنو قینقاع ہی کی مارکٹ میں ہوا کرتی تھی ۔

آپ ﷺغیر مسلموں سے خرید و فروخت بھی فرمایا کرتے تھے ، آپ کی وفات کے وقت بھی آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی ؛ کیوںکہ آپ نے ان سے اُدھار تین صاع (عرب کا ایک پیمانہ ) جَو خرید فرمائی تھی ، (بخاری، باب ما قیل فی درع النبیﷺ الیٰ آخرہ، حدیث نمبر: ۲۷۵۹)اسی طرح آپ ﷺغیر مسلم حضرات کو اپنے یہاں ملازم بھی رکھا کرتے تھے ، جب آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو اس وقت آپ کو ایک ایسے قابل اعتماد شخص کی ضرورت تھی ، جو ریگستان میں راستہ بتائے ، اس خدمت کے انجام دینے والے کو ’ دلیل ‘ کہا جاتا تھا ، یعنی : راستہ بتانے والا ، آپ ﷺنے اِس اہم اور نازک خدمت کے لئے اُجرت دے کر ایک غیر مسلم کی خدمت حاصل کی ۔ (احکام اہل الذمہ لابن قیم: ۲۰۷)

غرض کہ غیر مسلم حضرات کے ساتھ آپ کا اور آپ کے رفقاء کا ہر طرح کا کاروباری تعلق ہو رہا کرتا تھا ۔

عدل و انصاف:

پیغمبر اسلام ﷺنے جن باتوں کی تعلیم دی ہے ، ان میں ایک بنیادی بات عدل وانصاف کا قیام ہے ، اس میں آپ کے نزدیک مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی امتیاز نہ تھا ، آپ ﷺ کے ایک صحابی کا نام ابن ابی حَدْرَدْ اسلمی تھا ، ان کے ذمہ ایک یہودی کے چار درہم باقی تھے ، یہودی نے حضور ﷺسے شکایت کی ، آپ ﷺنے فرمایا : اس کو اس کا حق ادا کردو ، انھوںنے عرض کیا : میں ابھی ادا کرنے پر قادر نہیں ہوں ، آپ ﷺنے پھر دوبارہ فرمایا : ان کو ان کا حقدے دو ، انھوںنے عرض کیا : میں ابھی ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، آپ نے فرمایا تھا کہ آپ مجھے کسی خدمت پر خیبر بھیجیں گے ، مجھے اُمید ہے کہ اس وقت آپ کچھ عطا فرمائیں گے تو اس وقت میں ان کو ان کا حق بھی ادا کردوں گا ، آپ نے تیسری بار بھی فرمایا کہ اسے اس کا حق دے دو ، رسول اللہ ﷺجب کسی بات کا حکم تین بارے دے دیتے تھے تو صحابہ خاموش ہوجایا کرتےتھے ، ابن ابی حدرد کے سرپر عمامہ تھا اور ایک چادر کو تہبند کے طورپر لپیٹے ہوئے تھے ؛ چنانچہ عمامہ کو تہبند بنالیا اور تہبند والی چادر کو بازار میں چار درہم میں فروخت کرکے اور یہودی کا قرض ادا کیا ۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۵۵۲۸، عن ابی حدرد)

یہ معاملہ صرف اپنے رفقاء ہی کے حق میں نہیں تھا ، خود اپنی ذات کے معاملہ میں بھی آپ عدل کا پورا پورا خیال رکھتے تھے ، اگر کسی شخص کا کوئی حق باقی ہوتا تو آپ اسے تقاضا کرنے کی اجازت دیتے تھے اور اگر وہ اس میں سخت کلامی سے کام لیتا تو اس کو بھی گوارا فرماتے تھے ؛ چنانچہ زید بن سَعْنَہ نامی ایک یہودی کا آپ ﷺپر دین تھا ، وہ رسول اللہ ﷺکا دامن تھام کر کھینچنے لگا اور سخت سست باتیں کہنے لگا : ’’ اے محمد ! تم میرا حق ادا نہیں کروگے ، تم بنی عبد المطلب ہو ہی ٹال مٹول کرنے والے ‘‘ حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے کہ اسے دھکا دے کر ہٹا دیں، آپ ﷺنے منع فرما دیا اور کہا : عمر! مجھے بھی اور اسے بھی تمہارے اس عمل کی بجائے دوسرے عمل کی ضرورت تھی ، تم مجھے کہتے کہ میں بہتر طورپر ادا کردوں ، اور اس سے کہتے کہ تم صحیح طریقہ پر تقاضا کرو ؛ اس لئے تم جاؤ اس کا حق بھی ادا کرو اور تم نے اس کو جو ڈرایا ہے ، اس کے بدلہ بیس صاع کھجور بڑھا کر دے دو ، (مستدرک حاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، حدیث نمبر: ۶۵۷۴) آپ ﷺکی اس انصاف پسندی اور حق گوئی سے زید بن سَعْنَہ اتنے متاثر ہوئے کہ اسی وقت مسلمان ہوگئے ۔

مذہبی معاملات:

نہ صرف سماجی بلکہ مذہبی معاملات میں بھی آپ ﷺغیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا پہلو اختیار کرتے تھے اور دوسروں پر ان کی مرضی کے بغیر اسلام کو تھوپنے کے قائل نہیں تھے ؛ اس لئے مکہ مکرمہ میں آپ نے اہل مکہ سے یہی خواہش کی کہ اگر تم اسلام قبول نہیں کرتے تو نہ کرو ؛ لیکن اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بھی نہ بنو اور سب لوگوں کو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے دو ، اسی کو قرآن مجید نے فرمایا : ’’ لکم دینکم ولی دین‘‘ (کافرون:۶) ہجرت کرکے جب آپ ﷺمدینہ تشریف لائے تو ابتدائی مرحلہ میں آپ نے جن کاموں کو انجام دیا ، ان میں ایک اہم کام مدینہ کے تمام قبائل — جن میں مسلمان بھی تھے ، یہودی بھی اور اِکا دُکا مشرکین بھی — کے درمیان معاہدۂ امن کرانا تھا ، اس معاہدہ کی بنیاد دو باتوں پر تھی ، ایک : مشترکہ ، دفاع ، دوسرے : ہر گروہ کی حیثیت کو تسلیم کرنا اور ان کا اپنے مذہبی معاملات میں آزاد ہونا ؛ چنانچہ اس معاہدہ کے الفاظ حسب ِذیل تھے :

یہودی مسلمانوں کی طرح ایک قوم سمجھی جائے گی ، جو کوئی ان سے لڑے ، مسلمان ان کے مقابلہ یہود کی مدد کریں گے ، مسلمانوں اوریہودیوں کے تعلقات خیر اندیشی ، نفع رسانی ، نیکی کے ہوں گے ، یہودیوں کے حلیف بھی اس معاہدہ میں اس کے ساتھ شریک ہوں گے ، مظلوم کی ہمیشہ مدد کی جائے گی ۔ (سیرت ابن ہشام:۱؍۱۷۸)

اسی طرح رسول اللہ ﷺکی خدمت میں نجران کے عیسائیوں کا وفد آیا ، آپ ﷺنے ان سے معاہدہ کرتے ہوئے ان کے لئے جو دستاویز لکھوائی ، وہ حسب ِذیل ہے:

اہل نجران کو خدا کی حفاظت اور محمد رسول اللہ کی امان حاصل ہوگی ، ان کی جان ، مذہب ، ملک اور اموال کے متعلق تمام موجود اشخاص اور غیر موجود افراد ، اور ان کی قوم ، نیز ان کے پیرو اس امان میں شامل ہوں گے ، ان کی موجودہ حالت تبدیل نہیں کی جائے گی ، ان کے حقوق میں سے کوئی حق بدلا نہ جائے گا اور جو کچھ تھوڑا یا زیادہ ان کے قبضہ میں ہے ، اس میں کوئی تغیر نہ کیا جائے گا ۔ (فتوح البلدان، بلاذری:۱؍۷۷)

مذہبی اُمور کی انجام دہی کے سلسلہ میں آپ ﷺکی وسیع القلبی کا حال یہ تھا کہ عیسائیوںکے اس گروہ نے اپنے طریقے پر اور اپنے قبلہ یعنی مشرق کی طرف رُخ کرکے مسجد ہی میں عبادت کرنی چاہی ، رسول اللہ ﷺنے اس سے منع نہیں فرمایا ؛ بلکہ انھیں اجازت دی اور اپنے رفقاء سے فرمایا کہ انھیں روکو نہیں ۔ (البدایہ والنہایہ، لابن کثیر:۵؍۵۶)

اسی طرح مذہبی مقدس شخصیات کی نسبت سے بھی آپ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جو ان پر ایمان رکھنے والوں کے لئے دل آزاری کا باعث بن جائے ، مدینہ میں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک یہودی بازار میں قسم کھارہا تھا : ’’ اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں چن لیا ہے ، یعنی انھیں تمام انسانیت پر فضیلت عطا کی ہے ‘‘ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آپ ﷺکو تمام انسانوں اور تمام پیغمبروں پر فضیلت عطا کی گئی ہے ؛ اس لئے ایک انصاری مسلمان سے یہ بات برداشت نہ ہوسکی ، انھوںنے یہودی کو برا بھلا کہا اور مارے غصے کہ اس یہودی کے چہرہ پر تھپڑ مار دیا ، وہ یہودی آپ کی خدمت میں آیا اور ان انصاری کی شکایت کی ، آپ نے ان انصاری سے کہا : انبیاء کے درمیان ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دو ، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک خصوصی فضیلت کا ذکر فرمایا جو قیامت کے دن ظاہر ہوگی ، (بخاری، عن ابی سعید خدری، کتاب الخصومات، حدیث نمبر: ۲۴۱۲) — غرض کہ آپ نے حکمت کے ساتھ اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک جزوی فضیلت کا ذکر فرمادیا ؛ تاکہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی وجہ سے اس کے ماننے والوں کی دل آزاری نہ ہو اور یہ چیز لوگوں کو مقدس شخصیتوں کی بے احترامی کی طرف نہ لے جائے۔ (جاری)

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.