Baseerat Online News Portal

اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا

 

محمد راشد قاسمی

عادة اللہ یہ جاری ہے اور تاریخ عروج وزوال اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں ایسے سخت حالات آتے ہیں، جہاں انھیں اپنا وجود بھی خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ بالخصوص مسلمان، جو روئے زمین پر خالق کائنات کی مرضیات کے نمائندے اور اس کے احکام تشریعیہ کے پابند ہیں، جب وہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے اور بے اعتدالیوں کے شکار ہوکر جادہٴ حق سے ہٹنے لگتے ہیں تو ان کے ارد گرد حالات کا گھیرا تنگ کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بے راہ روی کو چھوڑ کر مرضیِ حق کے تابیع ہوجائیں ۔ کبھی یہ نامساعد حالات اس لیے بھی آتے ہیں تاکہ آزمائش کی بھٹی میں ڈال کر یہ دیکھا جائے کہ آیا وہ صبر و ثبات قدمی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں یا ان کے پائے استقامت میں لغزش آجاتی ہے، ارشاد باری ہے

”وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الأمْوَالِ وَالأنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْھُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ“ (البقرہ: ۱۵۵-۱۵۶)

ترجمہ: اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو ۔

یہ حالات کبھی باعث رحمت تو کبھی غضب الٰہی کا مظہر ہوتے ہیں ۔ یہ اس وقت زحمت ہوتے ہیں جب ان حالات کے نتیجے میں انسان کو توبہ، استغفار اور رجوع الی اللہ کی توفیق نصیب ہو؛ لیکن اگر ان حالات کے باوجود بھی انسان اپنی دنیا میں مست اور احکام الٰہیہ سے دور رہےتو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حالات قہر الٰہی کا مظہر ہیں۔

اس وقت مسلمان، انفرادی واجتماعی اعتبار سے مسائل کے شکار ہیں بالخصوص بی جے پی حکومت کےاقتدار میں آنے کے بعد ہمارے ملک کی جو مجموعی صورت حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔مسماانوں کو ہندوستان سے بے دخل کرنے،اور ان میں خوف وہراس پیدا کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں جاری ہیں، فرقہ پرستاور باطل طاقتوں کی ناپاک شازسوں ک نےارض ہند کو اپنی وسعت کے باوجود تنگ کردیا ہے۔ تین طلاق کی آڑ میں مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کا کام کیاگیا، لَوْ جہاد کا پروپیگنڈہ کرکے مسلمانوں کو بدنام کیاگیا کبھی گؤ کشی کے نام پر سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو ماب لنچنگ کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اب تو این آرسی اور یکساں سول کوڈ کی باتیں بھی شروع ہوگئی ہیں ، جس سے ہندوستانی مسلمان جہاں پریشان ہیں تو وہیں ناامیدی و مایوسی کا شکار بھی، اورحالیہ بابری مسجد کےفیصلہ نےتو مسلمانوں کی مایوسی میں اور اضافہ کردیا، الغرض ہر جہت سے مسلمانان ہندکو پریشان کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں بہ قول شاعر؛

ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے نکلے

حالیہ بابری مسجد قضیہ میں سپریم کورٹ نے جس طرح تمام تر دلائل اور تاریخی شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے اکثریت کی عزت کو بنیاد بنا کر یک طرفہ فیصلہ سنایا ہے؛ اس نے ہر مسلمان کا چین و سکون غارت کر دیا ہے،غم اور افسوس سے نڈھال قوم مسلم اپنی بے بسی پر خون کے آنسو رو رہی ہیں ۔ الزام تراشیوں، لعنت و ملامت اور دوسرے کو مورد الزام قرار دینے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے ااوراس کے علاوہ اور بھی کیا کر سکتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے اور اس کے سچ ہونے میں کسی عقل باغیرت مسلمان کو شک نہیں ہوسکتا یہ فیصلہ جس طرز پر آیا ہے اس میں میر جعفر اور میرصادق کے نسل کے کچھ لوگوں کا بڑا دخل ہے۔

بابری مسجد کے فیصلہ آنےکے بعد ہر زبان پر یہ سوال ہے کہ مسلمان کیا کریں ؟ حق و انصاف کی سربلندی کے لئے قائم کردہ عدالتیں ہی جب نا انصافی کرنے لگیں تو پھر کہاں جا کر دہائی دیں۔جب حاکم ہی ظالم کا دوست بن جائے تو فریاد رسی کے لیے مظلوم کا آواز بلند کرنا بھی جرم میں شمار ہوتا ہے۔مایوسی کی اس مہیب تاریکی میں روشنی کی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی اب مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ کیا ان تمام مسائل و مشکلات کاحل مایوسی و خاموشی ہے؟کیا ہندوستانی مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہیں، اسی طرح درد وکرب میں گھٹتے گھٹتے زندگی گذار دیں ؟ہر گز نہیں!جس قوم کے درد کا درماں قرآن وسنت کی شکل میں موجود ہو تواسےمایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بس قرآن وسنت کے بتائے ہوے اصولوں پر عمل کی ضرورت ہے۔

تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں نے سخت اور کڑی شرائط پر دب کر صلح کرلی تھی۔ لیکن اس کے نتیجے اس کے برعکس آئے کہ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو فتح مبین کی بشارت دے دی۔ نیز اس صلح کا فائدہ یہ ہوا کہ کفار جو صلح سے پہلے مسلمانوں سے ملتے نہیں تھے صلح کی وجہ سے ان کے معاشرتی اور تجارتی مسائل دور ہوگئے۔

چنانچہ علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں: نتائج مابعد نے اس رازِ سر بستہ کی عقدہ کشائی کی، اب تک مسلمان اور کفار ملتے جلتے نہ تھے۔ اب صلح کی وجہ سے آمدورفت شروع ہوئی ، خاندانی اور تجارتی تعلقات کی وجہ سے کفار مدینہ میں آتے، مہینوں قیام کرتے او رمسلمانوں سے ملتے جلتے تھے ، باتوں باتوں میں اسلامی مسائل کا تذکرہ آتا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہر مسلمان اخلاص، حسن عمل، نیکو کاری ، پاکیزہ اخلاقی کی ایک زندہ تصویر تھا۔ جو مسلمان مکہ جاتے تھے ان کی صورتیں یہی مناظر پیش کرتی تھیں ۔ اس سے خود بخود کفار کے دل اسلام کی طرف کھنچے آتے تھے۔ اس معاہدہ صلح سے لے کر فتح مکہ تک اس قدر کثرت سے لوگ اسلام لائے کہ پہلے کبھی نہیں لائے تھے۔ ( سیرت النبی، کراچی، ج1، ص:266)

یقینا بابری مسجد بھی آج مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ۔لیکن انہوں نے اپنے رد عمل سے صلح حدیبیہ کی یاد تازہ کردی۔ اس لیے مسلمانوں کو مایوس ہو نے کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ بابری مسجد ایک بار پھر مسلمانوں کے سجدوں سے آباد ہوگی اور صنم منھ کے بل ہوکر قل ہو اللہ احد کا نعرہ لگائیں گے۔ اگرچہ حقیقت حال یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں سے بظاہر کسی مثبت تبدیل کے آثار نظر نہیں آتی لیکن شریعت کی یہ تعلیم ہے کہ مایوسی کفر ہے۔تدبیرو عمل ہمارے ذمہ ہے اور ثمرات کا ظہور خدا کی مشیت پر موقوف ہے۔ اس لئے شکستہ قلم کے ساتھ چند معروضات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :

انابت الی اللہ:

سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے مالک و خالق سے اپنا رشتہ مضبوط کریں اپنی گناہوں، خطاؤں اور اپنی غفلتوں کا احساس و اقرار کریں۔اور سچے دل سے بارگاہ ایزدی میں توبہ کریں ۔س لئے کہ آج کی ہماری یہ بدحالی و خستہ حالی اور زبوں حالی ہمارے ہی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے،اللہ نے ارشاد فرمایا : وَمَا أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکم ویعفو عن کثیر ( سورہ شوری- 130)

ترجمہ: ”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے اور بہت سے تو اللہ درگزر ہی کردیتا ہے۔

ہماری کوئی بھی انفرادی اور اجتماعی کوشش اس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتی جب تک ہمارا رب ہم سے راضی نہ ہو۔ اس لئے سب سے پہلے نام کے ساتھ کام کے مسلمان بنیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عملی طور پر اختیار کریں۔ اپنی رفتار و گفتار معاملات اور کردار سب کو نبی کے بتائے سانچے میں ڈھال دیں ۔

اتحادو اتفاق:

دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے مسلکی اختلافات اور نظریات سے قطع نظر کرتے ہوئے قومی و سیاسی مصلحت کے پیش نظر باہم متفق اور متحد بنیں۔ دیوبندی ،بریلوی، اہل حدیث اورجماعت اسلامی وغیرہ سارے مسالک والے سیاسی پلیٹ فارم پر ایک جسم اور جان بن کر دشمن کے خلاف صف بستہ ہوں ۔ شوسل میڈیا پر مسلکی پوسٹ ڈالنے سے حتی الامکان بچیں۔ اگر ضرورت ہو تو علمی انداز میں ادب کے ساتھ اس طرح بات کریں کہ انتشار کی صورت نہ ہو۔

دعوت الی اللہ:

تیسری بات یہ ہے کہ ایسے نا مساعد اورمخالف ماحول میں اپنے آپ کوحالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا ہمارے شعور ایمانی کے خلاف ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ماحول اور ذہن بناکر نفرت وعداوت کی جو کھائیاں پیداکردی گئی ہیں انھیں پاٹ کر برادران وطن تک محبت وانسانیت کا پیام پہنچایا جائے، بہ حیثیت ”خیرامت“ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ ہم برادران وطن سے اپنے فاصلے کم کریں، خواہ وہ آر ایس ایس اور شدت پسند ہندو تنظیموں کے کارکنان کیوں نہ ہوں، ہم ایک مستقل لائحہٴ عمل کے ساتھ ان سے ملیں، بہ راہ راست ایک ایک فرد تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

یہ ہمارا کتنا بڑا اجتماعی جرم ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی صداقت ”اسلام“ جس کے ہم امین ہیں، ملک کے اسّی کروڑ عوام تک اسے پہنچانے کے حوالے سے اب تک ہم کوئی لائحہٴ عمل بھی تیار نہ کرسکے۔ ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریبا 70 سال ہو چکے ہیں ان ستر سالوں میں دعوت کے میدان میں ہم نے سات فیصد بھی کام نہیں کیا بلکہ انفرادی کوشش کو چھوڑ دیں تو کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ہم نے اس حوالہ سے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ ایک زمانے سے ہمارے بعض مدارس میں بعض فرقوں کے خلاف کام کی تربیت دینے کے لئے کیمپ لگائے جاتے ہیں، ان فرقوں کے خلاف محاضرات کا اہتمام بھی ہوتا ہے، ہم نے کبھی نہیں سنا کہ غیر مسلموں میں دعوتِ دین کی عملی تربیت کے لئے بھی کوئی کیمپ لگایا گیا ہو، یا دعوت دین کے منہج اور طریقے کار پر بھی کبھی کوئی محاضرہ پیش کیا گیا ہو، دعو ت دین سے اس غفلت یا چشم پوشی کو کیا نام دیا جائے۔ اگر ہم نے اجتماعی سطح پر دعوت کے پیغمبرانہ مشن کو آگے بڑھایا ہوتا تو آج یہ ذلت و رسوائی ہمارا مقدر نہ بنتی۔

اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس یا بی جے پی کی تفریق کے بغیر خدا کے کنبے کافرد اور برادروطن ہونے کے ناطے ہر ایک سے ملیں۔ اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیمات پیش کرکے ان کے ذہن ودماغ کو کفر ونفرت کی خباثتوں سے پاک کرکے دین و صداقت کی روشنی سے منور کرنے کی کوشش کریں ۔ ہماری ملی قیادتیں اور دینی مدارس اگر اس پر سنجیدگی سے غور کریں اور مشترکہ لائحہٴ عمل طے کریں تو ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا اسلام کی آہٹ محسوس کررہی ہے کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان اس عظیم نعمت سے محروم رہے۔ دعوتی کام کے لیے یہ ماحول انتہائی سازگار اور موزوں ہے، یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں پر شکنجہ کسنے اوراسلام کے خلاف پروپیگنڈوں کے بعد ہی ہدایت کی روشنی کی طرف آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنانا ہوگا اور نتائج کے لیے صبر و اخلاص کے ساتھ کام میں لگے رہنا ہوگا۔

یہاں یہ بات واضح رہنا چاہئے کہ دعوت دین صرف علماء کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کا اس کا ذمہ دار ہے۔ ایک عام مسلمان سے جب کبھی اس حوالے سے بات کی جاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں تو خود زیادہ علم اور معلومات نہیں ہم دوسروں کو کیا دعوت دیں گے۔ یہ بڑی غلط فہمی اور اپنی کمیوں کی بنا پر پیدا شدہ احساس کا اثر ہے۔حالانکہ دنیا میں اسلام کی اشاعت میں اخلاق و معاملات کی پاکیزگی دیکھ کربڑی بڑی بستیاں اور قبیلے اسلام کے حلقہ بگوش ہوئی ہیں۔ اگر آج بھی ہم خود کو سچامسلمان بنا کر دنیا کے سامنے پیش کریں تو اسلام کے ابتدائی زمانے اور عہد زریں کی یادیں تازہ ہو سکتی ہیں۔

Comments are closed.