Baseerat Online News Portal

جمعیۃ کا راجیودھون کے ساتھ ظالمانہ سلوک

 

تجزیہ خبر: شکیل رشید

یہ ’غلط فہمی‘ نہیں ’شرپسندی‘ ہے ’سازش‘ ہے۔

ایڈوکیٹ راجیو دھون کسی ’معمولی‘ شخصیت کا نام نہیں ہےکہ کوئی ان کا کان پکڑ کر انہیں کسی مقدمے سے ’برطرف‘ کردے! جیسا کہ کوشش کی گئی ہے۔ یہ نام بابری مسجد کے لیے مقدمہ لڑنے والے ایک ایسے وکیل کا ہے جسے اس کی اپنی قوم نے ، فرقہ پرستوں اور سنگھیوں نے گالیاں دیں، دھمکایا، اوپر غلاظت پھینکی اور ہر طرح سے یہ کوششیں کیں کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے سے مسلم فریقین کے وکیل کی حیثیت سے علاحدہ ہوجائیں، لیکن راجیو دھون ڈٹے رہے اور بابری مسجد کا مقدمہ لڑتے رہےتا کہ مسلمانو ںکو انصاف دلا سکیں۔ یہ اور بات ہے کہ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے مقدمے کا ’فیصلہ‘ تو کیا پر ’انصاف‘ نہیں کیا، لیکن اس سارے مقدمے میں راجیو دھون ایک صاف ذہن کے اور ’انصاف‘ کےلیے ہر ایک سے ٹکراجانے والے وکیل کی حیثیت سے ابھرکرسامنے آئے۔ انہو ںنے بابری مسجد کا مقدمہ پورے خلوص اور ایمانداری سے لڑا اس کے لیے پوری قوم ان کی احسان مند ہے بلکہ شاید ہی مسلمان کبھی راجیو دھون کے اس قرض کو چکا سکیں۔

آج منگل کو جب یہ خبر دیکھی کہ جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے راجیو دھون کو بابری مسجد معاملے میں ریویو پٹیشن یعنی نظر ثانی کی درخواست سے جمعیۃ کے وکیل کے طو رپر ’برطرف‘ کردیا ہےتو دل پر ایک گھونسہ سا لگا۔ کیا ایک ہندو وکیل کی قربانیوں اور انصاف کےلیے ہر ایک سے ٹکراجانے کا یہی ’انعام‘ ہے! خبر یوں تھی کہ مولانا سید ارشد مدنی نے ایڈوکیٹ راجیو دھون کو مقدمہ سے ’برطرف‘ کردیا ہے کیو ںکہ ان کے بقول وہ ’علیل‘ ہیں۔ اس پر جلد ہی راجیو دھون کا رد عمل بھی سامنے آگیا، انہو ںنے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ ’’مجھے مطلع کیاگیا ہے کہ مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ مجھے اس معاملے میں اس لیے ہٹایاگیا ہے کیوں کہ میں علیل ہوں، یہ بات پوری طرح سے بکواس ہے‘‘۔ راجیو دھون کو ’برطرفی‘ یا ’برخاستگی‘کی اطلاع جمعیۃ علما ہند کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے دی تھی، اس پر بھی راجیو دھون کاٹوئٹ ہے کہ’’ بابری مسجد مقدمہ میں جمعیۃ کے نمائندے وکیل اعجاز مقبول نے ایک خط بھیجا ہے اور میں اس معاملہ میں اپنی برخاستگی کو بغیرکسی قباحت کے قبول کرتا ہوں‘‘۔ یقینا راجیو دھون بڑے دل کے آدمی ہیں کہ انہو ںنے عوامی سطح پر کسی قباحت کا اظہار نہیں کیا مگر ان کے دل پر جو گزری ہوگی اس کا اندازہ خوب لگایاجاسکتا ہے۔ یقینا ایڈوکیٹ راجیو دھون نے جب بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو اس ’سچائی‘ سے ناواقف رہے ہوں گے کہ آج کے مسلمانوں میں ایسے مسلمان زیادہ ہیں جو ’محسن کشی‘ میں ثانی نہیں رکھتے۔

ایڈوکیٹ راجیو دھون کی ’برطرفی‘ کی خبر عام ہوئی تو جیسا کے ہونا تھا عام مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی، جمعیۃ کے ذمہ داران سے بلاشبہ عام لوگوں نے سوالات بھی کیے ہوں گے اسی لیے اب مولانا سید ارشد مدنی کی طرف سے ایک ’وضاحت‘ آئی ہے ، جسے میں ’آئیں بائیں شائیں‘ کہوں تو غلط نہ ہوگا۔ ’وضاحت‘ میں مولانا نے کہا ہے کہ ’’انہیں ہرگزہرگز کیس سے الگ نہیں کیاگیا ہے‘‘۔ مولانا نے ’غلط فہمی‘ کی بات کی ہے، پر ہم اسے ’غلط فہمی‘ نہیں جمعیۃ کی چند گندی مچھلیوں کی ’شرپسندی‘ اور ’سازش‘ سمجھتے ہیں۔ ایڈوکیٹ راجیو دھون کو ’برطرف‘ کرنے کی خبر دانستہ پھیلائی گئی ، اس طرح انہیں ’ذلیل ‘ کرنے کی کوشش کی گئی، اس طرح ان تک یہ ’پیغام‘ پہنچانے کی کوشش کی گئی کہ ’نہ تم گھر کے رہے نہ گھاٹ کے‘ ۔ یہ کون لوگ تھے؟ مولانا سید ارشد مدنی ان لوگوں کو خوب جانتے پہچانتے ہیں، پر خاموش رہتے ہیں! کیوں؟ اس سوال کا جواب مولانا سید ارشد مدنی کو دینا ہے کیوں کہ یہ جمعیۃ کے وقار کا بھی سوال ہے اور قوم کے وقار کا بھی۔ بابری مسجد کا مقدمہ قوم کا مقدمہ ہے جمعیۃ کی املاک کا مقدمہ نہیں ہے، اس کا خرچ قوم دیتی ہے ، مولانا سید ارشد مدنی کی جیب سے خرچ نہیں دیاجاتا۔ قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ایڈوکیٹ راجیو دھون کے ساتھ ’ظالمانہ سلوک‘ کیوں کیاگیا، اور جنہوں نے یہ سلوک کیا ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ ایک یہ سوال یہ بھی کہ کیا اس سارے ’معاملے‘ کے پس پشت آر ایس ایس ہے؟ یہ سوال اُٹھے گا کیوں کہ سنگھ یہ نہیں چاہتا کہ ری ویوپٹیشن کامیاب ہو، اور راجیو دھون کی غیر موجودگی اس پٹیشن کا دم نکالنے کےلیے کافی تھی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ جمعیۃ کے وکلاء کی آپسی ’خانہ جنگی‘ کہیں اس ری ویو پٹیشن کا بیڑا نہ غرق کردے؟ کیا روپئے، پیسے، اجرت وغیرہ کا معاملہ بھی راجیو دھون کے خلاف ’سازش‘ میں محوری کردار ادا کرتے رہے ہیں؟؟ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مولانا سید ارشد مدنی کو وضاحت کرنا پڑرہی ہے، اس سے پہلے بھی مہاراشٹر میں حکومت سازی کے معاملے میں جمعیۃ سے ایک خط جاری ہوا تھا کہ کانگریس شیوسینا کی حمایت نہ کرے، اسے مولانا نے ’فیک‘ قرار دیاتھا۔ اس سے پہلے بھی کئی معاملوں میں دئیے گئے ’بیانات‘ کو ’فیک ‘ قرار دیاتھا۔ حضرت مولانا یہ کب تک چلے گا۔۔۔؟اس سارے معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اب راجیو دھون جیسے ہندو وکلاء آئندہ مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کریں گے، یقیناً یہ ایک بہت بڑا نقصان ہوگا۔

Comments are closed.