Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

جماعت پانے کے لئے تیمم
سوال:- موجودہ حج کیمپ میں مردانی و زنانی حمام ، بیت الخلاء اوروضو کے نلوں کی تعداد بہت کم ہے ، ایسی صورت میں حضرات و خواتین تیمم کرکے شریک جماعت ہوسکتے ہیںیا نہیں ؟ کیونکہ وضو کرنے تک جماعت کے چھوٹ جانے کا قوی خدشہ رہتا ہے، بلکہ بہت سارے عازمین اور ان کے متعلقین کی جماعتیں چھوٹ بھی چکی ہیں ۔ (حافظہ سمیہ سلطانہ ، سعید آباد )
جواب:- محض جماعت کے چھوٹنے کے اندیشہ سے وضو کے بجائے تیمم پر اکتفا کرلینا درست نہیں ، حج کیمپ چونکہ مسجد نہیں ، بلکہ عارضی طور پر عازمین حج کی اقامت گاہ ہے، اس لئے یہاں ویسے بھی ایک سے زیادہ جماعتیں کی جاسکتی ہیں، دوسری جماعت کی کراہت مسجد میں ہے۔

اگر چار کی نیت کر کے دو رکعت نفل ادا کرے ؟
سوال:- {493} کسی شخص نے چار رکعت نفل کی نیت کی ، لیکن دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا ، ایسی صورت میں کیا اسے چار رکعت کی قضاء کرنی ہوگی ، یا دو رکعت کی ؟ ( محمد شمیم ، ممبئی )
جواب:- نفل کی ہر دو رکعت کی حیثیت مستقل نماز کی ہے ، اس لئے ایسی صورت میں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک یہ دو رکعت ہی کافی ہوجائے گی ، دو رکعت یا چار رکعت کی قضاء واجب نہیں ہوگی : و إن شرع في التطوع بنیۃ الأربع ثم قطع فان کان قبل القیام الی الثالثۃ یلزمہ شفع واحد عندہ و عندھما لا یلزم شییٔ (کبیری: ۳۷۶)

تنبیہ کی نیت سے طلاق دینا
سوال:-ایک شخص عبد الرشید اور اس کی بیوی نصرت سلطانہ میں تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا ، دوران جھگڑا عبد الرشید اپنی اہلیہ سے یہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا کہ ’’ میں نے تمہیں طلاق دے دی ‘‘ عبد الرشید کی نیت صرف تنبیہ کی تھی ، عبد الرشید کا یہ خیال ہے کہ طلاق پڑ گئی ، بیوی حاملہ ہے ، آیا عبد الرشید نصرت سلطانہ سے رجوع کر سکتا ہے ؟ شرعی احکامات کیا ہیں ؟ ( ناظم شرعی کونسل ، محمد علاء الدین انصاری ، ایڈو کیٹ )
جواب:- مذکورہ صورت میں عبد الرشید کی زوجہ نصرت سلطانہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی :یقع طلاق کل زوج إذا کان بالغا عاقلا سواء کان حرا أو عبدا ، طائعا أو مکرھا ‘‘ (الفتاوی الھندیۃ : ۱/۳۵۳ ) جب تک نصرت کو ولادت نہ ہو جائے عبد الرشید رجعت کر سکتا ہے ، رجعت کا طریقہ یہ ہے کہ دو آدمیوں کو گواہ بنا کر کہے کہ میں نے اپنی زوجہ نصرت سلطانہ کو لوٹا لیا ، اس کے بعد زوجہ کو اس کی اطلاع بھی کر دینا چاہئے ، یہ رجعت کا بہتر طریقہ ہے ، اس کے علاوہ زوجہ کے ساتھ کوئی بھی ایسا جنسی عمل کرگزرے جو شوہر بیوی ہی سے کر سکتا ہے تو رجعت ہوجائے گی ، نصرت سلطانہ کو ولادت ہوجانے کے بعد رجعت کافی نہ ہوگی ، بلکہ باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ پھر سے نکاح کرنا ہوگا ، —– آئندہ خوب احتیاط سے کام لے اور کسی شرعی مجبوری کے بغیر ہر گز طلاق نہ دے کہ طلاق دینا سخت گناہ اور معصیت ہے ، واللہ اعلم ۔

حکومت کچھ سود دے کچھ سود لے
سوال:- سرکاری ملازم اگر کوئی سوسائٹی قائم کرناچاہیںتو سرکار ہر رکن سے سوسائٹی کے قیام کے وقت کچھ اڈوانس رقم وصول کرتی ہے ، رکنیت کے ختم کرنے پر وہ رقم واپس کردیتی ہے ، لیکن اس کاسود ملتا ہے ،ضرورت پر ان اراکین کو حکومت قرض فراہم کر تی ہے اور ا س قرض پر فیصد کچھ سود بھی لیتی ہے ، دریافت کرنایہ ہے کہ ہماری رقم پر جوسود ملتا ہے اس کو حکومت قرض پر جوسود لیتی ہے اس کی جگہ دیاجاسکتا ہے یانہیں ؟ مفصل ومدلل بیان فرمائیں ۔ (ابو قمر ، حیدر آباد)
جواب:- حکومت جوسود دیتی ہے ، اس میں سے اتنی رقم حلال ہے ، جو حکو مت نے سود کے طور پر وصول کیا ہے ، یعنی سود کے طور پر وصول کی ہوئی رقم منہا کرنے کے بعدحکومت کی جانب سے ملنے والی جو زائد رقم بچ جائے وہی سود ہے۔ مثلا حکومت نے پانچ سو روپے سود کے نام سے دئے اور تین سوروپے بہ طور سود کے وصول کیے تو گو حکومت پورے پانچ سو کو سود کانام دیتی ہے ، لیکن شرعی اعتبار سے اس میں سے دوسو روپیے ہی سود کے ہیں ، باقی رقم کاشمار سود میں نہیں ہوگا۔

پھٹے ہوئے نوٹوں کا معاملہ
سوال:-ریزرو بینک آف انڈیا ایسی نوٹوں کو جو پھٹ گئی ہیں یا کسی وجہ سے بہت زیادہ مسخ ہوگئی ہیں کچھ شرطوں کے ساتھ قبول کرتی ہے اور اس کی قیمت اچھی رقم کے ذریعہ ادا کرتا ہے ، ایسی نوٹوں کو جمع کرنے کے لئے ایجنٹ حضرات جن کو ریزرو بینک نے اجازت دے رکھی ہے اور رجسٹرڈ ہیں ، مختلف جگہوں سے وہ پھٹے ہوئے نوٹوں کو جمع کرتے ہیں جس میں سفر کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے نیز چونکہ نوٹ پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے ان کو جوڑنے کے لئے آفس بنڈل معاوضہ دینا پڑتا ہے غرض ان تمام کاموں میں کافی خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے پھر اس رقم کو یہ لوگ اور لوگوں کو کمیشن پر فروخت کرتے ہیں اور خریدنے والے اس رقم کو بینک میں داخل کردیتے ہیں بینک کے افراد اس رقم کی جانچ کر کے پاس کرتے ہیں ، اور کچھ رقم ریجکٹ بھی ہوتی ہے اس طرح کوئی ۱۔۲ ماہ کے عرصہ میں اس رقم کا چیک جمع کرنے والے کے نام آتا ہے کیا یہ لین دین جائز ہے یہ نوٹ کم داموں میں خریدے جاتے ہیں بعد میں یہ رقم ایجنٹ حضرات ایسے حضرات کو جو پیسہ لگا سکتے ہوں ان کو فروخت کرتے ہیں ، مثلا ایجنٹ نے ایک رقم پھٹے ہوئے نوٹوں کی جو پانچ ہزار کی تھی چار ہزار روپیہ میں خریدی اور جوڑجاڑ کے ۴۵۰۰ روپیہ میں دوسرے کے ہاتھ فروخت کی اور پھر اس نے اس امید پر کہ بینک سے پانچ سو یا اس سے کچھ رقم ملے گی بینک میں جمع کر دیا اور دو ڈھائی مہینہ انتظار کے بعد کچھ رقم پاس ہوئی کچھ ریجکٹ اور ۴۹۰۰ روپیہ ملے تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟ ( عبد الرحمن کاظمی ، وجے نگر کالونی)
جواب:- اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے یہ اصول سمجھ لینا چاہئے کہ رقوم کا مسئلہ فقہی اعتبار سے بڑا نازک ہے ، رقوم (جو اس وقت ثمن ہی کا درجہ رکھتی ہیں ) میں اس طرح کا لین دین کہ ایک طرف زیادہ ہو دوسری طرف سے کم ہو حرام ہے کیونکہ یہ سود ہے مثلا زید کسی کو دوسو روپیہ دیدے اور اس کے بدلہ میں ۱۷۵؍ روپیہ لے تو یہ صریح اور کھلا ہوا سود ہوگا، ذہن میں یہ بات پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر ایک طرف سے بہتر رقم ہو اور دوسری طرف سے خستہ نوٹ ہو تو اس عمدگی کی وجہ سے اگر اس کے بدلے میں کچھ زیادہ لے لے تو جائز ہونا چاہئے ، مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے جن چیزوں میں سود پیدا ہوجاتا ہو اس میں وصف اور عمدگی اور خستگی کا اعتبار نہیں ہوتا: ولا یجوز بیع الجید بالردی مما فیہ الربوا الا مثلا بمثل لا ھدار التفاوت فی الوصف (ہدایہ: ۳؍۶۳)۔
(۱) البتہ جو صورت آپ نے دریافت کی ہے اس میں صرف نوٹوں کی خرید و فروخت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کے لئے مختلف لوگوں سے مل کر نوٹ حاصل کرنا ہوتا ہے جس کے لئے سفر وغیرہ کے خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے نیز روپیوں کے بنڈل بھی بنوانے پڑتے ہیں اور یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب آدمی اپنا ایک قابل لحاظ وقت صرف کرے اور اس میں بھی یہ احتمال ہوتا ہے کہ بعض نوٹ ریزرو بینک سے رد کر دیئے جائیں ، اس لئے ایسا ہوسکتا ہے کہ ۵۰۰۰؍ کے بدلے میں ۴۵۰۰؍ روپے والوں کو دئیے جائیں اور بقیہ ۵۰۰ روپے خود اس کی اخراجات اور تنخواہ تسلیم کرلی جائے اس لئے میرا خیال ہے کہ موجودہ صورت میں یہ شکل جائز ہوگی ۔
(۲) آپ نے یہ تحریر کیا کہ پھر ایجنٹ حضرات اس رقم کو اس آدمی کو فروخت کر دیتے ہیں جو پیسہ لگا سکتے ہوں یہ صورت جائز نظر نہیں آتی اس لئے کہ اس صورت میں صریح سود پایا جاتا ہے ، البتہ اگر دونوں اس طرح شرکت کرلیں کہ مشترکہ طور سے ایسے پھٹے نوٹ مہیا کریں پھر باہمی اعانت سے اس کو درست کریں اور بینک کے لئے قابل قبول بنائیں اور اس میں جو کچھ خرچ ہو وہ بھی مل کر پورا کریں اور بینک سے بھنانے کے بعد جو کچھ نفع آئے گا اسے آپس میں اجرت محنت کے طور پر تقسیم کر لیں تو یہ صورت درست ہوگی ( تاہم مناسب ہوگا کہ تحقیق کے لئے ملک کے دوسرے مشہور دارالافتاء سے بھی رجوع کر لیا جائے )

مجبوری میں حاصل شدہ سود سے واجب الاداء سود کی ادائیگی
سوال:- امپورٹ اور ایکسپورٹ کے دوران مارجن رقم بطور ڈپازٹ رکھنا پڑتا ہے ، جس پر بینک سود دیتی ہے اور جب ہم بینک سے قرضہ لیں تو ہم پر سود واجب الاداء ہوتا ہے ، کیا مذکورہ رقم کے سود کو واجب الاداء سود میں منتقل کرسکتے ہیں ؟ (سی ، عبد الملک ، وہیری روڈ ، چنئی)
جواب:- مال حرام سے خلاصی کے لئے دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ اسی قدر مال بغیر نیت ثواب کے غرباء پر صدقہ کردیا جائے ، دوسری صورت یہ ہے کہ اگر مال کا مالک معلوم ہوتو اس کو واپس لوٹا دیا جائے ؛ بلکہ اصل حکم یہی ہے ؛ لہٰذا جس بینک کے پاس مارجن رقم ڈپازٹ رکھی تھی ، اگر اسی کو سود ادا کرنا ہو ،اور سودی قرض بھی آپ نے مجبوری کے سبب حاصل کیا ہو تو اس کی گنجائش ہے ؛ کیوںکہ یہ مال حرام اس کے مالک کو واپس لوٹانے کی ایک صورت ہے ؛ البتہ اگر یہ دونوں الگ الگ بینک ہوں تو یہ صورت جائز نہیں ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.