Baseerat Online News Portal

ہندوستانی معیشت کو صحیح رخ پر لانے کے لئے جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت

فرینک اسلام
وزیر اعظم نریندر مودی کے واضح اکثریت سیدوبارہ انتخاب جیتنے کے محض چھ مہینہ بعدملک کا معاشی منظر نامہ کسی قدر تاریک نظر آرہا ہے۔ملکی معیشت کی موجودہ صورت حال بحیثیت مجموعی حالیہ پارلیمانی انتخابات میں کوئی ایشو نہیں تھا۔ لیکن انتخابات کے دوران بھی یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ رئیل اسٹیٹ، مینو فیکچرنگ، بینکنگ اور فائنانس کے شعبے مسائل سے دوچار ہیں۔ بہرحال مودی کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز میں بہت سارے لوگوں کو یہ امید تھی کہ تاریخ کے اس سب سے بڑے جمہوری تجربہ سے گذر کر مودی دوبارہ برسر اقتدار آچکے ہیں تووہ ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے ضرورکچھ جرات مندانہ اقدامات کریں گے۔ لیکن یہ ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کو 90 کی دہائی کے شروعاتی سالوں کے بعد سے اب تک کی سب سے زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پچھلے کئی مہینوں میں مسائل سے دوچار شعبوں میں کئی اہم صنعتوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں یہ بات سامنے آئی کہ ملک کی دوبڑی ٹیلی کام کمپنیاں بھارتی ائیرٹیل اور وڈا فون آئیڈیاکا مجموعی طور پر پچھلی سہ ماہی میں 10 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس سے ہندوستان کے پوریٹیلی کام سیکٹر پر جو کہ دنیا کا دوسرا بڑا ٹیلی کام سیکٹر ہے پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ معیشت کا تخمینہ لگانے والے تین ادارے اسٹیٹ بینک آف انڈیا، نومورا ہولڈنگس اور کیپٹل اکنامکس نے اس سال کی آخری سہ ماہی کے بارے میں اپنے تخمینہ کو کم کرکے پانچ فیصد کردیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر خزانہ نرملا سیتھا رمن کے ذریعہ کارپوریٹ ٹیکس کی کٹوتی کا اعلان جو کہ مستحکم معیشت کے لئے پچھلے کچھ سالوں میں حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا سب سے جرات مندانہ اقدام ہے کا اثر کچھ زیادہ نہیں ہوا۔ اس سے عوامی جوش میں کمی آئے گی جب کہ یہ معشیت کی موجودہ اورمستقبل کی بہتری کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ اب لوگوں کے جذبات میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔
مصنوعات کی کھپت سست روی کا شکار ہے اور دیہی علاقوں میں یہ شرح چالیس سال میں سب سے کم 8.8فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔ تیزی سے ترقی کرنے والی صارفین کی اشیاء￿ کے سیکٹر میں بھی شرح نمو پچھلی چار سہ ماہیوں سے ترقی سست رفتاری کا شکار ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ صارفین کی اپنی محنت کی کمائی کو خرچ کرنے میں روز بروز ہچکچاہٹ بڑھتی جارہی ہے۔ پچھلے ہفتہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے “India’s economy is perched in a precarious state currently.”کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ انہوں نے لکھا کہ "آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہاہے۔گھریلو استعمال کی چیزوں کی کھپت سست رفتاری کا شکار ہے۔ لوگ اپنا معیار زندگی برقراررکھنے کے لئے اپنی بچت میں سے خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ جی ڈی پی گروتھ کریمی لیئر کے لیے نفع بخش ہو رہی ہے۔”
اگر مندی کا دور اسی طرح جاری رہا تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ معیشت کے بحیثیت مجموعی سنبھلنے کا امکان کافی کم ہوجائے گا اور اصل جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ درج کی جائے گی۔ یا تو یہ ہوگا کہ ماضی کی طرح حالات مودی حکومت کوبڑی مداخلت کے لئے مجبور کریں۔سال 1991 میں بھاری معاشی مندی کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے بڑے سطح پر بازار میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ شاید آزاد ہندوستان کی تاریخ میں داخلی پالیسی کے حوالے سے حکومت کایہ سب سے بڑا فیصلہ تھا۔
اب وقت آگیا ہے کہ مودی حکومت ایک بڑا اور جرات مندانہ فیصلہ لے۔ وزیراعظم نے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ وہ جرات مندانہ اقدام کرسکتے ہیں اور کچھ بڑاکرنے کا سوچ سکتیہیں۔ سیاسی محاذ پر نوٹ بندی اور دفعہ 370 کو منسوخ کرکے سابقہ ریاست جموں کشمیر کے خصوصی اختیارات کو ختم کرنے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہے۔ لیکن معاشی محاذپر اس درجہ کی کوئی چیز نہیں ہوئی ہے۔ جی ایس ٹی کے نفاذ میں یہ دلیل دی گئی کہ یہ معیشت کیلئے انتہائی نافع ہوگا۔ لیکن اصلا جی ایس ٹی کا آئیڈیا پچھلی منموہن سنگھ کی حکومت میں تیار کیا گیا تھا۔
موجودہ بحران نے مودی حکومت کو معاشی اصلاح دوم (Economic Reforms 2.0.)متعارف کرنے کا ایک بہتر موقع دیا ہے۔(معاشی اصلاح اول دراصل منموہن سنگھ نیتقریبا تین دہائی قبل شروع کی تھی جس میں آزاد معیشت کی داغ بیل ڈالی گئی تھی) معاشی اصلاحات کا ایک پیکج ہندوستانی معیشت کو ایک نئی شکل اور ماڈل دے سکتا ہے اور اصلاحات کے اس پیکج میں ملک کے انفرااسٹرکچر کو ترقی دینا، گرین صنعتوں کو قائم کرنا اور ان کو فروغ دینا، مصنوعی انٹلیجنس کو بڑھاوا دینا، معیار تعلیم کو بہتر بنانا اور ملازمت کے بامعنی امکانات پیدا کرناسب شامل ہونا چاہیے۔
پچھلے 25سالوں میں ہندوستان کی جی ڈی پی میں تقریبا 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ ملک کی آبادی میں 40 فیصد سے زیادہ کا اضافہ درج کیا گیا ہے لیکن ملک کے انفراسٹرکچر میں اس تناسب سے ترقی نہیں ہوئی ہے۔ دیہی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی سے شہری علاقوں کی بے تحاشا اور غیر منصوبہ بند طریقہ سے توسیع ہوئی ہے اور اس سے شہری انفراسٹرکچر پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا ہے۔ جس کے نتیجہ میں قصبات اور شہروں کی انتظامیہ وہاں کی صاف صفائی اور لوگوںکو صاف پانی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
آلودگی بھی اپنے آپ میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کے مطابق سال 2018 میں پوری دنیا میں 10 سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں 9ہندوستان سے تھے۔اصلاحات کے پیکج کے تحت اس افسوس ناک صورت حال کا ختم کیا جانا ضروری ہے اور یہ نہ صرف ہندوستانی معیشت کی صحت کے لئے بلکہ سارے ہندوستانیوں کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
خلاصہ کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاشی لحاظ سیسخت ترین وقت کی پکار یہی ہے کہ جرات مندانہ فیصلے لئے جائیں۔ یہاں جن کاموں کا تذکرہ کیا جارہا ہے ان پر عمل کرکے مودی حکومت ہندوستانی معیشت کو صحیح رخ دے سکتی ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ 21 ویں صدی کی ہندوستانی معیشت کے لئے جو کہ سارے شہریوں کے لئے نفع بخش ہوگی کے لئیایک خاکہ بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔کیوں کہ اپنی بے مثال مقبولیت اور مخصوص میدانوں میں ثابت شدہ ٹریک ریکارڈ کے چلتے وزیر اعظم کے پاس وہ طاقت ہے کہ معاشی اصلاحات کے پیکج کو متعارف کراسکیں جس کی بدولت ہندوستان مستقبل قریب میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکیگااور کامیابی کا یہ سلسلہ اس صدی اور آنے والی صدیوں تک داراز رہے گا۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
[email protected])

Comments are closed.