آشیاں سب کے جلیں گے، ہوا کسی کی نہیں_!!

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]
7987972043
12/12/2019

اس دیس کی بنیاد اتنی بھی کمزور نہیں کہ ہلکی سی بارش اسے تہس نہس کردے، یہاں کی جمہوریت اتنی بھی بے تکی نہیں؛ کہ اک خاص سوچ اسے ختم کردے، یہاں کی انسانیت، بھائی چارگی اور تاریخی میل میلاپ کوئی حباب نہیں کہ پانی کا ہلکا بہاو اسے نیست کردے، یہاں کی آزادی، کھلی فضا اور اپنی پہچان ایک صدی یا دو صدی کی جد و جہد کی علامت نہیں جسے مٹایا جا سکے؛ بلکہ صدیوں کی انتھک کوشش اور محنت و مشقت کی دین ہے، چنانچہ اس وقت مسلمانوں کو ختم کرنے کی ہر کوشش کے سامنے خود انہیں کے افراد کھڑے ہیں، اتحاد و اتفاق کی اینٹ توڑنے والوں میں اس کے محافظ انہیں کے درمیان سے نکل آئے ہیں، وہ جس آگ کو سلگائے ہوئے تھے، انہیں اندازہ تھا کہ ضعیفوں کا آشیانہ پھونک دیں گے، قانون کی بالا دستی اور اکثریت کا رعب ڈال کر پورا نظام اتھل پتھل کردیں گے، اپنی مرضی کے مطابق ملک کی اقلیت کو ننگا ناچ نچائیں گے، ان سے شہریت چھین لیں گے، حقوق سے بری کردیں گے، ایوان بالا اور ایوان زیریں کو ہلا کر رکھ دیں گے، اور اپنی طاقت کے بدلے پورا ملک بدل دیں گے، مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ ہواؤں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اگر آگ لگی ہے، مکان جل اٹھا ہے تو ہر ایک سمت اس کے شعلے پھیلیں گے، ہر کسی کا پڑوس جلے گا، آگ بجھائے نہ بجھے گی، کل اگر کشمیر جل رہا تھا تو آج آسام، تریپورہ، میزورم جیسے اکثر علاقے آتش زدہ ہیں، بالخصوص گوہاٹی تو شعلوں پر ہے، کرفیو لگا دیا ہے، آمد ورفت بند ہے، سواریاں بند ہیں؛ لیکن پھر طوفان نے راہ پالی ہے، لوگ سڑکوں پر ہیں، عوام میں غصہ میں ہے، وہ بھڑکے ہوئے ہیں، اور ہر حد عبور کر جانے کے درپے ہیں۔
مسلمانوں نے بھی بہت حد تک بیداری دکھائی ہے، احتجاجات کر رہے ہیں، وہ شاید جان چکے ہیں؛کہ جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہوتی ہے، ایوان کچھ نہیں ہے، عدالتی نظام بھی بے سود ہے، فوجیں اور حفاظتی دستے بے کار ہیں، جو بھی ہے وہ یہی کہ لوگ سرفروش ہوجائیں،حکومت کی راہ میں سد سکندری کی طرح ڈٹ جائیں، سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل کو ماننے سے انکار کردیں، جو سورہے ہیں انہیں چھوڑ ئیے؛ لیکن جو جاگ رہے ہیں اور جو جاگ چکے ہیں وہ سب قابل مبارکباد ہیں، پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، کیرلا کے مدارس اور دیوبند کے جیالے بھی میدان میں ہیں، بزرگوں کو چھوڑ دینا چاہئے_ ویسے بھی جہاد میں انہیں برطرف کردیا جاتا ہے۔ ملک کی اعلی قیادتوں نے بھی ساتھ دیا ہے، خواہ لفظی ہو مگر سونیا گاندھی اور جسٹس کاٹجو کا بھی حمایتی بیان ہے، آئین کیلئے سیاہ دن قرار دیا گیا ہے، کالجز بند ہیں، طلبہ و طالبات سڑکوں پر ہیں، ریلیاں نکالی جارہی ہیں، انہوں نے امتحانات بھی قربان کردئے ہیں، صرف اس لئے کہ ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے، ایک خاص سوچ کو حاوی نہیں ہونے دیں گے، شوشل میڈیا میں ہنگامہ ہے، سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست ڈال دی گئی ہے، دفعہ ۱۴ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق کوئی بھی مذہب، نسل، علاقہ وغیرہ کی بنیاد پر تفریق نہیں کرسکتا، ہمیں عدالت عظمی سے بھی کوئی خاص امید نہیں؛ لیکن ہوا کا رخ کچھ اور ہی بتاتا ہے، اس نے بلا کسی تفریق کے ہر ایک کو قبضہ میں لے لیا ہے، شعلہ پھٹ چکا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ کشمیر سے فوجیں نکال کر نارتھ ایسٹ کے صوبوں میں دھونس دی گئی ہیں، خود وزیر اعظم تسلی بھرے ٹویٹ کر رہے ہیں، سرکار نے پٹھو میڈیا کو اس مشتعل بھیڑ کی کوریج دکھانے سے روک دیا ہے_ شاید انہیں بھی اندازہ ہوگیا ہے:آشیاں سب کے جلیں گے ہوا کسی نہیں_!!!

Comments are closed.