سوسال کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ نے شیخ الہند کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا

 

 

مفتی اسامہ ادریس ندوی

 

چیف ایڈیٹر : دی انقلاب ڈاٹ کام

www.theInquilaab.com

 

جامعہ ملّیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بانی حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندی ریشمی رومال تحریک کے روح رواں آزادی ہند کے متوالے تھے جن کو انگریز سرکار نے کالے پانی کی سزا سناکر مالٹا کے قید خانہ میں بند کر دیا تھا۔

 

حضرت شیخ الہند نے انگریزوں کو ملک سے باہر نکالنے اور اسلام پر جاں نثار نوجوانوں کی فوج تیار کرنے کے لئے دلّی میں نیشنل مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی جو جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔

 

اس موقع پر شیخ الہند نے ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ بروز جمعہ کے دن اپنے خطبہ صدارت میں کہا تھا

” میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت و نقاہت کی حالت میں (جس کا آپ خود مشاہدہ فرمارہے ہیں) آپ کی دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی ایک گم شدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔ بہت سے نیک بندے ہیں، جن کے چہروں پر نماز کا نور اور ذکر اللہ کی روشنی جھلک رہی ہے لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا اٹھو اوراس امت مرحومہ کو کفار کے نرغہ سے بچاؤ تو ان کے دلوں پر خوف و ہراس مسلط ہوجاتا ہے۔ خدا کا نہیں بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا، اور ان کے سامان حرب و ضرب کا۔

حالاں کہ ان کو تو سب سے زیادہ جاننا چاہیے تھا کہ خوف کھانے کے قابل اگر کوئی چیز ہے تو وہ خدا کا غضب اور اس کا قاہرانہ انتقام ہے۔“

شیخ الہند مولانا محمود حسن: ایک سیاسی مطالعہ، ابو سلمان شاہ جہاں پوری،(مرتب)ص:۰۹۱، فرید بک ڈپو نئی دہلی،

 

اب جس وقت ملت اسلامیہ ہند اپنے سب سے برے دور سے گزر رہی ہے مرکزی سرکار نے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے بنا لئے ہیں اور ان کو رفتہ رفتہ عملی جامہ پہنایا جارہا ہے تو ایسے نازک دور گلشن محمود حسن کے بلبل رسم شبّیر ی ادا کرنے کے لئے میدان میں نکل پڑے اور اپنے جد امجد کی یاد تازہ کردی۔

 

میں سمجھتا ہوں کہ ادارے اور تحریکیں اپنے بانین کے اخلاص پر زندہ رہتی ہیں حضرت شیخ الہند کے اثرات ایک صدی گزرنے کے بعد جامعہ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں،اور شیخ الہند کی متاع گم شدہ اس ملت کو ایک صدی کے بعد مل رہی ہے،طلباء اور طالبات جس جذبہ سے مقابلہ کر رہے ہیں اس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے،شاید واعظین قوم اور شیوخان حرم کو شرم آئے،اللہ کرے حکمت و مصلحت کی بے بنیاد بیڑیوں کو توڑ کر نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

Comments are closed.