جامعہ اور علی گڑھ کے طلبہ! تیری جرآت و عظمت کو سلام

 

 

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

شہری ترمیمی بل کے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) میں پاس ہوجانے کے بعد ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ مسلمان اس سیاہ بل کواس ملک میں اپنے وجود کو مٹانے کا عندیہ ہی نہیں بلکہ یقینی خطرہ محسوس کر رہے ہیں ۔اس سیاہ اور ظالمانہ بل نے مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے، ہر جگہ مایوسی اور افرا تفری کا ماحول ہے ۔ اس کالے قانون سے ملک کے سرحدی علاقوں کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔ اس بل سے نقصان صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ برادران وطن میں سے بہتوں کا نقصان ہے اس لئے وہ بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں خاص طور پر اتر بھارت تو اس کی مخالفت میں کھڑا ہوگیا ہے اور وہاں کے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں۔

دوستو! ملک جن مشکل اور غیر یقینی حالات سے گزر رہا ہے، وہ ہر شخص کے سامنے عیاں ہیں۔ جگہ جگہ سول نافرمانی اور مظاہرے ہورہے ہیں، ہلاکتیں بھی ہورہی ہیں اور گرفتاریاں بھی۔ قوانین بناکر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، لیکن افسوس کہ زیادہ تر مسلم قیادت اور ملی تنظیمیں منظر نامے سے غائب ہیں ۔ عصری تعلیم یافتہ اور دینی مدارس کے لوگوں کے درمیان خلیج اور فاصلہ بڑھتا جارہا ہے غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں ۔ دینی مدارس کے ذمہ داروں اور مذھبی قائدین کے خلاف سخت تحریریں آرہی ہیں علماء کو سخت ہدف تنقید و ملامت بنایا جارہا ہے ۔ غلطیاں دونوں طرف سے ہورہی ہیں ۔ لیکن افسوس کہ اس خلیج کو پاٹنے اور دوری کو کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے ۔ افسوس کہ مولویانہ بحث شروع ہے کہ مظاہرہ ہو یا نہ ہو یہ پروٹسٹ جائز ہے یا ناجائز؟ اس طرح کی بحثیں شوشل میڈیا پر جاری ہیں ۔

ایسے وقت میں علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دھلی کے طلبہ نے وہاں کے جیالوں نے ملک کے آئین کی حفاظت کا جو بیڑا اٹھایا ہے ،جو قربانیاں انہوں نے دی ہیں جن مشکلات اور دقتوں کو انہوں برداشت کیا ہے وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ اور مثال ہے انہوں سارے ملی قائدین کو آئنیہ دکھانا ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تعالی کسی سے بھی قوم و ملت اور انسانیت و مانوتا کی خدمت لے سکتا ہے اس کے لئے ٹوپی اور عمامہ جبہ اور دستار خانقاہ مدارس اور مکاتب اور کٹیا ضروری نہیں ہے ۔ ان طلبہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ آپ لوگ ہم سب لڑکے اور لڑکیوں کو ماڈرن تعلیم حاصل کرنے والے آزاد خیال اور لبرل مسلمان سمجھتے رہے لیکن دیکھو انسانیت کی خدمت اور حفاظت کا کام ملک و قوم کی اصلاح کا کام جمہوریت کی بقا کا کام اللہ تعالی ہم سے بھی لے سکتا ہے اور لے رہا ہے ۔ اس لئے صرف ظاہری لباس و پوشاک جبہ و دستار مدرسہ و خانقاہ اور جلسہ و تقریر میں مشغول لوگ ہی دین کے خادم اور قائد نہیں ہیں اللہ تعالی چاہیے گا تو کسی سے بھی دین کا کام لے سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو پرندوں اور چڑیوں سے بھی دشمنوں کو ہلاک اور برباد کرسکتا ہے اور کیا ہے ۔ کل ہی ایک پوسٹ اور تحریر نظر سے گزری کہ :

آج سے تین سال قبل جب ترکی میں اسلام دشمنوں کی طرف سے فوجی انقلاب لانے کی کوشش کی گئی تھی تو اس وقت ترکی قوم خصوصاً وہ نوجوان لڑے لڑکیاں جن کو بر صغیر کا مذہبی طبقہ بے دین آوارہ سمجھتا ہے، ان آزاد خیال نوجوانوں نے اس فوجی انقلاب کو ناکام بنا دیا

اس وقت مولانا رعایت اللہ فاروقی Riayatullah Farooqui نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا "اے ترک کی حسیناؤ” جس کا آخری حصہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں، اس حصہ کو ہندوستان کی موجودہ کشمکش #NRC #CAB کے تناظر میں پڑھیں، جہاں ایک طرف مدارس کے ذمہ دار خود کو مدارس کی چار دیواروں میں بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھ رہے ہیں اور جو ان میں ہمت بھی کر رہا ہے تو ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف یونیورسٹی کی لڑکیاں سڑکوں پر اتر کر پولس کی لاٹھیاں کھا کر ہندوستانی مسلمانوں کی حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں. واقعی یہ حسینائیں ہمارے عافیت و مصلحت پسند مذہبی طبقہ سے لاکھ گناہ بہتر ہیں.

 

"ترکی کی یہ شرابی اور جینز پہنی لڑکیاں مجھے بہت ہی عزیز ہیں؛ کیونکہ یہ سیکولرزم کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہیں اور جب یہ ایسا کرتی ہیں تو میرے دل سے ان کے لیے یہی آواز نکلتی ہے کہ اے ترک حسیناؤ ! کیا تم جانتی ہو ؟ جب تم ٹائٹ جینز پہنے استبول کی سڑکوں پر نکل کر سیکولرزم کے خلاف نعرے کی عبادت ادا کرتی ہو، تو میری رات کے پچھلے پہر کی نمازیں تم پر رشک کرتی ہیں !”( اس تحریر سے غلط مطلب نہ نکالا جائے کہ ہم بے پردگی اور جینس پینٹ کی تائید اور غیر شرعی عمل کی تائید کر رہے ہیں )

 

میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کی اس جمہوری مہم مشن اور احتجاج کا دل کھول کر تعریف کرتا ہوں ان کے حوصلہ اور جرآت کو سلام کرتا ہوں ۔ للہ یہ بازی آپ جیت گئے اور ہم ہار گئے ہم پیچھے رہ گئے اور آپ ہم سے سبقت لےگئے ،لیکن اس کو اللہ کی توفیق اور انعام سمجھئے اور اللہ کا شکر ادا کیجئے لیکن اس پر تکبر اور گھمنڈ مت کیجئے علماء پر طنز مت کیجئے ان کا مذاق مت اڑائے ان کو نیچا دیکھانے کی کوشش مت کیجئے وہ پیچھے نہیں تھے وہ تھک ہار کر بیٹھے نہیں تھے وہ تمہاری ہی فکر میں تھے کچھ لائحہ عمل طے کر رہے تھے اس لئے خدا را ! اپنے اور ان کے درمیان دوری اور فاصلہ مت بنائیے ۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ دامے درمے سخنے اور قدمے ہر اعتبار سے مدد کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ آخر میں ایک اور اپیل کریں گے جمہوری انداز میں احتجاج کیجئے پبلک کا کسی طرح نقصان نہ ہونے دیجئے سرکاری املاک ضائع نہ ہو کسی عام آدمی کو کوئ زحمت نہ ہو مذھبی نعرہ بازی نہ ہو اور کسی طرح یہ ظاہر نہ ہو کہ یہ احتجاج صرف مسلمانوں کا ہے بلکہ اس کو پوری قوم اور پورے ہندوستانی باشندے کا احتجاج ثابت کیجئے کیوں کہ ایک طاقت اور خاص طور سے یہاں کی دوغلی اور منافق میڈیا کی پوری کوشش ہے کہ اس کو ہندو مسلم معاملہ بنا دیا جائے ۔ اللہ تعالٰی سے دعا بھی کرتے روہئے ان سے تعلق مضبوط کیجئیے اللہ کی مدد ان شاء اللہ آکر رہے گی ۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

Comments are closed.