جب قاتل ہی الزام لگادے معصوموں پر

فضل المبین
خیروا ، ڈھاکہ
شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جہاں پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے وہیں دوسری طرف جامعہ کے طلبہ نے بھی احتجاج درج کرایا … لیکن ان کے پرامن مظاہرہ پر پولیس کی بری نظر لگ گئی … اور پھر دہلی پولیس نے اپنی درندگی کا بھی ثبوت پیش کیا … جہاں ایک طرف اپنی بہنوں کی ہمت و دلیری پر رشک آیا وہیں دوسری طرف خون سے لت پت معصوموں کی چیخوں پر آنکھیں بھیگ گئی ۔ گویا اس رات ہندوستان کے ہر امن پسند کے آنکھوں سے نیند اڑ گئی ۔
در اصل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کیا ، لیکن دہلی پولیس نے نہ صرف طلبا کے پرامن جلوس پر لاٹھی چارج کی بلکہ بلا اجازت لائبریری کے دروازے کو توڑ کر کے مستقبل کو تابناک بنانے کیلئے فکرمند زیر تعلیم بچوں کو نشانہ بنایا ۔ یہاں تک کہ پولیس نے اپنی بے شرمی کا ثبوت دیتے ہوئے واش روم میں بھی داخل ہوئی جو کہ ایک سچے محافظ نہیں بلکہ ایک درندے صفت انسان کے کردار تھے اور ان کے ظلم و بربریت کی یہیں انتہا نہیں ہوئی بلکہ ان رکشک کے بھیس میں تبدیل راکشکوں نے گرلز ہاسٹل کو بھی نشانہ بنایا ۔ جس کے مذمت کے لئے الفاظ ناکافی ہیں ۔
۔ آخر اتوار کو کیا ہوا ؟ جس کی وجہ سے پولیس کو یونیورسٹی میں داخل ہونا پڑا اور بچوں کو بے رحمی سے پیٹنا پڑا؟ شاید اس کے پیچھے کی وجہ ہم اور آپ میں سے کسی کو معلوم نہیں ہے یا پھر کہیں گے اتوار کے واقعے کے بارے میں دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔
ایک طرف پولیس اور ان کے لوگ خود اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مقامی شرپسندوں نے پولیس چوکیوں اور بسوں کو آگ لگا دی ۔ پھر وہی کیمپس کے اندر جاتا ہے جو پولیس لائبریری میں زیر تعلیم بچوں کو بغیر کسی اجازت کے مار پیٹ کرتا ہے۔ دہلی پولیس کی بسوں میں آتش گیروں کی نشاندہی کرنے کے بجائے جامعی طلباء کو بے رحمی سے نہیں بلکہ درندگی سے مارا اور ان کو اتنا پیٹا کہ ان معصوموں کو لہولہان کردیا ۔ یہ منظر ایسا بن جاتا ہے کہ طالب علموں کی چیخ و پکار پورے ہندوستان سے اپنی مدد کی گہار اور امن کی بھیک مانگنے لگتی ہے ۔ لیکن افسوس کہ : تقریباً 15 کلومیٹر کی دوری پر آرام فرما تخت نشینوں کے دل میں ذرہ برابر بھی جمبش نہیں ہوتی ۔
دہلی ملک کا دارالحکومت ہے اور یہ ملک کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے ، ہر جگہ ، ہر چوک ، چوراہے ، دکانیں ، مکانات پر جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ وہیں احتجاج کو دیکھتے ہوئے کثیر تعداد میں فورسز کی تعیناتی بھی تھی اور یہ ایسا وقت بھی ہے جب ہر ہاتھ میں ایک فون ہوتا ہے اور ہر فون میں کیمرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بسوں یا پولیس چوکیوں پر آگ لگاتے ہوئے یا پھر ہاتھوں میں پٹرول یا پھر تیل کی بوتلیں لے جاتے ہوئے لوگوں کی ایک بھی ویڈیو سامنے نہیں آئی . آخر ایسا کیوں ؟؟ اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ کیا یہ اتفاق ہے یا طلباء کے خلاف کوئی سازش کی جارہی ہے؟ چونکہ غصے میں طالب علموں کی پٹائی کی ویڈیو ان کے سامنے ہے ، زخمی حالت میں ان کی ویڈیو سامنے آرہی ہے ، طلبا کے نعرے لگاتے ہوئے ویڈیو ، پولیس نے آنسو گیس کے گولے فائر کیے اُسکے بھی ویڈیو سامنے ہے ، نقاب پوش افراد اور پھر پتھراؤ کے ویڈیو سامنے ہے لیکن وہ ویڈیو کیوں سامنے نہیں ہے جس کے جواب میں پولیس نے بچوں کو بے دردی سے مار ڈالا۔
ان ساری چیزوں کو دیکھ کر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس ان لوگوں کی شناخت کرنے میں کیوں ناکام ہوچکی ہے ؟؟ جنھوں نے طلباء کی تحریک کو پرتشدد کردیا تھا۔ جہاں بسیں نذر آتش کی گئیں وہاں کوئی بھی عام شہری نہیں جا سکتا تھا کیونکہ وہاں پر کثیر تعداد میں فورسز تعینات کیے گئے تھے ۔ جس کی وجہ سے ہر کوئی وہاں جانے پر خطرہ محسوس کر رہا تھا ۔
لیکن آج بھی دہلی پولیس سے یہی سوال ہے کہ : پھر آگ کس نے لگائی؟ دہلی کو کس نے جلایا؟ جامعہ کو کس نے جلایا؟ کب تک ہم پولیس اور حکومت کی ناکامی کے بارے میں بغیر کسی حقائق کے معصوم طلباء پر الزامات لگاتے رہیں گے۔
پچھلے تین دنوں سے ہم ( حکومت) جامعہ کے طلبا کے خلاف کھڑے ہیں جب کہ: انہیں ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ بغیر کسی حقیقت یا ثبوت کے ، ہم جامعہ کے طلبا کو پاکستان نواز اور غدار ہونے کی بات کہہ رہے ہیں ، جبکہ وہ اس ہندوستان کے آئین کا احترام کرتے ہوئے اس کے شہریوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
صرف دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کو بتائیں کہ اگر جامعہ کے طلباء نے آگ لگا دی ہے ، تشدد کا ارتکاب کیا ہے ، تو آپ ثبوت پیش کریں اور گرفتار کریں ۔ یا کوئی اور باہری شخص نے اس طرح کا کام کیا ہے ، پھر اسے پکڑیں اور اسے ملک کے سامنے پیش کر منظرعام پر لائیں ، قانونی کارروائی کرکے سزا دیں اور اگر آپ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہیں تو جامعہ کے طلبا کو بدنام کرنے کی سازش کو ختم کریں اور ملک کو بتائیں کہ تمام طلباء کو آپ کے مارا پیٹا گیا ہے وہ بے گناہ ہیں۔
لیکن اگر آپ ابھی بھی اسی جدوجہد میں ہیں ، جس کے سر پر یہ واقعہ پھولتا ہے ، تو آپ اور پورے ملک کو جھموریت کے قتل پر مبارکباد پیش کریں۔

Comments are closed.