راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا ،این آرسی کے بائیکاٹ کا متفقہ طور پر اعلان کیا جائے

احمد نور عینی
اس وقت پورا ملک N.RC اور C.A.A کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں جہاں حکومت سے اس ظالمانہ قانون کو واپس لینے اور عوام سے اس کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ زوروں پر ہے؛ وہیں دوسری طرف کچھ لوگ کاغذات صحیح کرالینے کا مشورہ دے رہے ہیں، ہمیں ان کی نیک نیتی اور خلوص پر کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن ہر وہ بات جو خلوص اور نیک نیتی پر مبنی ہو زمینی سطح پر وہ مسئلے کا حل بھی بن سکے ایسا ہونا کوئی ضروری نہیں۔نیز ان کا یہ مشورہ اپنے آپ میں غلط بھی نہیں ہے ، لیکن اس مشورہ کی وجہ سے کاغذات جمع کرنے کی جو ذہن سازی ہورہی ہے وہ یقینا نقصان دہ اور تباہ کن ہے۔ جہاں تک کاغذات کی درستگی کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کاغذات ہمیشہ صحیح رہنے چاہئیں، اور صحیح نہ ہوں تو صحیح کرالینے چاہئیں، کیوں کہ سرکاری وحکومتی کاموں میں بلکہ کبھی غیرسرکاری کاموں میں بھی کاغذات صحیح نہ ہونے کی بنا پر بہت سی مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے؛ اس لیے کاغذات ودستاویزات کی تصحیح سے کسی کو انکار نہیں ہے، لیکن کیا کاغذات کا درست کرالینا این آر سی مسئلے کا حل ہے؟ باالکل نہیں، کاغذات کو درست کرالینا این آر سی کے مسئلہ کا حل نہیں ہے،بل کہ مسئلے کا حل صرف بائیکاٹ کرنے میں ہے، کیوں کہ یہاں مسئلہ کاغذ کی خرابی کا نہیں ہے، بل کہ نیت کی خرابی کا ہے، اور
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
آئیے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کاغذ کی درستگی مسئلے کا حل کیوں نہیں ہے اور بائیکاٹ ہی مسئلے کا حل کیوں ہے :
1- این آر سی اس لیے لائی جارہی ہے تاکہ لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر بے گھر کیا جائے، ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں، ان کے اکاونٹس منجمد کیے جائیں،ان کو سارے حقوق سے محروم کردیا جائے، انھیں غلام بنایا جائے اور پھر ان کو ڈیٹینشن سنٹرس میں پھینک دیا جائے، چاہے جتنے بھی کاغذات صحیح کرا لیے جائیں ہندوتووادیوں نے جتنوں کا ٹارگٹ رکھا ہوگا اس کو تو وہ پورا کرکے رہیں گے۔ اگر ہم اپنے لاکھوں کروڑوں مسلم بھائیوں کو غلام دیکھ کر بھی آرام سے سونا چاہتے ہیں تو پھر کاغذات کے چکر میں پڑیں، ورنہ بائیکاٹ کا صاف اعلان کریں۔
2-کاغذات کی کاروائی جب شروع ہوگی تو ایک بڑا طبقہ کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے نعوذ باللہ مرتد ہوجائے گا، اور C.A.A کے ذریعہ شہریت حاصل کر لے گا، اگر ہم ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو ارتداد کی طرف جاتا دیکھنا چاہتے ہیں تو کاغذات صحیح کرانے کی بات کریں ورنہ بائیکاٹ کا پر زور اعلان کریں۔
3- حکومت کے اس اقدام کو اگر ہم نے قبول کرلیا اور کاغذات جمع کرنے کے لیے تیار ہوگئے تو ہندو راشٹر کی راہ ہموار ہوجائے گی،اور این آر سی میں جتنے مسلمان کاغذ صحیح ہونے سے شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے وہ سب دوسرے نمبر کے شہری بنادیے جائیں گے، اگر ہم دوسرے نمبر کے شہری بننے کے لیے تیار ہیں تو کاغذات بنانے کی بات کریں ورنہ صاف لفظوں میں این آر سی کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کریں۔
4- جو غیر مسلم ہوں گے ان کے پاس کاغذ نہیں بھی ہوگا تو C.A.A کے ذریعہ ان کو حکومت کاغذ بناکر دے گی اور شہریت بھی دے گی دوسری طرف جن مسلمانوں کے پاس کاغذ ہوگا مگر حکومت کی خواہش کے مطابق نہیں ہوگا تو ان کا کاغذ بھی رد ہوگا اور ان کو شہریت سے بھی محروم کردیا جائے گا. یہ معیار رویہ کیا یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ مسلمان اس ملک میں برابر درجہ کا شہری نہیں رہیں گے؟ اگر ہم برابر درجہ کا شہری بن کر رہنا نہیں چاہتے تو کاغذ بنوانے کی بات کریں ورنہ مکمل بائیکاٹ کا اعلان کریں۔
5- غیر مسلموں کے پاس کاغذ نہ ہو تو بھی وہ ملک کے شہری ہوں گے اور مسلمانوں کے پاس کاغذ ہو تو بھی ایک بڑی تعداد غیر ملکی اور گھسپیٹھیا قرار پائے گی۔ کیا یہ امت مسلمہ کے لیے ذلت ورسوائی کی بات نہیں ہے۔اگر ہم امت ختم رسل کو ذلت ورسوائی میں دیکھنا چاہتے ہیں تو کاغذات جمع کرانے کا ذہن بنائیں ورنہ بائیکاٹ کا اعلان کریں۔
6- کاغذات جمع کرنے کی کارروائی جب شروع ہوگی تو حکومت کی نظر ان بڑے اداروں پر بھی ہوگی جن کے پاس عمارتیں ہیں اور جن کے اکاونٹس میں کروڑوں کے پیسے ہیں۔ حکومت ان اداروں کے ذمہ داروں کو – خدا نہ کرے- گھسپیٹھیا قرار دے کر ان کے اداروں کی عمارتوں کو ڈیٹینشن سنٹر میں تبدیل کرے گی اور ان کے بینک اکاونٹس منجمد کرکے اپنا پیٹ بھرے گی اور کار پوریٹ کے منہ میں ڈالے گی۔یوں سنگھی حکومت کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی، اگر ہم ان سب کے لیے تیار ہیں تو کاغذی کاروائی کے لیے تیاری کریں ورنہ بائیکاٹ کا اعلان کریں۔
7- اس وقت احتجاج کی لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ایسے وقت میں لوگوں کا ذہن کاغذ صحیح کرانے کی طرف لے جانا احتجاج کی اس تحریک کو سرد کردے گا. اور پھر آئندہ حکومت کو گھیرنے کا ماحول بنانا بہت مشکل ہوگا، اگر ہم احتجاج کی اس سرگرم تحریک کو سرد کرنا چاہتے ہیں تو کاغذات صحیح کرانے کی بات کریں ورنہ صاف بائیکاٹ کا اعلان کریں۔
8- یہ ایکٹ بہ ظاہر مسلمانوں کے خلاف ہے، لیکن حقیقت میں یہ ہمارے دستور اور سیکولر ڈھانچے کے خلاف ہے، اس ایکٹ کی مخالفت کرنا اور این آر سی کا بائیکاٹ کرنا در اصل دستور کی حفاظت کرنا اور سیکولر ڈھانچے کو منہدم ہونے سے بچانا ہے، اگر ہمیں صرف اپنی اور اپنے گھر والوں کی پڑی ہے تو کاغذات جمع کر کے شہریت حاصل کریں اور خوشیاں منائیں، اور اگر ہم اس ملک کے سیکولر ڈھانچے کو بچانا چاہتے ہیں اور ملک کے دستور کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو پھر لوگوں کو کاغذات میں الجھانے کے بجائے ہم پوری قوت سے بائیکاٹ کا اعلان کریں۔
9- کونسا کاغذ صحیح کرایا جائے؟ آدھار کارڈ جب شہریت کے لیے آدھار (بنیاد) نہیں بن سکتا تو کونسا کاغذ آدھا ر اور بنیاد بن سکتاہے، ماضی قریب اور حال میں ہم جن مایوس کن تجربوں سے گذرے ہیں اس کے بعد اب کسی کے بیان پر بھروسہ کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، جن کاغذات کو آج اہم بتایا جاریا ہے،کیا پتہ کل وہ اہم ہوگا یا نہیں یا وزارت داخلہ کی طرف سے کسی خاص کاغذکو بنیادی کاغذات میں داخل کر دیا جائے گا۔جب دستور مخالف قوانین بن سکتے ہیں تو این آر سی کے قانون میں کاغذ کی تبدیلی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔اگر ہم کو فرعونوں سے امیدیں ہیں تو ہم کاغذات کا ذہن بنائیں ورنہ پوری جرات سے بائیکاٹ کا اعلان کریں۔
10-حکومت معاشی سطح پر بری طرح ناکام ہوچکی ہے، وہ اپنے اس نقصان کی تلافی کے لیے یا کم از کم اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کو بکرا بنانا چاہتی ہے، جس کی وضاحت سابق چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے بھی کی ہے، اب اگر ہم بکرا بن کر این آر سی کے مذبح میں جانے کے لیے تیار ہیں تو کاغذات جمع کرنے کا ذہن بنائیں ورنہ بلا کسی لاگ لپیٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کریں۔
11-اس بات کا قوی امکان ہے کہ پورے ملک میں چل رہے مظاہروں کو دبانے کے لیے حکومت ایسے لوگوں کو استعمال کرے جوعوام کے درمیان آکر ان کو این آر سی فارم بھرنے کا طریقہ سمجھائیں ، اس کے لیے مطلوبہ دستاویزات کی تیاری پر آمادہ کریں ، این آر سی کے تعلق سے بیداری مہم پروگرام چلائیں، وہ مسلمانوں کو سمجھائیں کہ اگر دستاویزات صحیح ہیں تو اس ایکٹ سے اور این آر سی سے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنے اور کہنے والا ہر شخص حکومت کا ایجنٹ ہے؛ لیکن حکومت اپنے ایجنٹ کے ذریعہ یہ کام کراسکتی ہے۔ اس لیے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔جب قائد سمجھے جانے والے لوگ میدان میں آکر اس طرح کی بات کریں گے تو لوگ کاغذات کی درستگی اور این آر سی کی تیاری میں لگ جائیں گے اور یوں حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی ۔ یاد رکھیے ! جس دن ہم نے اپنے کاغذات جمع کرنے شروع کیے وہ سنگھی حکومت کی کامیابی کا پہلا دن ہوگا۔ ہم حکومت کے جال میں پھنس جائیں گے، پھر اس کے بعد نسل کشی، غلامی، رسوائی، حقوق سے محرومی آہستہ آہستہ اس قوم کی تقدیر کا حصہ بنے گی۔ اگر ہم حکومت کو اپنے گھٹیا اور خطرناک مقاصد میں کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں تو کاغذات جمع کرائیں ورنہ مکمل اور صد فی صد بائیکاٹ کریں۔
خلاصہ یہ کہ کاغذات صحیح کرانے سے کسی کو اختلاف نہیں ہے، این آر سی نہ بھی ہو تو بھی کاغذات صحیح کرانے چاہئیں، مگر کاغذات کو مسئلے کا حل سمجھنا اور کاغذات جمع کرانے کا ذہن بنانا ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے، این آر سی کا بائیکاٹ کرنے اور کاغذ جمع نہ کرانے کا ذہن بنایا جائے اور صرف خدا سے ڈرتے ہوئے پوری قوت سے بائیکاٹ کا اعلان کیا جائے، کاغذات صحیح کرانے کا اعلان کرنے والے محسن قائدین سے مودبانہ ودست بستہ گذارش ہے کہ پوری قوت وبے خوفی کے ساتھ بائیکاٹ کا اعلان کریں، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
این آر سی کا ایک ہی حل۔
بائیکا ٹ او ربائیکاٹ، بائیکاٹ اور بائیکاٹ اور صرف بائیکاٹ

Comments are closed.