احتجاجی مظاہرے کے ذریعے حکومت کے تختے بھی پلٹتے دیکھے ہیں 

مفتی غلام رسول قاسمی

(سب ایڈیٹر بصیرت آن لائن)

‏‎‎حق کے لئے کوشش انتہا تک ہونی چاہئیے، چھوٹی بڑی مشکلات لگی رہتی ہیں، نتیجے اللہ کی طرف سے آتے ہیں. اس وقت پورے ہندوستان میں احتجاج کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں؛ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے نظر آئے کہ احتجاج سے کچھ نہیں ہونے والا، طلاق ثلاثہ کے وقت بھی بڑی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں تھیں کیا ملا؟ حکومت کہاں دباؤ میں آئی؟ ان سے بس اتنا کہوں گا کہ اس وقت احتجاج ہی واحد راستہ ہے جس سے ہم اپنی ناراضگی کا اظہار کر سکتے ہیں. احتجاج کا ہی نتیجہ ہے کہ اب تک پنجاب، بنگال، کیرالا، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر جیسے بڑے بڑے صوبوں نے اعلان کر دیا کہ ہم اپنے یہاں شہریت ترمیمی قانون کو نافذ نہیں کریں گے. اگر اسی طرح احتجاج جاری رہا تو اور بھی صوبے اس صف میں شامل ہوجائیں گے، معترضین سے یہ بھی کہوں گا کہ اس وقت ہمیں قوم کو خوف زدہ کرنے کے بجائے عوامی سطح پر حوصلہ دینے کی سخت ضرورت ہے، خوف اور ڈر پھیلانے والے تو بہت ہیں ہم تو کم از کم ایسا نہ کریں! یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قریہ قریہ گاؤں گاؤں ضلعی و علاقائی سطح پر اس کالے قانون سے عوام کو بیدار کریں؛ کیونکہ ایسے ناقابل قبول اور سیاہ قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنا ہمارا دستوری حق ہے، ہم چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ نہیں کرسکتے ہیں؛ لیکن جو ممکن ہے اسے ہمیں ضرور کرناچا ہئے! نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے. مسلمان و دیگر اقوام سے اپیل ہے کہ ہم اس سیاہ قانون کا کھلم کھلا بائیکاٹ کریں! اس کام کیلے کسی قائد و لیڈر کے حکم کا انتظارنہ کریں؛ بلکہ آسام و تریپورہ، میزورم کے عوام کی طرح بغیر کسی قائد کے حکم کے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے نکل کر احتجاجی مظاہرے کریں! تریپورہ وغیرہ میں تو اس سیاہ قانون کے خلاف اس قدر زبردست احتجاج ہو رہا ہے کہ وہاں کی حکومت دباؤ میں آگئی ہے، انٹر نیٹ سروس بند کر دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے ادھر کی تازہ ترین صورتحال ہم تک نہیں پہنچ رہی ہیں، وہیں آسام کی بھی یہی صورتحال ہے اب تک کئی لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں؛ لیکن حکومت کی جانب سے نیٹ سروس بند ہونے کی وجہ سے تازہ خبریں تاخیر سے موصول ہو رہی ہیں، وہیں دوسری طرف جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اے ایم یو و دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس بھی اس کالے قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہو گئے ہیں. اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اقوام متحدہ نے صاف کہہ دیا کہ ہندوستانی حکومت مذہبی آزادی کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں عالمی حقوق انسانی تنظیم نے کہا کہ یہ بک ہندوستان کے اندر مذہبی تفریق کرنے کے مترادف ہے. ان شاء الله یہ سیاہ قانون اس ناکام و متعصب حکومت کے خاتمہ کا ذریعہ ہوگا، پانچ روز قبل آسام کے تنسوکیا علاقے میں زبردست احتجاج کی وجہ سے آٹھ ٹرینیں کینسل اور آٹھ ٹرینوں کے راستے تبدیل کر دئیے گئے ہیں. یہ احتجاج ملک گیر احتجاج ثابت ہو رہا ہے. حکومت کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں، جس حکومت کے ذمہ داران کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی تھیں وہ ان آٹھ دنوں میں بارہ سے زائد الگ الگ میڈیا ہاؤس کے توسط سے کانفرنسوں کے ذریعہ صفائی اور تاویلیں پیش کر رہے ہیں، یہ ہمارے احتجاجوں کے کامیابی کی طرف گامزن ہونے کی علامت ہے، احتجاج و اسٹرائک کو ہلکا نا سمجھیں آپ کی اور ہماری آنکھوں نے احتجاجی مظاہرے کے ذریعے حکومتی تختے پلٹتے بھی دیکھا ہے، موجودہ عشرے کا "عرب انقلاب” اس بات کا شاہد ہے. اتنا طے ہے کہ اگر ملک این آر سی کے راستے پر چل نکلا تو ہمارا ملک اور ہم ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سے واپس آنا مشکل ہوگا؛ کیونکہ یہ پورا عمل نفرت کے جذبہ پر مبنی ہے، ہمیں بھروسہ ہے کہ ہم اس ملک کے لوگ ایسا نہیں ہونے دیں گے، ہمیں ایسے تخریبی فیصلے لینے والوں سے اس ملک کو بچانا ہوگا۔
احتجاج میں شریک ہونے والے احباب سے ایک دو درخواست ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اندر جن صوبوں کے چیف منسٹرز و عہدیداروں نے سیاہ بل کی حمایت کی ہے ان کے نام کے ساتھ آئندہ انتخابات میں سبق سکھانے والے جملوں کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے تختیاں (بینرز) بھی ساتھ رکھیں! اور اپنے ساتھ انصاف پسند غیر مسلم اور ہندو کے پچھڑے ذاتیوں(دلت وغیرہ) کو بھی ہمراہ لیں!نیز دوران احتجاج خالص مذہبی نعروں مثلاً نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اسلام زندہ آباد جیسے نعروں سے گریز کریں!
مفتی غلام رسول قاسمی
[email protected]

Comments are closed.