ہم لے کر رہیں گے آزادی

ساجد حسین سہرساوی

سویرے سے دھوپ چھاؤں کے جھگڑے میں چھاؤں کا پلڑا بھاری تھا ، نمیءِ شب کے کارن قریب کی چیزیں بھی بمشکل دکھائی دے رہی تھیں ، امسال اب تک کی سب سے زیادہ سردی اور پالے آج ہی دیکھنے کو ملے الغرض آج صبح سے ہی ہڈی تک کو ٹھٹرا دینے والا موسم تھا ، اس برف پوش سردی میں بھی ہر طرف کافی چہل پہل تھی ہر سمت لوگ مصروف نظر آرہے تھے گویا ” ابر جوشاں ” برسنے کو ایک دم تیار ہو اور اس یخ بستہ صبح میں گرم تھا تو صرف ” خون نوجواناں ” ہر ایک کی کیفیت قابل رحم تھی ، ہر کسی میں ترغیب و تحریص کا جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا اور تندئ باد خنک کی پروا کیے بغیر ہر کوئی منزل تک پہنچنے کے اسباب کی تیاری میں مصروف تھا.
سی۔اے۔بی بل زبردستی تھوپے جانے کے بعد دیش کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، کالجز و یونیورسٹی اور دیگر ادارے سمیت ملک بھر کے چوک چوراہوں پر عام لوگ اور دانشوران قوم برسر احتجاج ہیں ، اسی سلسلے میں ایک کڑی __ ” آر۔جے۔ڈی ” کی طرف سے بہار بند کے اعلان کے بعد__ آج ہمارے وطن مالوف ” سمری بختیار پور ” میں جوڑنے کی ادنی سی کوشش کی گئی ، اور ایک بڑے پیمانے پر اس کالے اور دوغلے قانون کی مخالفت کی گئی ، برادران وطن کا بھی ہر گام ساتھ رہا ، تیس ہزار کے قریب لوگ رانی باغ ” مال ہاٹ ” سے سمری بختیار پور ” انومنڈل ” تک پیدل مارچ میں مہم آزما رہے ، بڑے ہی پرامن اور شانتی و زندہ دلی کے ساتھ یا قافلہ منزل کی اور رواں دواں رہا ، کچھ کانٹے رکاوٹ بننے سے پہلے دبا دئیے گئے اور کچھ کو بھیڑ کی امنگ اور جوش و جذبہ کے سامنے مرجھانا پڑا ، احتجاج ختم ہونے کے بعد اسٹیشن چوک پر تھوڑی سی جھڑپ دیکھنے کو ملی لیکن بروقت گرفت پالی گئی.
حکومتی پالتو طوطے کی جانب سے احتجاج کرنے والوں پر تشدد اور اس سبب سے زخمی و شہید کیے جانے کی خبریں آئے دن موصول ہورہی ہیں ، جس کی بڑی وجہ عوام کا ” نہتا ” اور "ظاہری دفاعی اسباب” سے خالی ، میدان میں اترنا ہے جس وجہ سے بھیڑ بےقابو ہوجاتی اور عوام منتشر ہو جاتے ہیں اور یوں ریلی مکدر اور در انداز و فسادی لوگ کامیاب ہوتے رہے ؛ لیکن اس ریلی کی خاصیت ہی ” ایک تیر دو شکار ” تھی یا یوں کہہ لیں کہ ایسے انتظامات کئے گئے کہ ” سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ” اور گر عقلمندی کا یوں مظاہرہ نہ کیا جاتا تو ممکن تھا ﴿ جس طرح اغیار تاک جھانک اور موقع کی تلاش میں تھے ﴾ بلکہ بالیقین آر۔ایس۔ایس اور بی-جے-پی کا ایجنڈا صد فیصد کامیاب ہوجاتا لیکن بھلا ہو عمدہ مشورہ دینے والوں کا کہ ان کی یہ حکمت عملی کافی کارآمد ثابت ہوئی.
اس ریلی کی ایک بڑی خاصیت یہ بھی تھی کہ اس کی باگ ڈور کسی قائد محترم کے ہاتھوں میں نہیں تھی ، آخر میں سمری بختیار پور ودھان سبھا چھیتر کے آر۔جے۔ڈی کے ضمنی نیتا جناب ” ظفر عالم ” صاحب چند منٹوں کےلیے تشریف لائے اور دیدار کروا کر میمورنڈم انومنڈل میں داخل کرکے چلتے بنے اور لوک سبھا کے نیتا ” چودھری محبوب علی قیصر ” صاحب ﴿ ریلی انہیں کی سرزمین سے نکلی اور ان کی حویلی سے متصل سڑک سے ہوتی ہوئی نکلی ﴾ اپنے محبوب ووٹرز کے حالات دریافت کرنے بھول سے بھی غلام گردش سے جھانکنے بھی نہیں آئے ، کچھ اور بھی مشہور شخصیات سیاسی روٹیاں سینکنے آئے ہوئے تھے ، اس احتجاج کا دورانیہ تقریبا ساڑھے چار گھنٹے رہا ، ہر طرح سے حکومت تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی گئی اور عہد لیا گیا کہ ہم آخری سانس تک آزادی کےلیے لڑتے رہیں گے ، ہندوستان کو استعماریت و سامراجیت سے چھڑا کر رہیں گے ، اپنا حق لے کر رہیں گے چاہے اس کیلیے ایک نہیں ہزاروں جانوں کی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑ جائے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ
ہمارا حق ہے آزادی
ہم لے کر رہیں گے آزادی
اررررررررے رے
تیرا باپ بھی دے گا آزادی.

Comments are closed.