کوالالمپور چوٹی کانفرنس سے اٹھنے والے سوالات وحقائق

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور نے کچھ دنوں پہلے اسلامی سربراہی اجلاس کی میزبانی کی ،جس عنوان تھا:”قومی خودمختاری کے حصول میں ترقی کا کردار“ ملائیشیا ، ترکی ، ایران اور قطر نے ہیڈ آف اسٹیٹ کی سطح پر اس میں حصہ لیا ، جبکہ 18 دیگر ممالک نے مختلف سطحوں پرشرکت کی ۔ جبکہ عالم اسلام کے گوشے گوشے سے متعدد ماہرین تعلیم، سائنس داں،مفکرین،علماءاور دانشوروں نے بھی شرکت کی۔
یہ کہا جانا چاہئے کہ اسلامی دنیا کے سرکردہ دانشوروں کی شرکت نے اس اجلاس کی اہمیت میں خصوصی اضافہ کیا، حالانکہ پاکستان اور انڈونیشیا سعودی حکومت کی دباﺅں کی وجہ اجلاس میں شرکت سے کنارہ کش ہوگئے ۔لیکن اس اجلاس میںعالمی اسلام کے مفکرین اور دانشور امت مسلمہ کے مسائل کے تئیں یکساں رائے کے حامل رہے۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے یہ سوال پوچھ کر ، سربراہی اجلاس کا بنیادی نظریہ تشکیل دیاکہ آج کی دنیا کے مسلمان ان تمام تر امکانات ، دولت ، اور ثقافتی اور جغرافیائی خصوصیات کے باوجود اس قدر کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں ؟بدقسمتی سے ، یہ سوال انیسویں صدی سے ہی عالم اسلام سے جواب کا متلاشی ہے جس کا اب تک کوئی یقینی جواب نہیں مل سکا ہے۔
اگرچہ اس پسماندگی کی متعدد وجوہات ہیں ، لیکن اس کی سب سے نمایاں وجہ اسلامی دنیا کی آزادی سے متعلق ہے ، جو پہلی جنگ عظیم کے بعد نوآبادیات کی مختلف اقسام کے سائے میںآچکا تھا ،تاہم جو لوگ آج عالم اسلام پر قبضہ کئے ہوئے ہیں وہ خود استعماری طاقتوں سے زیادہ امت مسلمہ کا استحصال کررہے ہیں،دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہونے کے باوجود مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ متحد نہیں ہیں وہ عالمی معیشت میں دسواں حصے کی نمائندگی کرتے ہیں ،جبکہسیاسی طاقت کے توازن کی حیثیت سے وہ اس طاقت کا صرف 50 1سے بھی کم حصہ رکھتے ہیں۔
جیسا کہ صدر اردگان نے اپنی تقریر میںاس امر کی طرف متوجہ کیا کہ سب سے زیادہ غریب اورامیر ترین مسلم ممالک کے درمیان آمدنی میں فرق 200 گناسے تجاوز کر گیاہے۔ اگرچہ تیل کے ذخائر کا 59% اور دنیا کے قدرتی گیس کے 58% ذخائر اسلامی ممالک میں ہیں .باوجود اس کے 350 ملین مسلمان انتہائی غربت کے حالات میں زندگی گزارنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔
اگرچہ مسلمان دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں ، لیکن انہوں نے عالمی صحت کے شعبے میں4 فیصد سے زیادہ رقم خرچ نہیں کرتے۔ ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں خواندگی کی شرح% 82.5 ہے ، اسلامی ممالک میں یہ شرح کم ہوکر 70 فیصد رہ جاتی ہے۔ آج کل دنیا میں رونما ہونے والے تنازعات میں مرنے والوں کی تعداد میں مسلمان 94 فیصد ہیں ، کیونکہ اسلامی ممالک عالمی سطح پر فروخت ہونے والے اسلحے کا ایک تہائی حصہ خریدتے ہیں ، اور وہ عام طور پر ان ہتھیاروں کو اپنے درمیان ہی جنگوں میں ہی استعمال کرتے ہیں۔
یہ سارے سوالات آج اسلامی دنیا کی پسماندگی کی صورتحال بیان کرتے ہیں یہ وہ تصویر ہے جس کے بنانے والے خود مسلمان ہےں نہ کہ غیر مسلم۔جس میں مسلمان حکومت اورسربراہان مملکت شامل ہےں۔سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور ایران عالم اسلام کی سب سے بڑی پریشانی یعنی مسلم پناہ گزینوں اور وطن چھوڑنے والوں کے مسائل کی وجہ ہیں۔
اور اگر آپ ان علاقوں پر نظر ڈالیںجہاں کے مسلمان بے گھر ہوچکے ہیں ،یا وہ وجوہات جوانہیں بے گھر ہونے پر مجبور کرتی ہیں ، تو آپ دیکھیں گے کہ یہ تینوں ممالک بنیادی طور پر اس میں شامل ہیں ، جیسا کہ ہم ان تینوں ممالک میں دیکھتے ہیںکہ یہاںمعمولی حقوقی انسانی کی پاسداری نہیںہوتی۔عالم اسلام کے اندر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سلسلے میں ایسے شخص کی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو عالم اسلام کی حدود سے باہر ان تمام معاملات کا ذمہ دار ہو-
ہمیں ہر سطح پر ان مسائل کے حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، لیکن سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم انہیں مسائل تسلیم کریں۔ اور جب ان مسائل کو قبول کرنے والے ممالک کے مابین بات چیت کا ماحول موجود ہو تو پھر اس ماحول کی ترجیح اس مسئلے کا خلوص نیت کے ساتھحل تلاشنا پڑے گا جو عالم اسلام کی بے بسی کی وجہ ہے۔
کوالالمپور سمٹ انہی مخلصانہ اقدامات کے طور پر شروع ہوا تھا ، اور جب ترکی نے ملیشیاءسے آنے والے اس اقدام کی دعوت کا خلوص دل سے جواب دیا تھا توکبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ کسی اور ملک کے خلاف ہوگا ، جبکہ یہ اقدام پانچ سال قبل شروع ہوا تھاتب بھی ترکی نے عالم اسلام میں اس اقدام کو اپنا متبادل تلاش کرنے کی کوشش پر غور نہیں کیا ، خاص طور سے جب وہ اسلامی تعاون تنظیم کا متواتر سربراہ تھا ، بلکہ اس نے اس سربراہی اجلاس میں حصہ لیا تھا۔
اخلاص کا تقاضا ہے کہ تواضع کا اظہار کیا جائے اور نیکی کی طرف دعوت سے کسی کے رتبے اور حیثیت میں کمی نہیں ہوتی۔جو لوگ اس اہم پیش رفت سے تکبر کی بنیاد پر کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں یقینا وہ ملت اسلامیہ کی تاریخ میں نقصان اٹھائےں گے۔سعودی عرب کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا ، لیکن اس دعوت کوقبول کرنے کی بجائے اس نے اپنے تمام سفارتی تعلقات اس اجلاس کو ناکام بنانے کے لئے صرف کیا۔
سعودی عرب نے پاکستان اور انڈونیشیا دونوں کو دھمکی دی ہے کہ وہ اجلاس میں شرکت نہ کریں تاکہ یہ اجلاس ناکام ہوجائے۔ آخر سعودی عرب کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟شاید اسے یہ محسوس ہوا کہ یہ اجلاس تنظیم برائے اسلامی تعاون کا متبادل تلاشنے کا ایک نیا اقدام ہے۔
Comments are closed.