جمعہ نامہ : اس طرزِ سیاست کی سیاست ہے نرالی، سسٹم کی برائی کبھی کھولا نہیں کرتے

 

ڈاکٹر سلیم خان

روشن خیال دانشوروں کے سامنے جب بھی اسلامی نظامِ سیاست کی بات آتی ہے تو ان کی تیوری چڑھ جاتی ہے اور فوراً ایک سوال نمودار ہوجاتا ہے۔ کون سا اسلام؟ شیعہ اسلام یا سنی اسلام ؟ دیوبندی اسلام یا بریلوی اسلام ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ استفسار نہیں بلکہ اعتراض ہوتا ہے۔ اس کے ذریعہ سے یہ کہنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نعوذ باللہ اسلام انتشار کا علمبردار ہے۔ اس کے ماننے والے آپس میں دست و گریبان ہیں ۔ اس لیے اسلامی نظام ناقابلِ عمل ہے۔ ان میں سے ایک بات درست اور باقی دونوں باتیں سراسر غلط ہیں ۔ اسلام کے ماننے والے آپس میں شیر و شکر نہیں ہیں یہ ایک حقیقت ہے لیکن اس کی دو وجوہات ہیں ۔ اول تو اسلام سے دوری اور دوسرے اسلامی اخوت و رواداری کا فقدان ۔ اس بیماری کا علاج دراصل اسلام کی مخلصانہ پیروی ہے کیونکہ حقیقت میں یہ دین حنیف اتحاد و اتفاق کا سر چشمہ ہے۔ اسلام کے پیرو کاروں کی کسی عملی کوتاہی کے سبب اس نظریہ یا عقیدے کو میدانِ عمل سے خارج کردینا عدم رواداری ہے۔

اسلامی نظامِ سیاست کو مسترد کرنے کے اس کا جو متبادل کیا جاتا ہے اس کے حوالے سے یہ سوال نہیں کیے جاتے ۔ اسلام پسند ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ ان کی تو ساری توانائی اپنی مدافعت میں صرف ہوجاتی ہے۔ اس دوران جو بھی جواب دیاجاتاہے اس پر ایک نیا اعتراض داغ دیا جاتا ہے اور اس طرح سارا کھیل اسلام کے پالے میں کھیلا جاتا ہے ۔ اس گیند کو مخالگ خیمے میں لے جانے کے لیے جواب دینے کے ساتھ ساتھ سوال کرنا بھی ضروری ہے تاک انگشت نمائی کرنے والے خود اپنے دامن میں بھی جھانک کردیکھیں ۔ عام طور پر اسلامی سیاسی نظام کو ملوکیت و آمریت کا ہم پلہ ّ ثابت کرنے کے بعد جمہوری نظام کو نہایت خوشنما بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ساری دنیا کا جمہوری نظام بالکل یکساں ہے؟ کیا اس میں فرق نہیں پایا جاتا ؟ کیا اس اختلاف کو انتشار قرار دے کر اسے ناقابلِ عمل ٹھہرا دیا جاتا ہے ؟ نیز کیا ساری دنیا کے جمہوریت نواز ایک دوسرے دوست اور ہمنوا ہیں؟ کیا ان کے اندر بغض و عناد نہیں پایا جاتا؟ اور پایا جاتا ہے تو کیا اس بنیاد پر جمہوری نظام سیاست کو مسترد کرنا درست ہے؟ ایک سال کے اندر اسرائیل کو تیسرے انتخاب نے شدید سیاسی بحران سے دوچار کردیا ہے۔

دنیا بھر کی جمہوریتوں پر ایک غائر نظر ڈالیں تو ان میں سے کچھ تو ملوکیت سرے سے انکار کردیتی ہیں لیکن کچھ علامتی طور پر اسے باقی رکھنے کی قائل ہیں۔ یہ کسی افریقی ملک کے نومولود جمہوریت کا معاملہ نہیں ہے ۔ برطانیہ میں ملکہ الزبیتھ کو ہنوز معزول نہیں کیا گیا جبکہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد شاہ ایران کو اقتدار سے بت دخل کرکے ملوکیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کام اسلام پسندوں نے کیا۔ برطانیہ کی ملکہ الزبیتھ کینیڈا کی جمہوریت میں بھی سب سے اونچے مقام پر فائز ہے۔جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں شاہی خاندان موجود ہے اور دنیا کی کئی جمہوریتوں میں اس کا اہتمام ہے لیکن اس تضاد کو بہ آسانی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی جمہوریت میں عوام صرف اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں مگر اصل حکمراں یعنی وزیراعظم کو نمائندے چنتے ہیں ۔ اس مرحلے میں عوام کا عمل دخل ناپید ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جہاں پر صدارتی انتخاب ہوتا ہے وہاں کے عوام براہِ راست اپنے سربراہ کومنتخب کرتے ہیں ۔یہ بڑا فرق ہے۔

جمہوریت کی اس ظاہری شکل و صورت کو وقت ضرورت تبدیل بھی کر دیا جاتا ہے جیسا کہ ترکی میں ہوا ۔ اس عمل کو جمہوریت کی خلاف ورزی قرار دینے کے باوجود قبول کرلیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ اس بناء پر سرے سے نظام سیاسی کو ہی مسترد کردیا جائے۔ حزب اختلاف کی موجودگی کوجمہوریت کی سب سے بڑی خوبی سمجھا جاتا جو اکثر مخالفت برائے مخالفت کرتا رہتا ہے لیکن کیا یہ انصاف ہے کہ اسلام کے معمولی سے اختلاف کو بھی بہت بڑی خامی بناکر پیش کیا جائے؟ جمہوریت ایک سے زائد جماعت سازی کا حق تسلیم کرتی ہے اور ان میں سے اکثریت کے حامل کو حکمرانی کا حق دیتی ہے۔ لیکن اس کی خامی یہ ہے ایسی صورتحال میں ووٹ کی تقسیم کے سبب اکثر حکومت کرنے والی جماعت اکثریت کے بجائے اقلیت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس خامی کو دور کرنے کے لیے متناسب نمائندگی یعنی افراد کے بجائے جماعتوں کا انتخاب لڑنا اور جس پارٹی کو جتنے ووٹ ملے ہوں اس تناسب میں اس کو نمائندگی دینے کی سعی کی جاتی ہے۔ جمہوریت کی یہ بہتر شکل اسرائیل میں رائج ہے لیکن اس کے سبب یکے بعددو انتخابات کے باوجود وہاں حکومت سازی نہیں ہوسکی اور اب ملک تیسرے کے دہانے پر کھڑاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہتر جمہوریت عدم استحکام کا سبب بن جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوری نظام بہتری کے بعد ابتر نتائج کیوں نکالتا ہے؟

Comments are closed.