راہ مشکل ہے بڑی پنگھٹ کی

مظاہر حسین عماد قاسمی

جھارکھنڈ میں نومبر – دسمبر 2019 میں ہوئے حالیہ اسمبلی الیکشن کے نتائج سیکولر پارٹیوں ،اور اقلیتوں کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں ،

تین دہائیوں کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی انچاس سے پچیس پر سمٹ گئی ہے ، تین دہائیوں سے بی جے پی اس علاقے کی سب سے بڑی پارٹی رہی ہے ، اس علاقے کی کل اکیاسی نشستوں میں سے اٹھارہ (18) تا سینتیس (37) سیٹیں اسے اسمبلی انتخابات میں ملتی رہی ہیں،اورنومبر دو ہزار میں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت وہ بتیس سیٹوں کے ساتھ جھارکھنڈ کی سب سے بڑی پارٹی تھی ،(فروری دوہزار میں ہونے والے بہار اسمبلی الیکشن میں کل تین سو چوبیس ارکان والی اسمبلی میں بی جے پی کو کل سڑسٹھ (67) سیٹیں ملی تھیں ،اور ان میں بتیس جھارکھنڈ میں آگئی تھیں ،)اور اس نے جنتادل یو اور سمتا پارٹی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی ،

اس علاقے کی دوسری سب سے بڑی پارٹی جھارکھنڈ مکتی مورچہ ہے اور اس کو بارہ تا انیس سیٹیں ملتی رہی ہیں ، جھارکھنڈ بننے کے وقت اس پارٹی کے پاس صرف بارہ سیٹیں تھیں

تیسرے نمبر کی پارٹی کانگریس ہے اور اس کو اس علاقے میں چھ تا چودہ سیٹیں ملتی رہی ہیں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت کانگریس کے پاس جھارکھنڈ میں کل گیارہ سیٹیں تھیں ،

چوتھے نمبر کی پارٹی راشٹریہ جنتادل ہے فروری دو ہزار کے بہار اسمبلی الیکشن میں آر جے ڈی کو کل ایکسو چوبیس سیٹیں ملی تھیں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت اس کے پاس جھارکھنڈ میں کل نو سیٹیں تھیں ، دوہزار پانچ(2005) میں سات ،اور دوہزار نو(2009) میں پانچ سیٹیں ملی تھیں ،دوہزار چودہ میں آر جے ڈی کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی ،

کانگریس اور آر جےڈی نے دوہزار پانچ تا دوہزار تیرہ چار بار جے ایم ایم کو وزارت علیا کی کرسی تک پہونچایا مگر ان تینوں کے ممبران اسمبلی مل کر بھی اکتالیس ممبران اسمبلی نہیں ہوتے تھے ،اور دیگر چھوٹی پارٹیاں ہمیشہ جے ایم ایم کو دھوکہ دے دیتی تھی ،

جے ایم ایم کے شیبوسورن نے تین بار وزارت علیا کا حلف اٹھایا ،وہ پہلی بار دس دن ،دوسری بار چار ماہ تیئیس دن اور تیسری بار پانچ ماہ دودن وزیر اعلی کے منصب پر براجمان رہے ،

جھارکھنڈ میں کسی ایک پارٹی کی اکثریت نہ ہونے کا فائدہ ایک آزاد ممبر مدھو کوڈے نے بھی اٹھایا اور وہ بھی جے ایم ایم،کانگریس،اور آر جے ڈی ، اور دیگر پارٹیوں کی مدد سے 14/ ستمبر 2006 تا 23/ اگست 2008 ایک سال گیارہ ماہ آٹھ دن جھارکھنڈ کا وزیر اعلی رہا ،

جنوری دوہزار نو تا دوہزار تیرہ تین بار وہاں صدر راج بھی نافذ ہوا، وہاں صدر راج کی کل مدت بیس ماہ ایک دن ہے ،

جون دوہزار تیرہ میں جے ایم ایم ،کانگریس ،اور آر جے ڈی نے مل کر حکومت بنائی اور شیبوسورن کے منجھلے بیٹے ہیمینت سورن کو وزیر اعلی بنایا ،جے ایم ایم کے پاس اٹھارہ،کانگریس کے پاس چودہ اور آر جے ڈی کے پاس پانچ سیٹیں تھیں یہ کل ملا کر سینتیس سیٹیں ہوئیں ، اکثریت کا اکتالیس کا انکڑا پورا کرنے کے لیے چار پانچ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے ممبران کی حمایت حاصل کی گئی تھی ، یہ حکومت دسمبر دوہزار تک چلتی رہی ،

جو حکمت عملی جے ایم ایم ،کانگریس اور ارجے ڈی نے دوہزار انیس کے اسمبلی الیکشن میں اپنائی ہے وہ دوہزار پانچ ،دوہزار نو اور دوہزار چودہ کے اسمبلی الیکشن میں اپنائی ہوتی تو جھارکھنڈ میں بی جے پی اتنی مضبوط نہیں ہوتی ،اور اسے مزید دس سال جھارکھنڈ میں حکومت کرنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی تقریبا دوسال وہاں صدر راج نافذرہتا,

دوہزار پانچ میں جے ایم ایم اور کانگریس نے متحد ہوکر اسمبلی الیکشن لڑا ، اور ان کو کل چھبیس سیٹیں حاصل ہوئیں ،سترہ جے ایم ایم کو اور نو(9) کانگریس کو، دوہزار نو(2009) میں کانگریس نے جھارکھنڈ وکاس مورچہ سے اتحاد کیا ،اور کل پچیس سیٹیں حاصل کیں ،چودہ کانگریس نے اور گیارہ جھار کھنڈ وکاس مورچہ نے ،

اس الیکشن میں جے ایم ایم کو اٹھارہ اور آر جے ڈی کو پانچ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ،

جے ایم ایم ،کانگریس اور ارجے ڈی نے بعض آزاد اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر دوہزار تیرہ میں حکومت بنائی ،مگر چودہ سال میں دو بار کے اسمبلی الیکشن کے تجربات کے باوجود الائنس بناکر الیکشن نہیں لڑا ،اور دوہزار چودہ میں بی جے پی اور زیادہ مضبوط ہوگئی ،اس کو جھارکھنڈ کی تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ سیٹیں ملیں، اسےکل سینتیس(37) سیٹیں ملیں, اسے دوہزار میں بتیس (32)، دوہزار پانچ میں تیس (30) ، اور دوہزار نو میں اٹھارہ، سیٹیں ملی تھیں ،
دوہزار نو کے مقابلے بی جے پی کو دوہزار چودہ میں انیس سیٹیں زیادہ ملیں ،بی جے پی دوہزار چودہ کا الیکشن ،جے ڈی یو، ا اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کے ساتھ مل کر لڑا تھا ،جے ڈی یو کو کوئی سیٹ نہیں ملی تھی ،مگر آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کو پانچ سیٹیں ملی تھیں ، اور بی جے پی نے آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ،ان دونوں پارٹیوں کے ارکان کی کل تعداد بیالیس تھی ، چند ماہ کے بعد دو ہزار پندرہ میں جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے کل آٹھ(8) ممبران اسمبلی میں سے چھ (6)کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کرلیا ، اور دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو توڑ توڑ کر بی جے پی نے دوہزار انیس تک اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد انچاس کرلی ،اب اس نے اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ،جس کے نتیجے میں جے ڈی یو ،ایل جے پی اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین نے الگ الگ انتخاب لڑا، جھارکھنڈ میں جے ڈی یو اور ایل جے پی کی تو زیادہ مقبولیت نہیں ہے ، مگر بی جے پی کو آل انڈیا جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کو نظر انداز کر نا مہنگا پڑا ،اور دونوں پارٹیوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو نقصان ہوا ،ال جھار کھنڈ اسٹوڈنٹ یونین پانچ(5) سے دو (2)پر اور بی جے پی انچاس(49) سے پچیس(25) پر سمٹ گئی،

واضح رہنمائی

دوہزار انیس کےجھارکھنڈ اسمبلی الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کے لیے بہت واضح رہنمائی ہے ،
دوہزار چودہ کے جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب میں جے ایم ایم کو تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ سیٹیں ملیں تھیں ،اس نے کل انیس سیٹیں حاصل کیں ، دوہزار نو کے مقابلے میں ایک سیٹ زیادہ تھی ، کانگریس کو صرف چھ سیٹیں حاصل ہوئیں تھیں اسے دوہزار نو میں چودہ سیٹیں ملی تھیں ، ،ارجے ڈی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ،اس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی ،وہ دوہزار سے دوہزار چودہ تک نو(9) سے زیرو پر آگئی ،

جھارکھنڈ بننے کے بعد ہوئے تین اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ان تینوں پارٹیوں کو اکٹھا ہونے پر اور کانگریس اور آر جے ڈی کو جے ایم ایم کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کر دیا

اگر یہ تینوں پارٹیاں اپنی روش پر آڑی رہتیں تو بی جے پی کی جیت یقینی تھی ، اس الیکشن میں بھی بی جے پی کو تینتیس فیصد سے زائد 33.37 ووٹ ملے ہیں ،اور یہ ووٹ اسے انہتر(79) سیٹوں پر ملے ہیں ،جب کہ جے ایم ایم اتحاد کو کل اکیاسی (81) سیٹوں پر پینتیس فیصد سے زائد 35.35 ووٹ ملے ہیں ،

جمشید پور ایسٹ سے وزیر اعلی رگھوبر داس اپنے ساتھی اور وزیر سرجو رائے سے ہارے ہیں، سرجو رائے گزشتہ پانچ سال سینیر کیبینیٹ وزیر رہے ہیں ،اس الیکشن میں انہیں بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ اپنی پرانی سیٹ چھوڑکر وزیر اعلی کے خلاف ہی کھڑے ہوگئے ،اور وزیر اعلی کو پندرہ ہزار آٹھ سو تینتیس ووٹوں سے ہراکر دکھادیا انہوں نے کل تہتر ہزار نو سو پینتالیس ووٹ حاصل کیے،

دوہزار انیس کے جھار کھنڈ اسمبلی کے نتائج سیکولر پارٹیوں کو چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وقت کے راون کو شکست دینے کے لیے متحد ہونا ہوگا،

دہلی ،بہار اور دیگر صوبوں میں بھی جھارکھنڈی نمونے پر عمل ہو،

رواں سال دوہزار بیس(2020) کے فروری میں دہلی اسمبلی اور نومبر ،دسمبر میں بہار اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں ،

دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کو متحد ہوکر الیکشن لڑنا چاہیے ، جس طرح جھارکھنڈ میں کانگریس نے جے ایم ایم کو اکیاسی (81) میں سے تینتالیس (43) سیٹیں دیں اور خود اکتیس (31) سیٹیں لیں ، اسی طرح دہلی میں عام آدمی پارٹی کو زیادہ سیٹیں دے، اور عام آدمی پارٹی کو کانگریس کی اہمیت سمجھنی ہوگی ، عام آدمی پارٹی کو اپنی حد سے بڑھی خود اعتمادی خود اسے بھی نقصان پہونچا سکتی ہے ،اور کانگریس کو بھی ،اور مجموعی طور پر ہندوستان کے سیکولر زم اور گنگا جمنی تہذیب کو،

دہلی کی سیاسی تاریخ

لوک سبھا

1952 کا انتخاب

کل سیٹیں : چار (4)
انڈین نیشنل کانگریس : تین (3)
کسان مزدور پرجا پارٹی: ایک (1)

1957 کا انتخاب
کل سیٹیں پانچ (5)
انڈین نیشنل کانگریس : پانچ(5)

1962 کا انتخاب
کل سیٹیں پانچ (5)
انڈین نیشنل کانگریس: پانچ (5)

1967کا انتخاب
کل سیٹیں : سات (7)
بھارتیہ جن سنگھ : چھ (6)
انڈین نیشنل کانگریس: ایک (1)

1971 کا انتخاب
کل سیٹیں : سات (7)
انڈین نیشنل کانگریس: سات (7)

1977 کا انتخاب
کل سیٹیں سات (7)
جنتاپارٹی : چھ (6)
بھارتیہ لوک دل : ایک (1)
1977 میں بھارتیہ جن سنگھ جنتاپارٹی میں ضم ہوگئی تھی ،پھر 1980 میں جن سندھیوں نے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی بنائی تھی ، جناب مرارجی ڈیسائی سابق وزیر اعظم ،(1977-9180 ، ڈھائی سال جنتا پارٹی کی حکومت میں ) جناب چرن سنگھ سابق وزیراعظم ( 1980 میں چھ ماہ جنتا پارٹی کی حکومت میں ) اور جناب جے پرکاش نارائن وغیرہ محترمہ اندرا گاندھی سے ناراض پرانے کانگریسی لیڈروں اور سوشلسٹ قائدین کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ انہوں نے اندراگاندھی اور کانگریس دشمنی میں فسطائ طاقتوں سے ہاتھ ملالیا اور انہیں 1967 سے پھولنے اور پھلنے کا موقع دیا اور 1977 میں انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ، فسطائیت لیڈران اٹل بہاری واجپئی اور ایل کے اڈوانی وغیرہ نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا،

1980 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
انڈین نیشنل کانگریس : سات (7)

1984 کا انتخاب

کل سیٹیں سات ( 7)
انڈین نیشنل کانگریس : سات (7)

1989 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : چار (4)
انڈین نیشنل کانگریس: دو (2)
جنتادل : ایک (1)

1991 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : پانچ (5)
انڈین نیشنل کانگریس: دو (2)

1996 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : پانچ (5)
انڈین نیشنل کانگریس: دو (2)

1998 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : چھ (6)
انڈین نیشنل کانگریس: ایک (1)

1999 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : سات(7)

2004 کا انتخاب
کل سیٹیں سات (7)

انڈین نیشنل کانگریس: چھ (6)
بھارتیہ جنتا پارٹی : ایک (1)

2009کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
انڈین نیشنل کانگریس: سات (7)

2014 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : سات(7)

2019 کا انتخاب
کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : سات(7)

انیس سو سڑسٹھ سے دہلی میں فسطائی طاقتوں کا بول بالا ہے ،انیس سڑسٹھ سے دوہزار انیس تک جن سنگھ اور بی جے پی ماں بیٹی کے کل اڑتالیس ممبران اور 1977میں کامیاب ہوئے جنتاپارٹی کے چھ اور بھارتیہ لوک دل کے ایک ممبر کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ پچپن ہوجاتے ہیں ,
انیس سو سڑسٹھ تا دوہزار انیس کانگریس کے کل ممبران کی صرف بیالیس ہے،
دوہزار چودہ اور دوہزار انیس میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے کانگریس سات میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی ہے ، عام آدمی پارٹی بھی دونوں انتخابات میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کرپائی ہے ،

دوہزارچودہ کے لوک سبھا کا ووٹ شیر
بی جے پی : 46.40٪
کانگریس۔ : 15.10٪
عام آدمی پارٹی : 32.90

دوہزار انیس کے لوک سبھا کا ووٹ شیر
بی جے پی : 56.58
کانگریس۔ : 22.36
عام آدمی پارٹی : 18.00

دوہزار چودہ کے مقابلے دوہزار انیس میںدوہزار انیس کے لوک سبھا الیکشن میں دہلی میں بی جے پی کو ساتوں لوک سبھا سیٹوں پر دوہزار چودہ کی بہ نسبت آٹھ تا گیارہ فیصد ووٹ بڑھے ہیں ، نہیں معلوم کہ یہ عوامی مقبولیت کا کمال ہے یا ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کا کرشمہ،

دوہزار چودہ کے مقابلے دوہزار انیس میں کانگریس کو دہلی میں تقریبا ساڑھے سات (7.36٪) فیصد ووٹ بڑھے، اس کو ہر سیٹ پر دو تا بارہ فیصد ووٹ بڑھے ،اس کو سب سے زیادہ چاندنی چوک میں تقریبا تیس فیصد (29.67٪) ووٹ اور سب سے کم ساؤتھ دہلی میں تقریبا ساڑھے تیرہ (13.56٪) ووٹ ملے ہیں ۔

عام آدمی پارٹی کی حالت سب سے خراب

دوہزارچودہ کے لوک سبھا انتخاب میں عام آدمی پارٹی تقریبا تینتیس (32.90٪) فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور کانگریس پندرہ(15.10٪) ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی، دوہزار نو کے مقابلے کانگریس کو پچیس فیصد ووٹ کا نقصان ہوا تھا، دوہزار پندرہ کے اسمبلی انتخابات میں کل ستر (70) اسمبلی سیٹوں میں سے سڑسٹھ سیٹوں پر زبردست کامیابی اور کیجریوال صاحب کے پانی اور بجلی کی قیمتوں میں بہت زیادہ رعایت دینے ، اسکولوں کو ماڈرن اور اسمارٹ بنانے اور اسپتالوں میں کافی سہولیات فراہم کرنے کے باوجود دوہزار انیس کے پارلیمانی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو دہلی سے ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہوسکی ،بلکہ ہر سیٹ پر سات تا اکیس فیصد ووٹ کم ہوئے ،

سات سیٹوں میں سے پانچ پر کا نگریس دوسرے نمبر اور دو سیٹوں پر عام آدمی پارٹی دوسرے نمبر رہی،

دہلی اسمبلی انتخابات

1952 کا انتخاب
کل سیٹیں : 48
انڈین نیشنل کانگریس : 39 ووٹ 52.09٪
بھارتیہ جن سنگھ۔ : 5 ووٹ 21.89٪
دیگر : 4
انیس سو باون کے بعد دہلی اسمبلی کا دوسرا انتخاب انیس سو ترانوے میں ہوا،

1993 کا انتخاب
کل سیٹیں :70
بی جے پی : 49 ووٹ 47.82٪
انڈین نیشنل کانگریس: 14۔ ووٹ 34.48٪
دیگر۔ : 7

1998کا انتخاب
کل سیٹیں :70
انڈین نیشنل کانگریس: 52 ووٹ 47.76٪
بی جے پی : 15 ووٹ 34.02٪
دیگر۔ : 3

2003کا انتخاب
کل سیٹیں :70
انڈین نیشنل کانگریس: 47 ووٹ 48.13٪
بی جے پی : 20 ووٹ 35.22٪
دیگر :3

2008کا انتخاب
کل سیٹیں :70

انڈین نیشنل کانگریس: 43 ووٹ 40.31٪
بی جے پی : 23 ووٹ 36.34٪
دیگر۔ : 4

2013 کا انتخاب
کل سیٹیں: 70
بی جے پی : 33 ووٹ 30.00٪
عام آدمی پارٹی : 28 ووٹ 29.50٪
انڈین نیشنل کانگریس : 8 ووٹ 24.59 ٪
دیگر : 1

2015 کا انتخاب
کل سیٹیں : 70
عام آدمی پارٹی : 67 ووٹ 54.30٪
بی جے پی : 3 ووٹ 32.30٪
انڈین نیشنل کانگریس : 0 ووٹ 9.70٪

محترمہ آنجہانی شیلا دکشت نے پندرہ سالوں میں دہلی کی بہت خدمت کی مگر 2013 کے مخصوص حالات کی وجہ سے وہ ہارگئیں، اور عام آدمی پارٹی کو حکومت کرنے کا موقعہ ملا،

*عام آدمی پارٹی اور کانگریس اتحاد وقت کی ضرورت*

دوہزارچودہ اور دوہزار انیس کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ اگر بی جے پی کا مقابلہ کرنا ہے توعام آدمی پارٹی اور کانگریس کو فروری دوہزار بیس (2020) کا اسمبلی انتخاب متحد ہوکر لڑنا ہوگا،

عام آدمی پارٹی کو دوہزار تیرہ کے اسمبلی انتخابات میں 29.30٪ ،دوہزار چودہ کے لوک سبھا انتخابات میں 32.90٪، دوہزارپندرہ کے اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ 54.30٪ اور دوہزارانیس کے لوک سبھا انتخابات میں صرف اٹھارہ فیصد ووٹ ملے ہیں ، چارسال میں ہی چھتیس فیصد سے زائد ووٹ کا کم ہوجانا بہت خطرناک ہے،
اگر اس خطرناکی کو عام آدمی پارٹی نے محسوس نہیں کیا تو یہ اس کے لیے بہت خطرناک ہوگا
دوہزار تیرہ تا دوہزار انیس کے درمیان ہوئے چارانتخاب (دو اسمبلی کے،اور دو پارلیمان کے) ووٹ فیصد کو دیکھتے ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو کل چھیالیس سیٹوں پر اور کانگریس کو کل چوبیس سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے چاہیے ، اگر دونوں میں اتحاد نہ ہوسکا تو بی جے پی کے امکانات زیادہ ہیں.

یکم جنوری دوہزار بیس (2020)

Comments are closed.