ہم شرمندہ ہیں ___ ہم شرمندہ ہیں ___!!!!

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]
7987972043

جس قوم کی خواتین نے پردے کا لحاظ کرتے ہوئے خود کو گھروں کی چہار دیواری میں سمیٹے رکھا، جنہوں نے عفت و پاکدامنی کا غایت درجہ خیال کیا، اسلامی زندگی اور اسلامی موت کی تمنائیں کرتی رہیں، اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو آئیڈیل مانتی ہوئیں دور حاضر کی فاشزم اور مغربیت کے دوران خود کو مسلمان بنائے رکھا، جن کے جسم کا ایک حصہ بھی نہ دیکھا گیا، جن کی آوازیں پردہ سماعت سے نہ ٹکرائیں، جو کبھی اگر گھر سے باہر نکلیں بھی، تو اپنے محرم کے ساتھ_ اپنے شوہر_ باپ اور بھائی کے سوا کوئی ان کے ساتھ نہ جاسکتا تھا، آج وہ میدان عمل میں ہیں، انہوں نے رزمگاہ سجا رکھی ہے، مورچہ سبنھال رکھا ہے، یہاں ان لبرل خواتین سے بحث نہیں، اگرچہ امت مسلمہ کی ہر خاتون بلکہ دنیا کی ہر دوشیزہ اور بنت حوا قابل تعظیم ہے؛ لیکن ان پردہ نشیں خواتین کی خوبیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اسلام پسندی کے ساتھ حق پسندی کا علم اٹھائے ان خدا ترس خواتین کو برتری دینی ہی ہوگی۔
اس دور پر فتن مین آج بھی معزز گھرانے کی خواتین اپنی شرافت میں ملبوس رہتی ہیں، وے نماز و روزہ کے ساتھ تعلق مع اللہ کی تمام راہوں میں سرگرداں نظر آتی ہیں_ لیکن آج وہ بھی مجبور ہیں کہ ظالم حکومت کا سامنا کریں، گھروں سے نکلیں، کیونکہ ان کے وجود پر خطرہ سایہ فگن ہوگیا ہے، CAA اور NRC کے ذریعے انہیں بھی بے یار و مددگار کردیا جائے گا، BBC نیوز نے گراونڈ رپورٹس پیش کی ہیں، جس میں شاہین باغ، دہلی میں احتجاج کرتی خواتین کی کیفیت پر بات کی گئی ہے، یا خدایا! دل دہل جاتا ہے، وہ کہتی ہیں کہ ہم نے کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا، ہم معزز گھرانے کی خواتین ہیں، ایسا نہیں کہ ہمیں کوئی گھریلو دقت ہے؛ لیکن آج مجبور ہیں کہ باہر نکلیں، وہ صبح نو یا دس بجے آجاتی ہیں اور رات دس بجے تک احتجاج کرتی ہیں، اکچر وے وہیں سو بھی جاتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اگر ہم نے آج اپنے وجود کا ثبوت نہ دیا تو ہم ڈیٹینشن کیمپوں میں ڈال دئے جائیں گے، وہاں ہماری عزت و احترام کا کیا ہوگا__؟ ہمارے شوہر اور ہمارے بچے کہیں ہوں گے اور ہم کہیں اور ہوں گے_ ایک نوے سالہ خاتون کہتی ہیں اور روتی جاتی ہیں؛ کہ ہم نے زندگی یہاں گزاردی ہے، اب کس بات کا ثبوت چاہئے_ کس بات پر ہمیں پریشان کیا جاتا ہے_؟
وہاں پر موجود ہر ایک خاتون کی کیفیت دیکھنے کے لائق ہے، ایک طرف وہ جذبہ ایمانی سے سرشار ہیں، تو دوسری طرف ملک کی محب ہیں اور اس کی سالمیت کیلئے فکر مند ہیں ، یہی نہیں جامعہ اسلامیہ کی طالبات اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹیز کی طالبات کے ساتھ ملکر ملک بھر میں حجاب کی پابند خواتین کے مظاہرے ان کے حوصلے اور ان کی تقاریر کو سن کر دل و دماغ میں شگاف پڑ جاتا ہے، آخر اب بھی اس امت کی مائیں زندہ دل ہیں، وہ موقع پڑنے پر قیادت بھی کرسکتی ہیں، زمانے کے سامنے نئے چیلینجیز کا مقابلہ بھی کرسکتی ہیں، انہوں نے اپنی گرفتاریاں بھی دی ہیں، اور جیلوں میں جا کر CAA ،NRC اور NPR کے خلاف نعرہ بازی کی ہے، محکمہ پولس بھی حیران ہے، نیز ایسی تصویریں گردش کر رہی ہیں جن میں مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگائے ہوئی ہیں، بلکہ بچے اور بچیاں بھی مارے جوش انقلاب کی بلند آوازیں اٹھا رہی ہیں، دسمبر کی سخت ترین سردی میں وہ گھر کی چھتوں اور بستروں کی راحت چھوڑ کر شامیانے میں گزر بسر کر رہی ہیں، تاکہ ان کے سر سے چھت نہ چھن جائے، آئندہ نسلیں محفوظ ہوجائیں، ملک کا آئین بچ جائے۔
اگر انہیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے، ان کی زندہ دلی اور ایمانی غیرت کے سامنے اپنی بے غیرتی کا احساس ہوتا ہے، تو وہیں خود کی بے دردی اور مردانگی کے ڈھکوسلے پر شرمندگی ہوتی ہے، وقت پڑنے پر خون کی بازی لگادینے کی باتیں کرتے ہیں، ملک و ملت کے غم خوار بنتے ہیں، مگر بہت سے انہیں زد و کوب کرنے سے بھی نہیں کتراتے، انہیں نیچا دکھانے اور دوسرے درجے کی مخلوق ثابت کرنے سے بھی نہیں چوکتے، ان کے ساتھ عصمت دری کے واقعات، چھیڑ چھاڑ اور تحقیر و تذلیل کی خبریں سنتے ہی رہتے ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہم سے کہیں آگے ہیں، آج ان کے سامنے خود کو بے حیثیت محسوس کیا جاسکتا ہے، ان کی بہادری اور شجاعت کے سامنے مردانگی کہیں نظر نہیں آتی، قوت بازو پر اترانے والے دعاوں اور خانقاہوں کی مجلسوں میں گم ہیں، مگر گوشہ نشین خواتین میدان عمل سر کر رہی ہیں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہی کی قیادت میں ملک کی ایک نئی راہ کھلی ہے، فاشزم کا چہرہ بےنقاب ہوا ہے، وہ گھروں سے کیا نکلیں اب سب کو نکالنے کا اور ان میں ایک نئی جان پھونک دینے کا جذبہ رکھتی ہیں_ اے مسلم خواتین_ تیری عزت و احترام کو سلام_ دین پسندی اور حق پرستی کو سلام_ ملک کی محبت اور قربانیوں کو سلام_ تو سلامت رہے_ آباد رہے___!!!

03/01/2020۶

Comments are closed.