کوئی لوٹادے میرے…….

پارتھو گھوش
(ریٹائرڈ پروفیسر جے این یو)
ترجمہ: نازش ہما قاسمی
پانچ جنوری کی شام جے این یو میں جو ہوا، وہ غیر متوقع تھا، ڈنڈے، اسٹیل راڈ اور پتھروں سے لیس اے بی وی پی اور اس سے منسلک غنڈے کیمپس میں داخل ہوئے اور فیکلٹی اراکین سمیت ہر کسی کو چن چن کر نشانہ بنایا جو ان کے فکر وخیال سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ ان کے نشانے پر تو سب سے زیادہ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدر آئشی گھوش تھیں ، ٹی وی پر ان کا خون سے لت پت چہرہ دیکھ کر کوئی بھی ہل اُٹھتا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت ناک تو یہ تھا کہ جے این یو گیٹ پر پولس کثیر تعداد میں موجود تھی؛ لیکن وہ خاموش تماشائی بنی رہی، شاید ان کے پاس بہانہ تھا کہ یونیورسٹی اہلکاروں نے اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ لاجواب… کیا معصوم دلیل ہے! کچھ دنوں قبل تو پولس جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بنا اجازت داخل ہوگئی تھی اور لائبریری میں بھاری توڑ پھوڑ کی اور وہاں کے طلبا سے مارپیٹ کی۔ اگر پولس کو شکوے کا فائدہ بھی دے دیں تو یونیورسٹی انتظامیہ کی حرکتیں تو کسی بھی طرح معافی کے قابل نہیں ہیں ۔ وہ تو واردات کے قریب دو ڈھائی گھنٹے بعد تھوڑی سی حرکت میں آئی۔ اس دوران غنڈے ہاسٹلوں میں گھوم گھوم کر پہلے معین افراد کو نشانہ بناتے رہے، جب ان کا مشن پورا ہوگیا ، تب دہلی پولس نے اعلان کیا کہ ماحول پرامن ہے، حالانکہ ایک بھی حملہ آور پکڑا نہیں گیا، شاباش! دہلی پولس تو واقعی اپنے شاندار پیشہ ور رویے کے لیے بہادری کے تمغے کی حقدار ہے۔
جے این یو کا قیام ۱۹۶۵ میں اہم تحقیقاتی یونیورسٹی کے طور پر ہوا تھا اور اس کا مقصد صرف بین الاقوامی طور پر تعلیمی مرکز بننا، بلکہ قومی تحریک کے احساس کو مضبوط کرنا ہے، جس کے مرکز میں سکولرزم اور سماجی انصاف ہو، میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جو ۱۹۷۱ میں اس اہم خواب کا حصہ بنے۔ میں نے بہار کے بھاگلپور سے آکر اسکول آف انٹرنیشنل اسٹیڈیز میں شروع ہوئے ایم فل پروگرام کے پہلے بیچ میں جوائن ہوا ۔ بعد کے برسوں میں نئے محکمے شامل ہوئے اور زیادہ طلبا نے داخلہ لیا۔ آخر کار جمہوریت میں طلبہ ۔اساتذہ کے بگڑتے تناسب کو لے کر تنقیدوں سے بچ پانا مشکل ہوتا ہے اس کے علاوہ جے این یو کی اس بات کے لیے اکثر تنقید ہوتی ہے کہ یوجی سی، سی ایس آئی آر، آئی سی ایم آر، آئی سی ایس ایس آر، آئی سی ایچ آر جیسی تنظیموں کی زیادہ تر فیلو شپ جے این یو طلبا اور فیکلٹی کو ہی ملتی ہے کیوں کہ یہ ممتاز تصور کی جاتی ہے اور ملک کی راجدھانی میں قائم ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اس کا دور دور کا ناطہ نہیں ہے۔
یقیناً جے این یو دہلی میں بھلے ہے لیکن اس کا ناطہ ملک بھر سے ہے، انڈین کائونسل آف سوشل سائنس ریسرچ میں میرے کئی برس کی مدت میں مَیں نے آئی سی ایس ایس آر سے گرانٹ حاصل کرنے والوں کا پس منظر جانچنے کی کوشش کی، جے این یو کے بارے میں نتیجہ چونکانے والا تھا، زیادہ تر لوگ کم ترقی یافتہ ریاستوں سے تھے ،جیسے ہندی زبان والی ریاستیں یااڈیشہ یا ایسے ہی کسی دیگر ریاستوں سے تھے جن میں شاید ہی کوئی دہلی یا کسی دیگر اہم شہروں سے تھا۔ حقیقت میں یہ کوئی غیر متوقع نہیں تھا، جے این یو فیکلٹی اور اسٹوڈنٹس یونین سماجی انصاف کے لیے مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے،ان ہی کوششوں کی وجہ سے جے این یو نے ایس سی؍ایس ٹی اور اوبی سی طلباء کےلیے حکومت کے درست وزن سے آگے جاکر پچھڑے علاقوں کے معاشی طور پر کمزور طبقوں کو بھی وزن دیا۔ اسے حال میں ہی شامل کیاگیا ہے ان وزن پوائنٹ کی گنتی کرنا مشکل کام ہے؛ لیکن انتظامی عملے کی مدد سے ان مشکلوں کو دور کرلیاگیا ہے۔ طلبہ۔ اساتذہ۔ ملازم تعاون جے این یو کی ایک خاص روایت ہے۔
یہ دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے کہ حالیہ برسوں میں تعاون کا جذبہ ختم ہوگیا ہے،یہ جان کر اور ناامیدی ہوتی ہے کہ برباد کرنے کا یہ کھیل مبینہ طور پر یونیورسٹی کےبرےنظریات سے نجات دلانے کےنام پر اعلیٰ سطح پر سیاسی احکامات سے کیے جارہے ہیں ، ان مبینہ برے نظریات کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ اربن نکسل، اور ملک مخالف کے طورپر متعارف کیاجاتا ہے۔
اگر میں آج طالبعلم ہوتا تومیں سوچتا کہ برسراقتدار کا سیاسی نظم حکم مجھے اس طرح کیسے بتا سکتا ہے کہ ستر کی دہائی کے اوائل میں جب ایس ایف آئی جے این یو میں اپنے بیج بو رہا تھا میں آزاد خیالوں کے گروہ میں اس کے سب سے کھلےنقادوں میں تھا۔
ایس ایف آئی والے ہمیں ’خیالوں سے آزاد‘ کہہ کر ہمارا مذاق اڑایا کرتے تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے خیالوں میں گہرائی نہیں ہے، لیکن اس مذاق کے علاوہ ہمارا نظریاتی اختلاف حقیقت میں دانشورانہ تھا۔ آزاد خیالوں میں اعتدال پسند، انتہائی لبرل اور ایس ایف آئی کے مایوس افراد شامل تھے۔ انتخابات میں خوب بحث اور گفتگو ہوتی تھی یہ دماغی طوفان بن جاتا تھا۔ آخر کار جے این یو کے طلبہ بے وقوف نہیں ہیں کہ وہ ایک دوسرے وعدے کے پھیر میں پڑ جائیں، اس لیے انہیں حکومت کے حامی غنڈوں سے دھمکایاجاسکتا ہے یہ سوچنا بڑی بھاری بھول ہوگی۔
ایک بار پھر: جے این یو میں میرے پہلے مہینے (اگست ۱۹۷۱) میں میں ایس ایف آئی کے پرکاش کرات ،ان کے سخت نقاد اور مستقبل کے آزاد خیال ایم متوسوامی کے درمیان تیکھی بحث کے دوران موجود تھا، دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست نظریاتی حملے کیے، اس کے باوجود بحث میں وقفےکے وقت متوسوامی نے پرکاش کو سگریٹ آفر کیا، دونوں نے کھل کر ہنس ہنس کر بات چیت کی، میری ہی طرح ہندی زبان بولنے والے لکھنو کا رادھا کرشنن شرما میرے کان میں پھس پھسایا، اس کی آواز میں جذبات کی روانی تھی ’’یہ یونیورسٹی تو بڑی ہٹ کے ہے یار،میں تو سوچ رہا تھا کہ اصلی مدا تو اب باہر آکر طے ہوگا ۔ چھری چاقو سے‘‘۔ اگر ہندوستان صرف ملک نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے تو جے این یو اس نظریے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ہمیں اسے سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔
Comments are closed.