میں تو قتل ہونے تک مسکرائے جاؤں گا !

وصیل خان ( ممبئی اردو نیوز )
ہمارے ملک کی جمہوری روایت اتنی مستحکم اوردل آویزہے جس کی دیگر ممالک میں مثالیں دی جاتی ہیں۔ اس کی شاندار گنگا جمنی تہذیب اور مثالی جمہوریت کے سبب اسے براعظم ایشیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔اس کی واضح ترین وجہ یہ ہے کہ یہاں صدیوں سے رہ رہے مختلف المذاہب افراد نے یکجہتی اور ہم آہنگی کا ایسا نمونہ پیش کیا جوکہ اپنی مثال آپ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اعلیٰ ترین منصب وزارت پر فائز افرادبھی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کے تئیں اس قدر حسا س ہوا کرتے تھے کہ اگر ان کے وزارتی شعبوں میں ذرا سی گڑبڑ ہوتی یا کوئی بڑا حادثہ رونما ہوجاتا تو وہ خودکو کو قصوروار سمجھتے ہوئےاپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے تھے ۔۸۰ء کی دہائی میں للت نرائن مصرا اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی کابینہ میں یلوے کے وزیرتھے ،مغل سرائے جنکشن پر ہوئے ایک بڑے حادثے کے بعد انہوں نے فوراً استعفی ٰدے دیا تھا ،اس ضمن میںمتعدد وزراء کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جنہوں نے مختلف موقعوں پر خود کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے شرافت ،نیک نفسی اور ملک و عوام کے تئیں اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئےاپنے عہدے سے دستبردارہوگئے۔بعد کے زمانے میں قدروں کے زوال کے بعدبھی ذمہ داری کی کچھ مثالیں مل جایا کرتی تھیں ۔یادکیجئے جب ہریانہ کے بنسی لال مرکز میںریلوے کے وزیرتھے حالانکہ وہ دور سماجی اور سیاسی سطح پر کافی رو بہ زوال ہوچکا تھا ،اس وقت کی سیاست پر سنجے گاندھی کا عمل دخل کافی بڑھ چکا تھا، انہوںنے اپنے کچھ مخصوص ساتھیوں کے ساتھ ایک گروپ بنالیا تھاجسے اس زمانے میں ’چنڈال چوکڑی‘ کے نام سے خوب شہرت ملی تھی ۔سنجے گاندھی کی خود سری اور غیر آئینی مداخلت اس قدر بڑھ چکی تھی جس کا انکشاف کرتے ہوئے اس وقت کےکابینی وزیرمحمد شفیع قریشی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھاکہ سنجے گاندھی نے صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد سے کسی معاملے میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’ بڑے میاں آپ کو اس عہدے پر رہنا ہے کہ نہیں، بنسی لال اسی چنڈال چوکڑی کے ایک اہم رکن تھے اس کے باوجود ان میں شرافت نفسی اور ملک کے تئیں خلو ص کی کچھ رمق کمزورہی سہی مگرباقی تھی۔ملک میں ہورہے مسلسل ریلوے حادثات پر انہوں نے استعفیٰ تو نہیں دیا لیکن اپنی بے مثال انتظامی صلاحیتوں کا ثبوت دیتے ہوئے فورا ً اعلیٰ ریلوے حکام کی میٹنگ طلب کی ،اور کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ریل کی یہ پٹریاں کس طرح بچھائی جاتی ہیں اور حادثات کو روکنے کیلئے آپ لوگ کیا اہتمام کرتے ہیں اور سگنلوں سے کیا کام لیا جاتا ہے لیکن آپ لوگ اتنا ضرور ذہن نشین کرلیں اب اس کے بعد کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داریاں آپ پر ہوں گی اور نہ صرف یہ کہ آپ کے عہدے چھین لئے جائیں گے بلکہ سخت ترین سزاؤں کے لئے بھی تیار رہیئے گا ۔جس کاخاطرخواہ نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی حد تک ان حادثات پر قابو پالیا گیا ۔
یہ تو تھیں ماضی کی باتیں لیکن اتنی بھی پرانی نہیں کہ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوجائیں ہمارے جیسے بہت سے لوگ ہوں گے جنہیں یہ سب کچھ یاد ہوگا لیکن آج حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں ،ہماری موجودہ حکومت جس کی قیادت وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ جیسے لوگ کررہے ہیں،ان کی سب سے اہم ذمہ داری تھی کہ وہ ملک کے استحکام اور سالمیت کے لئے کام کرتے ،اس کے برعکس انہوں نے ایسے کام سنبھال لئے جس کی سردست کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ،ملک کی معاشی اور اقتصادی صورتحال انتہائی ابتر ہوچکی ہے کمرتوڑ گرانی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے ،عوامی سطح پر چھوٹے موٹے کاروبار ختم ہوتے جارہے ہیں اور جو باقی ہیں ان کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے ،بڑے بڑ ے دفاتر سے ملازمین نکالے جارہے ہیں ،معاشی عدم استحکام کے سبب لوگوں کی جھنجھلاہٹ بڑھتی جارہی ہے اور ان کے درمیان جرائم پنپنے کی رفتار تیز ہوتی جارہی ہے ،اس کے لئے تدارکی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے ،سی اے اے جیسے قوانین منظور کرائے جارہے ہیں اور این آر سی اور این پی آرجیسے بل پیش کرنے کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں جو سراسر غیر آئینی ہی نہیں غیر انسانی بھی ہیں جو اس ملک کی روایتی اور مثالی گنگا جمنی تہذیب کےلئے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔آئین سے چھیڑ چھاڑ اور ملک میں ہندوراشٹر کے قیام کیلئے موجودہ حکومت کے بدترین عزائم کے خلاف کئی ماہ سے ملک بھر میں احتجاجات ہورہے ہیں ،جامعہ ملیہ اور جے این یو کے طلبا کا ایجی ٹیشن جاری ہے ،ان کی آواز اور مطالبات سننے کے بجائے ان پر لاٹھی چارج جیسا انتہائی ناپسندیدہ اور گھناؤنا کام پولس کے ذریعے کیا جارہا ہے ۔۹؍جنوری کو طلباءصدر جمہوریہ سے ملنا چاہتے تھے انہیں نہ صرف روکا گیا بلکہ بڑی بے دردی سے زدوکوب کیا گیا اور پھر انہی پر مقدمات بھی قائم کردیئے گئے ،دوسری طرف عدلیہ نے بھی یہ کہہ کر پلہ جھاڑلیا کہ پہلے تشدد ختم کرو پھر شنوائی ہوگی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تشدد کون کررہا ہے طلبا پرامن احتجاج کررہے ہیںان پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں ،عدالت کس سے کہہ رہی ہے کہ تشدد ختم کرویہ کام خودانتظامیہ کررہی ہے عدالت کو اس پر دباؤ ڈالنا چاہیئے ،آخر طلباء کو صدر سے کیوں نہیں ملنے دیاگیا مسٹرکووند رام کوئی موگمبو تونہیں ، اس ملک کے سب سے بڑےمکھیا اور آئین کی رو سے راشٹر پتا ہیں،طلبا فریاد ہی تو کرنا چاہتے تھے۔کیا انہیں اس کا حق نہیں تھا ۔دہلی کی اس کڑکڑاتی سردی میں شاہین باغ میں ایک ماہ سے زائد عرصہ سے احتجاج میں بیٹھی خواتین کو مسلسل نظر اندازکیا جارہا ہے جن کی تائیدکرتے ہوئےمظاہرے میں ارندھتی رائے جیسی دانشور رائٹراور دیگر بڑے لوگ شریک ہوچکے ہیں یہی نہیں ا ن خواتین کے اقدام کی تعریف و تائید پوری دنیا میں ہورہی ہے ،گذشتہ دنوں بی جے پی کی ممبر آف پارلیمنٹ میناکشی لیکھی نے انہیں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ عافیت اسی میں ہے کہ وہ خود ہی گھر چلی جائیں آخر اس کھلی دھمکی پر حکومت کی مسلسل خاموشی کا کیا مطلب ہے ،شوشل میڈیا اور ٹک ٹاک شو میں نفرت انگیز جملوں کی بوچھار کی جارہی ہے اور گندی گندی گالیاں دی جارہی ہیں جس میں سبھی شامل ہیں لیکن ہندو انتہا پسندوں پر رعونت اور شیطنت کا بھوت اس لئے سوار ہے کہ انہیں حکومت کی تائید حاصل ہے ۔یہ جو سب کچھ آج ہورہا ہے یہ ملک کی سالمیت اور ہندوستان کی قدیم گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کو ملیا میٹ کرنے والا ہے ،اس کے خلاف جو احتجاج جاری ہے اسے بہر حال رکنا نہیں چاہیئے اور جو لوگ اس احتجاج میں شامل ہورہے ہیں ہم ان کے جذبہ ٔ حق کو سلام کرتے ہیں۔آخر میں ہم پیرزادہ قاسم کی یہ نظم ان جیالوں کی نذر کرتے ہیںجنہوں نے باطل کے سامنے سینہ تان رکھا ہے ۔
قتل گاہ کی رونق حسب حال رکھنی ہے * غم بحال رکھنا ہے جاں سنبھال رکھنی ہے
زوربازوئے قاتل انتہا کا رکھنا ہے * نشہ تیز رکھنا ہے اور بلا کا رکھنا ہے
اور کیا مرے قاتل انتظام باقی ہے * کوئی بات ہونی ہے کوئی کام باقی ہے
وقت پر نظر رکھنا وقت ایک جادہ ہے ؍ ہاں بتا مرے قاتل تیرا کیا ارادہ ہے
میں تو قتل ہونے تک مسکرائے جاؤں گا ؍ مسکرائے جاؤں گا ۔
Comments are closed.