سردار پٹیل اور آر۔ایس۔ایس :سردار پٹیل کی ایک تقریر کا اقتباس

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل

اس وقت سردار پٹیل ہندتووادی حلقہ میں بڑے چہیتے رہنما (Blue-eyed Leader) ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اگر ملک کے وزیر اعظم ہوتے تو نہ تو بھارت کا بٹوارہ ہوتا اور نہ کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوتا۔ ان کے نزدیک ملک کی تقسیم اور مسئلہ کشمیر یہ سب پنڈت نہرو کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔ ذیل میں ہم 1949میں مدراس (چنئی) میں کی گئی سردار پٹیل کی ایک تقریر کا ترجمہ پیش کررہے ہیں جس میں انھوں نے ملک کے اتحاد، مسلمانوں کے بارے میں ان کی رائے، تقسیم ہند کے بارے میں ان کا نظریہ اور آر ایس ایس کے بارے میں ان کے خیالات کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا:
’’اتحاد کے لیے ہمیں ذات پات اور مذہب کے اختلافات کو بھول جانا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سب ہندوستانی ہیں اور ہم سب برابر ہیں۔ ایک آزاد ملک میں فرد اور فرد کے بیچ کوئی فرق و امتیاز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سبھی کو یکساں مواقع حاصل ہونے چاہئیں، یکساں اختیارات اور یکساں جوابدہی بھی ہونی چاہیے۔ عمل میں اس کو حاصل کرنا مشکل ہے، مگر ہمیں لگاتار اس کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
’’ہم لوگ حکومت میں رہتے ہوئے آر ایس ایس کی تحریک سے نبرد آزما ہورہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندو راج اور ہندو سنسکرتی کو بزور قوت نافذکردیں۔ کوئی حکومت اس کو برداشت نہیں کرسکتی ہے۔ اس دیش میں قریب قریب اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے کہ اُس حصہ میں جو اَب تقسیم ہوگیا ہے (یعنی پاکستان میں)۔ ہم ان کو دیش سے نکالنے نہیں جارہے ہیں۔ تقسیم کے باوجود اور جو بھی حالات ہوں، وہ بہت ہی برا دن ہوگا جس دن ہم اس طرح کا کھیل شروع کریں گے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ یہاں رہیں گے اور یہ ہماری جوابدہی اور ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں یہ احساس دلائیں کہ یہ ان کا ملک ہے۔ دوسری طرف یہ ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ملک کے شہری ہونے کے فرائض ادا کریں۔‘‘
’’ہم سب کو سمجھنا چاہیے کہ تقسیم کو ہم پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اور اب یہ ایک حقیقت ہے جو باقی رہے گی۔ میں ایمانداری سے یقین کرتا ہوں کہ یہ دونوں قوموں (ملکوں) کے لیے بہتر ہے تاکہ دائمی جھگڑے اور تصادم پر قابو پایا جاسکے۔ دو سو سالوں کی غلامی کے نتیجے میں برٹش حکومت نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود یہ اچھی بات ہے کہ ہم نے تقسیم کو قبول کرلیا ہے۔ مجھے تقسیم پر راضی ہونے میں کوئی بھی افسوس نہیں ہے۔ایک سال کی مشترکہ حکومت کے تجربہ سے جب ہم تقسیم سے اتفاق نہیں کرتے تھے، یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم لوگ بہت بڑی غلطی کرتے اور ہمیں بہت پچھتانا پڑتا اگر ہم تقسیم سے اتفاق نہیں کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں صرف دو ملک ہی نہیں بنتے بلکہ دیش کے کئی ٹکڑے ہوجاتے۔ اس لیے چاہے کچھ لوگ کچھ بھی کہیں، میں پوری طرح متفق ہوں اور رہوں گا کہ ہمارا تقسیم پر راضی ہوجانا ملک کے لیے بہتر ہے۔‘‘
’’ہمیں ایک طرف کمیونسٹوں سے معاملہ کرنا ہے دوسری طرف آر ایس ایس سے۔ ہم نے انہیں کھلی دعوت دی ہے کہ آپ اپنا منصوبہ بدلیں، خفیہ سرگرمیاں چھوڑدیں، فرقہ وارانہ تصادم سے باز آئیں، بھارت کے کنسٹی ٹیوشن کا احترام کریں، بھارت کے جھنڈے سے اپنی وفاداری ظاہر کریں اور ہمیں یقین دلائیں کہ ہم آپ کی بات پر اعتماد کریں۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ یہ کھیل اب نہیں چلے گا۔‘‘
’’ایک سال کی آزادی میں ہم نے بہت سے تجربات کیے ہیں اور بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ چاہے ہمارے دوست ہوں یا دشمن، چاہے ہمارے پیارے نوجوان ہوں، ہم انہیں آگ سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے،تا کہ اس گھر میں آگ نہ لگ جائے۔ یہ ایک مجرمانہ حرکت ہوگی اگر ہم انہیں تشدد اور تباہی کی اجازت دیں گے۔ ہمارے پڑوسیوں نے جو سبق سیکھا ہے ہم ا س تباہی کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔‘‘
سردار پٹیل کی یہ تقریر اس وقت کے حالات پر پوری طرح چسپاں ہوتی ہے اور جو قوتیں اس وقت ملک پر حکمراں ہیں ان کی ذہنیت اور عزائم کی عکاسی کرتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں پوری طرح ہوشیار رہنا ہوگا اور بڑی حکمت کے ساتھ آگے کی رَن نیتی بنانی ہوگی۔ کیونکہ یہ ہندوستان میں ہماری بقا کا سوال ہے۔
(یہ اقتباس عرفان حبیب کی ایڈٹ کردہ مجموعہ مضامین انڈین نیشنلزم سے ماخوذ ہے۔ شائع کردہ الیف بک کمیٹی،2017ء)
Website: abuzarkamaluddin.com
کالم نگار ’زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ کے مصنف ہیں۔

Comments are closed.