یوم جمہوریہ کا جشن اور دستور کی پامالی

ڈاکٹرمظفرحسین غزالی
ملک میں 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جانے والا ہے ۔ یعنی آئین کے نفاذ کا جشن، جس میں ہم سب شامل ہوں گے ۔ حسب سابق تمام ریاستوں میں آئین کی پاسداری اور اس میں یقین کا اظہار کیا جائے گا ۔ یکجہتی ، آئینی تقاضو ں کی تکمیل اورجمہوری قدروں کو استحکام بخشنے کا عہد دوہرایا جائے گا ۔ سچ ہے کہ آئین پر عمل پیرا ہو کر ہی تمام شہریوں کے خوابوں کی تعبیر ممکن ہے ۔ لیکن یوم جمہوریہ کی تقریبات رسمی پریڈ، جھاکیوں، جوانوں کے کرتب، راج پتھ پر فوجی طاقت کے مظاہرے، اسکولی بچوں کے ثقافتی پروگراموں، پدم انعامات کے لئے چنندہ ہستیوں کے ناموں کے اعلان، بہادری کے غیر معمولی کارناموں کیلئے فوجیوں اور بچوں کو اعزازات سے نوازے جانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں ۔
سال در سال منائے جا رہے یوم جمہوریہ میں اب وہ بنیادی احساس پیچھے چھوٹتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بھارت ریپبلک بن پایاتھا۔ یعنی آئین کے نفاذ کا مقصد کیا تھا، یہ بات عام لوگوں کے ذہن سے اوجھل ہوتی جا رہی ہے۔ اسی کی وجہ سے ملک میں ایک کے بعد ایک ایسے واقعات ہو رہے ہیں جن سے آئین کی روح مجروح ہوتی ہے ۔ یہ اس وقت ہے جب عوامی نمائندے اپنی رکنیت کی بحالی اور عہدے پر فائز ہونے سے پہلے حلف لیتے ہیں کہ ہم بھارت کے شہری اپنی جمہوریت میں مکمل یقین رکھتے ہیں، اپنے ملک کے آئینی تقاضوں کو پورا کریں گے۔ آزادانہ اور غیر متعصبانہ عمل کے ذریعہ ہر شہری کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنائیں گے۔ مذہب، ذات، جماعت اور زبان کسی طرح کے تحفظات سے پاک رہیں گے لیکن عملی صورت کیا ہے؟ ہمارے وزرا، عوامی نمائندے ایک طبقہ اور مذہب کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں ۔ کہیں مذہب کو تو کہیں ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ شہریت ترمیمی قانون لا کر پورے سماج کو مذہب کے نام پر بانٹنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کی مخالفت میں اٹھ رہی آوازوں کو جس طرح پولیس کے ذریعہ خاموش کرنے کی کوشش کی گئی وہ خود آئین کے خلاف ہے ۔
جمہوری نظام حکومت کو اپناتے ہوئے یہ امید کی گئی تھی کہ عوام اپنی حکومت خود منتخب کریں گے تو ان کی پریشانیاں ختم ہوں گی، لیکن عوامی بھلائی کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے وقت کبھی بھی جمہوری قدروں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ذات اور طبقات کی آبادی کو دھیان میں رکھ کر سیاسی جماعتیں اپنے منصوبہ بناتی ہیں۔ سیاست میں عوامی مدوں کی جگہ پولرائزیشن نے لے لی ہے ۔ پالیسی سازی میں بھی اس کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے۔ سیاست عوام کے مسائل کو خطاب کرنے کے بجائے اقتدار پر قابض ہونے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ راج تنتر ہی پرجا تنتر بن گیا ہے۔’ہم بھارت کے لوگ‘کی اجتماعیت ہی آئین اور جمہوریت کی روح ہے۔ اس لئے ہمارا آئین مذہب، زیان، ثقافت، تہزیب، علاقہ، صنف سے اوپر اٹھ کر ہر ایک شہری کے مفاد میں کام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہی اقتدار کی کنجی عوام کے ہاتھ میں دی گئی۔ اگر کوئی حکمران تانا شاہ بن جائے اور ان مقاصد کو پورا نہ کرے تو عوام اس کو بدل سکیں۔ لیکن اس بار پڑوسی ممالک کی مظلوم اقلیتوں کو شہریت دینے نام پر جو قانون لاگو کیا گیا ہے ۔ وہ نہ صرف آئین و جمہوریت کی روح کو مجروح کرنے والا ہے بلکہ سماج کے تانے بانے کو بھی درہم برہم کرنے والا ہے ۔ اسی لئے لوگ ہاتھوں میں ترنگا لے کر پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاج کر آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ آئین کے تحفظ کے لئے نقطۂ انجماد تک پہنچ جانے والے درجہ حرارت میں بھی خواتین 24 گھنٹہ دھرنے پر بیٹھی ہیں ۔ مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ عدلیہ سے امید کی جا رہی تھی کہ وہ اس تفریق پیدا کرنے والے قانون پر پابندی لگائے گی ۔ مگر سپریم کورٹ ن جواب دینے کے لئے حکومت کو چار ہفتے کا وقت دے کر اس پر پانی پھیر دیا ۔
مذہب، ذات، زبان، صنف یا علاقہ کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنا جمہوریت کے لئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ جبکہ جمہوریت میں عوام کے ذریعہ عوام کے لئے عوام کی حکومت ہوتی ہے ۔ جس میں سب کی نمائندگی ہوتی ہے اور وہ حکومت سب کے مفادات کا خیال رکھتی ہے ۔ لیکن بھارت جیسے تکسیری ملک نے حکومت سازی کے لئے انتخابات کا جو نظام اپنایا اس میں سب کے ساتھ انصاف ممکن نہیں ہے ۔ مولانا حسرت موہانی نے ملک کو اس طرف متوجہ کیا تھا لیکن ان کی باتوں کو ان سنا کر دیا گیا ۔ اسی کا نتیجہ آج ملک بھگت رہا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں انتخابات لسٹ سسٹم کے مطابق ہونے چاہئیں نہ کہ ایف پی ٹی پی نظام کے تحت ۔ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ ووٹنگ میتھڈ(ایف پی ٹی پی) میں جو امیدوار اپنے حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ کامیاب مانا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تیس فیصد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کا پارلیمنٹ کی 80فیصد سیٹوں پر قبضہ ہو جاتا ہے اور اس کی حکومت بن جاتی ہے ۔ ایسی حکومت کبھی بھی سو فیصد لوگوں کے حق میں کام نہیں کر سکتی ۔ اس نظام کو ووٹرز، حکومت اور جمہوریت کے لئے مضر مانا جاتا ہے ۔ کیوں کہ اس میں اقلیت، قبائل، پسماندہ اور کمزور طبقات کو نمائندگی نہیں مل پاتی ۔ جبکہ لسٹ سسٹم میں جس جماعت کو جتنے فیصد ووٹ ملتے ہیں پارلیمنٹ میں اس کی اتنے فیصد نشستیں ہوتی ہیں ۔ اس طرح ایوان میں عوام کو سو فیصد نمائندگی حاصل ہوتی ہے ۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ نظام رائج ہے ۔
لسٹ سسٹم کو اپنانے سے انتخابی بدعنوانی فرضی ووٹنگ، ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ، دھن، بل اور دارو مرغے سے ووٹ خریدنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس میں امیدوار الیکشن نہیں لڑتے بلکہ سیاسی جماعت چناؤ لڑتی ہے ۔ وہ اپنے نمائندوں کی لسٹ انتخابی کمیشن کو دے دیتی ہے ۔ ووٹ فیصد کے لحاظ سے لسٹ میں موجود افراد کو نمائندگی دے دی جاتی ہے ۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ سو فیصد لوگ انتخاب میں حصہ لیتے ہیں ۔ ابھی پچاس سے ساٹھ فیصد عوام ہی ووٹ ڈالتے ہیں ۔ پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ لائن میں لگ کر ووٹ ڈالنے میں وقت کیوں برباد کریں ۔ اس کا کیا فائدہ ہے، ہماری پسند کا کوئی شخص تو کامیاب ہونے سے رہا ۔ عوام کی بے اطمینانی کا اندازہ نوٹا پر پڑنے والے ووٹوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔ غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ ہی الیکشن میں حصہ لیتے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ ووٹ دینے سے ووٹر لسٹ میں ان کا نام رہے گا اور وہ ملک کے شہری بنے رہیں گے ۔ مگر نئے قانون کے بعد ووٹر لسٹ میں نام ہونا شہریت کی ضمانت نہیں ہے ۔ آسام میں کئی مرتبہ ایم ایل اے اور وزیر اعلیٰ رہیں انورہ تیمور اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائیں ۔ اس لئے جو عوامی تحریک اس وقت چل رہی ہے اس میں انتخابی نظام کو بدلنے کی بات بھی ہونی چاہئے ۔
ملک کا آئین 26 نومبر 1949 کو مکمل ہو گیا تھا لیکن اس کے نفاذ کی تاریخ 26 جنوری 1950 متعین کی گئی ۔ جنگ آزادی میں اس تاریخ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ 26 جنوری 1930 کو پہلی مرتبہ ترنگا لہرایا گیا تھا اور اسی دن مکمل آزادی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ۔ آئین کو اس دن نافذ کرنے کے پیچھے اکابرین کا مقصد یہ تھا کہ عوام میں مکمل آزادی کا احساس پیدا ہو ۔ آئین کی خلاف ورزی ملک کے لئے قومی شرم کی بات ہے ۔ کیونکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والا ہر واقعہ ہماری جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔ اس کو نظر انداز کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہے ۔ ہمیں آئین کی حفاظت، اس کے تقاضوں کی پاسداری اور اس پر عمل پیرا ہونے کو یقینی بنانے کے لئے حکومت اور انتظامیہ میں سماج کے ہر طبقہ کی نمائندگی کو بھی لازمی بنانا ہوگا ۔ تاکہ سب میں اپنائیت کا احساس جاگے اور محرومی دور ہو ۔ ورنہ یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم کے نام پیغام، جھانکیاں، پریڈ، انعام و اعزاز اور جشن جہ معنیٰ دارد ۔
Comments are closed.