Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

ظالم کے مال سے اپنا حق وصول کرنا
سوال:- میں سعودی عرب میں ایک دوکان میں ملازم ہوں ، وہاں سے ہر دوسال میں ایک بار گھر آنے کا موقع ملتا ہے ، اور گھر آنے کا خرچ بھی دیا جاتا ہے ، میں چھ سال بعد ہندوستان آیا ،لیکن مجھے کفیل کی جانب سے وہ روپیہ نہیں دیا گیا ، جو ہر دوسال میں ہندوستان آنے والوں کو کرایہ مع تنخواہ دیا جاتا ہے ، اور میری تنخواہ بھی سعودی عرب کے قانون کے اعتبار سے بہت کم ہے ، اگر میں اس دکان میں کچھ الٹ پھیر کر کے اپنے حق کے بقدر حاصل کر لوں تو کیا میرے لیے یہ بات جائز ہے ؟ (راشد انور، کریم نگر )
جواب:- جھوٹ اور دھوکہ دہی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، اور حتی المقدور اس سے اجتناب واجب ہے ، اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ آپ صبرسے کام لیں، اور اپنا حق اللہ کے پاس ہی وصول کریں ،تاہم اگر آپ کا اس سے یہ معاہدہ تھا کہ چاہے میں ہر دو سال میں گھر نہ جاؤں ، لیکن مجھے اس مدت پر ایک کرایہ آمد و رفت مع تنخواہ ملاکرے گا ، تو کفیل پر اس وعدہ کو وفاء کرنا واجب ہے ، ایسی صورت میں آپ کے لیے دکان سے صرف اتنی ہی رقم حاصل کرنے کی گنجائش ہے ، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ ظفر بالحق ‘‘ کہا جاتا ہے ، یعنی اگر کسی شخص کے ذمہ آپ کا کچھ باقی ہے اور وہ ادا نہیں کرتا تو اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر اس کا مال کسی طریقہ پر آپ کے پاس آجائے تو آپ اس میں سے اپنا حق وصول کرلیں ،حضرت ہندہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہا سے اپنے شوہر حضرت ابو سفیان ص کی شکایت کی کہ وہ اخراجات میں بخل سے کام لیتے ہیں ،تو کیا میرے لیے ان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لینے کی اجازت ہے ؟ آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ اس قدر لے سکتی ہو جو تم کو اور تمہارے بچوںکو کافی ہوجا ئے ۔ ما یکفیک و ولدک (بخاری، حدیث نمبر: ۵۳۶۴) اس حدیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص صاحب حق کو اس کا حق ادا نہ کرے تو اپنے حق کے بقدر اس کے لیے لینا جائز ہے ۔

انٹر نیٹ سے کسبِ معاش
سوال:-انٹر نیٹ پر ہر روز ہزاروں لوگ اپنا پیغام دوسرے ممالک کے رشتہ داروں کو بھیجتے ہیں، اور اس سے دنوں کا کام منٹ بھر میں ہو جارہا ہے ، جو قابلِ تعریف ہے اور دوسری طرف غلط ذہنوں کے لڑکے ایک گھنٹے میںبے انتہا عریاں شرمناک مناظر دیکھتے ہیں ، جو ہر اعتبار سے حرام ہے ، تو کیا ایسے انٹرنیٹ پر کمائی جانے والی کمائی جائز ہے ؟ ( فصیح الدین، سنتوش نگر)
جواب:- انٹر نیٹ اصل میں بہت سی مفید اغراض اور ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ، اس وقت عالمی سطح پر تجارت اور کاروبار کے لیے انٹر نیٹ بہت بڑا ذریعہ و وسیلہ ہے ،اس لیے یہ فی نفسہٖ جائز ہے؛ البتہ جہاں تک ممکن ہو اس کے غلط استعمال کا سدِ باب ہونا چاہئے ، ایک تو انٹر نیٹ میں مالکان کی طرف سے اس کی ہدایت ہو ، دوسرے ایسے پروگراموں کو لاک کردیا جائے ، جو مخربِ اخلاق ہوں؛کیوں کہ اس کی وجہ سے اس کا اخلاقی نقصان وی ، ڈی، یو اور ٹی ، وی سے بھی بڑھ کر ہوجائے گا۔

ولی کی موجودگی میں وکیل کے ذریعہ نکاح
سوال:- عاقدہ کے قریبی رشتہ دار یعنی تایا، چچا کے موجودہوتے ہوئے بھی ، کیاعاقد ہ کی جانب سے کسی اور کووکیل بناکر ایجاب وقبول کرایاجاسکتاہے ؟(کریم الدین، نظام آباد)
جواب:- اگر لڑکی نابالغ ہو، تو قریب ترین ولی کی طرف سے ایجاب یاقبول ضروری ہے ، (ردالمحتار:۴؍ ۱۱۵) اور ولی اپنی طرف سے کسی کو وکیل یاقاصد بھی بناسکتاہے ، کیوں کہ نابالغ کانکاح ولی کی وساطت کے بغیر نہیں ہوسکتا،بالغہ لڑکی خود اپنے نفس کی مجاز ہے ، ولی کی وساطت اس کے لئے مستحب ہے ، نہ کہ واجب، اسی کو فقہ کی اصطلاح میں ولایت ندب کہتے ہیں،(حوالۂ سابق) اس لئے اگر بالغ لڑکی ولی کی موجودگی میں کسی کو اپنا وکیل بنائے اور وکیل کے ذریعہ ایجاب وقبول ہوجائے ، تو نکاح منعقد ہوجائے گا، البتہ بہتر یہی ہے کہ ولی کے ذریعہ ہی ایجاب وقبول انجام پائے ۔

اگرایک ساتھ تین جنازہ پر نماز ادا کی جائے ؟
سوال:- اگر بیک وقت تین جنازے ، نابالغ لڑکے کی میت، نابالغہ لڑکی کی میت اور بالغ مرد یا عورت کی میت آجائے تو نمازِ جنازہ کس طرح ادا کریں ، ایک ساتھ یا الگ الگ؟ طریقۂ نماز سے آگاہ فرمائیں؟( فرید احمد، شاہین نگر)
جواب:- اگر کئی جنازے ہوں تو بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہرایک پر الگ الگ نماز پڑھی جائے،لیکن ایک ساتھ بھی پڑھی جاسکتی ہے جنازوں کو رکھنے کی ترتیب یہ ہوگی کہ امام کے سامنے پہلے بالغ مرد کا جنازہ رہے گا ، اس کے بعد نابالغ لڑکے کا ،پھر عورت کا ،اس کے بعد نابالغہ لڑکی کا ، یہ جنازے ایک دوسرے کے مقابل رکھے جائیں گے ،یا تو اس طرح کہ تمام جنازوں کے سر کا حصہ ایک سیدھ میں آجائے ، یا اس طرح کہ بعد والے جنازہ کا سر پہلے جنازہ کے مونڈھے کے مقابل ہو۔(البحرالرائق:۲؍۱۸۷)
رہ گئی نمازِ جنازہ کی دعاء تو ایسا ہو سکتاہے کہ بالغوں کی نماز سے متعلق دعاء پڑھ لی جائے، پھر بچوں سے متعلق، ویسے مجھے یہ مسئلہ صراحتًا کتب فقہ میں نہیں مل پایا ۔

سورۂ فاتحہ کا نہ پڑھنا یاد آجائے
سوال:- فرض نماز ہو کہ سنت ، پہلی رکعت ہو کہ دوسری رکعت، انفرادی نماز ادا کرتے ہوئے ضم سورت کی قراء ت کے وقت خیال آیا کہ شاید سورۂ فاتحہ کی تلاوت نہیں کی گئی ، تو کیا ضم سورت کو درمیان میں چھوڑ کر پھر سے سورۂ فاتحہ پڑھ کر ضم سورت کرنی چاہئے ؟ ( حشمت اللہ، سکندرآباد)
جواب:- سورۂ فاتحہ کے نہ پڑھنے کا خیال غالب گمان کے درجہ میں ضم سورت کے وقت آئے ، بلکہ رکوع کے بعد بھی آئے تو سورۂ فاتحہ پڑھ کر ضم سورت کی جائے، اگر رکوع کے بعد یہ بات یاد آئی تو فاتحہ اور ضم سورت کرکے دوبارہ رکوع کرے گا ، اور ہر دو صورت میں واجب کی ترتیب میں خلاف ورزی اور واجب یا رکن میں تاخیر کی وجہ سے اخیر میں سجدۂ سہو بھی کرے گا، علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں : ولو تذکر ولو بعد الرفع من الرکوع عاد ، ثم أعاد الرکوع أنہ في تذکر الفاتحۃ یعید السورۃ أیضا (رد المحتار:۲؍۵۴۴)

زوجین کی جماعت
سوال:-کیا زوجین گھر پر با جماعت نماز ادا کرسکتے ہیں ؟ نیز ایسی صورت میں امامت کون کرے ؟ ( مصطفیٰ کمال، اکبر باغ)
جواب:- میاں بیوی مل کر جماعت بنا سکتے ہیں ، فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے : المرأۃ إذا صلت مع زوجھا في البیت ألخ (ھندیہ: ۱؍۹۵) اس صورت میں شوہر امام ہوگا ، اور بیوی اس کی مقتدی ، نیز بیوی اس کے پیچھے کھڑی ہوگی ، اگر اس کے پاؤں شوہر کے پاؤں کے برابر میں ہوں ، تو اقتداء درست نہ ہوگی اوردونوں کی نماز فاسد ہوجائے گی ، اور اگر کم سے کم بیوی کا پاؤں شوہر کے پاؤں کے پیچھے ہو ، تو نماز درست ہوجائے گی :و إن کان قدمھا بحذاء قدم الزوج لا تجوز صلاتھما بالجماعۃ و إن کان قدماھا خلف قدم الزوج ۔۔۔ جازت صلاتھما (ردالمحتار:۲؍۳۱۵)

احمد بھی آپ ا کا اسم گرامی ہے
سوال:- ایک فرقہ جو ہندوستان کے ایک شخص کونبی قرار دیتا ہے ،اس کا کہنا ہے کہ ’’ احمد ‘‘ پیغمبر اسلام محمد ا کا نام نہیں، اس لیے قرآن میں حضرت مسیح ںکی زبان سے جو پیشین گوئی وارد ہوئی ہے ، اس سے آپ ا کی شخصیت مراد نہیں ہے ، تو کیا واقعی احمد آپ ا کا نام نہیں ہے ؟ ( شوکت علی، بنجارہ ہلز)
جواب:- یہ بالکل غلط اور گمراہ کن دعوی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ جیسے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ا کا اسم گرامی ہے، اسی طرح ’’ احمد ‘‘ بھی آپ ا کا نام نامی ہے ،اور آپ ا ہی حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی پیشن گوئی کا مصداق ہیں، خود آپ ا نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ میرا نام ’’احمد ‘‘ بھی ہے ،ارشاد ہے: ’’ أنا محمد و أحمد ‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: ۵۱۰۵) ’’میں محمد بھی ہوں اور احمد بھی ‘‘ اس روایت کو مسلم ، موطأ امام مالک اور مسند احمد جیسی مستند ترین کتابوں میں نقل کیا گیا ہے ، اور محدثین اس حدیث کے صحیح ہونے پر متفق ہیں ۔ (موطا امام مالک:۳۹۲)
یہاں اس بات کا ذکر مناسب ہوگا کہ ’’ احمد ‘‘ کے معنی خوب حمد بیان کرنے اور تعریف کرنے والے کے ہیں، اس لحاظ سے واقعہ ہے کہ پیشوایانِ مذاہب میں آپ ا سے بڑھ کر کوئی اس نام کامستحق نہیں، آپ ا نے زندگی کے ہر عمل کو اللہ تعالی کی حمد سے جوڑ دیا ہے ، سو کر اٹھیں تو اللہ کی حمد، کھاکر فارغ ہوں تو اللہ کی حمد ، استنجاء سے فارغ ہوں تو اللہ کی حمد ، سفر پورا کرکے منزل پر پہنچیں تو اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ، چھینک آئے تو ’’ ربنا لک الحمد ‘‘ کہیں ، نماز کی کوئی رکعت نہیں جو سورۂ فاتحہ سے خالی ہو ، جس کا مقصد ہی اللہ تعالی کی حمد و ستائش ہے ،اس لئے واقعہ ہے کہ انسانی تاریخ میں آپ ا سے بڑھ کر اس لقب کا کوئی حق دار نہیں ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

شراب کے دفتر میں کام
سوال:- کیا اکسائزڈپارٹمنٹ (شراب) کے دفتر میں کام کرنا جائز ہے ، اکثر مسلمان شراب کے دفتر میں کام کررہے ہیں ، کیا انہیں نوکری چھوڑدینا چاہئے ؟ (ذوالفقار، ملے پلی)
جواب:- رسول اللہ ا نے شراب کے سلسلہ میں دس افراد پر لعنت بھیجی ہے (ترمذی، حدیث نمبر:۱۲۹۵) اس سے معلوم ہوا کہ شراب کا نہ صرف پینا پلانا حرام ہے ؛ بلکہ شراب بنانے اور شراب کے پہونچانے میں جو بھی معاون عمل کیا جائے ، وہ سب ناجائز و حرام ہے اور ملازمت کے ذریعہ بھی اس کام کا تعاون ہوتا ہے ؛ اس لئے شراب کے شعبہ سے متعلق ملازمت بھی جائز نہیں ، مسلم ملازمین پر واجب ہے کہ وہ ایسی ملازمت کو ترک کردیں ، اگر بہت مجبور ہوں تو اس کی گنجائش ہے کہ متبادل تلاش کرتے رہیں ،اور جب تک بہ کراہت خاطر اس ملازمت کو جاری رکھیں ، نیز توبہ و استغفار کرتے رہیں ۔

Comments are closed.