جمعہ نامہ : اختلاف و افتراق میں اشتراک و تعاون

ڈاکٹر سلیم خان
للن خان نے نووارد کلن شیخ کا نئے دفتر میں استقبال کرتے ہوئےپوچھا بھائی طبیعت تو ٹھیک ہے؟یہ صبح صبح اس قدر تھکے ماندے کیوں لگ رہے ہو ؟
کلن بولا بھائی دفتر پہنچنے کے لیے پہلے رکشا سے اسٹیشن پھر ایک گھنٹہ ٹرین کی بھیڑ اور بالآخر بس سے آنا پڑا۔ قسم سے انجر پنجر ڈھیلے ہوگئے ۔
یہ سن کر للن بولا میرا خیال ہے جتنا تم کرایہ ادا کرتے ہو اتنے میں یہیں قریب میں گھر مل جائے گا اور سفر کی زحمت سے چھٹکارہ بھی پا جا وگے۔
شکریہ خان صاحب لیکن اگر میں نے آپ کے مشورے پر عمل کیا تو نصف سے زیادہ تنخواہ کرائے کی نذر ہوجائے گی ۔ یہ خاصہ مہنگا علاقہ لگتا ہے۔
ایسی بات نہیں میں قریب ہی ایک مکان میں تنہا رہتا ہوں ۔ تم بھی منتقل ہوجاو ساتھ بھی ہوجائے گا اور کرایہ بھی بنٹ جائے گا ۔
کلن سمجھ گیا کہ خان صاحب اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے چکر میں ہیں لیکن پھر بھی مروت میں بولا ٹھیک ہے شا م کو آپ کے کمرے چلتے ہیں ۔
منتقل ہونے کے ہفتہ بھر بعد ایک دن کلن نے کہا اخروی معاملات میں دین کا عمل دخل ٹھیک ہےلیکن معیشت اور سیاست میں اسلام کیا معنیٰ؟
للن بولا کیا یہ منافقت نہیں ہے کہ نماز تو اللہ کی مرضی سے پڑھی جائے اور روزی کماتے وقت یا حکومت چلاتے وقت اس کی روگردانی کی جائے۔
اپنے اوپر منافقت کا الزام سن کر کلن بھڑک گیا اور بولا دیکھئے جناب زبان پر لگام رکھیں ۔ میں بھی پڑھا لکھا آدمی ہوں ۔
للن خان بھی طیش میں کر بولے آپ جیسے پڑھے لکھے جاہل میں نے بہت دیکھے ہیں جنہیں اگر سوال کا جواب نہ سوجھے تولڑنے بھڑنے لگتے ہیں۔
قطع تعلق کے تیسرے دن للن نےازخود کلن سے معذرت کرنےکے بعدکہا آپ ہر روز باہر کھانا کھائیں گے تو صحت خراب ہوجائے گی ۔
کلن پسیج کر بولا شکریہ لیکن میں کھانا بنانے سے نابلد ہوں اور برتن دھو نے میں بھی آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا اس لیے معذرت چاہتا ہوں ۔
کوئی بات نہیں لیکن سودہ سلف تو لاسکتے ہو ۔ وہی کردیا کرنا ۔
جی ہاں گھر بھر کا سامان میں ہی لاتا تھا لیکن آپ مجھے کیوں شریک کرنا چاہتے ہیں؟ یہ میرے لیے تومفید ہے لیکن اس میں آپ کا کیا فائدہ ؟
اگرمیں بھی یہی سوچتا تورک جاتا لیکن میں نے سوچا کہ اس میں کوئی نقصان بھی توہے نہیں ؟ اور بغیر کسی زحمت کےکسی فائدہ ہو تو کیا حرج ہے ؟
کلن نے چونک کر سوال کردیا ’یعنی اگر آپ کا نقصان ہوتا تو؟‘
للن نے کچھ سوچ کر جواب دیادیکھو بھائی اگر میرا اخروی نقصان ہوتا ہرگز یہ نہیں کرتا لیکن دنیوی خسارہ ہوتا تو چل جاتا۔
یہ دنیا و آخرت کی تفریق سمجھ میں نہیں آئی ۔
اخروی فائدے کے لیےبندوں کی خدمت کرنے والوں سےآقا خوش ہوتا ہے اور مخلوق کی خوشنودی کے لیے خالق کوناراض کرنے والا احمق ہوتا ہے
یہ سن کر کلن پہلے تو سوچ میں پڑگیا اور پھر بولا واقعی میں پڑھا لکھا جاہل تھا جو عبادات اور معاملات میں فرق کرتا تھا ۔
للن بولا یار کلن تم تو انسانیت کی عظمت یعنی احسن ِ تقویم پر فائز ہوگئے ہو ۔
اچھا ! تو احسن تقویم اور اور اسفل السافلین میں کیا فرق ہے؟
وہی جو آدم اور ابلیس میں ہے کہ ایک اپنی غلطی پر اڑکرراندۂ درگاہ ہوگیا اور دوسرے نے توبہ و استغفار کے ذریعہ اپنا دامن پاک کرلیا ۔
اگلے دن للن کمرے میں آیا کلن برتن دھورہا تھا ۔ اس کو ایسا کرتے دیکھ کرللن حیرت سے بولا ارے یہ کیا ؟
اپنے احساسِ جرم پر قابو پاکر کلن نے کہا للن بھیا میں نے ایک فن تو آپ سے سیکھ لیا ہے لیکن ابھی اور بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔
Comments are closed.