قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشعبہ دینیات سنی،علیگڑھ مسلم یونیورسٹی،علیگڑہ
اجتماعی مفادات، ملی نصب العین اور اس سے وابستہ مباحت و مسائل پر گفتگو کرنا وقت کا تقاضا ہے کہ ملت اسلامیہ کی موجودہ پستی اور اس کو پیش آ مدہ مسائل پر غور کیا جائے اور ان اسباب و علل کا کھوج لگایا جائے جو اس کی موجودہ مشکلات کا سبب ہیں تاکہ امت کی بحالی کا کوئی بھی مضبوط و مستحکم ضابطہ کار تیار کیا جاسکے ,جس پر عمل کر کے مسلمانوں کی دینی، اخلاقی، روحانی، علمی، معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کو بہتربنایا جاسکے۔
چنانچہ امت مسلمہ کو رواں کشمکش اور دقت سے باہر لانے کے لئے لازمی ہے کہ ہمیں اپنے عروج و زوال کی طویل تاریخ پر نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات کا معروضی تجزیہ نہایت ایمانداری اور انصاف سے کرنا ہوگا اور ماضی و حال کے اس جائزے کے تناظر میں مستقبل کی صورت گری کرنا ہوگی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس قوتِ محرکہ کے طفیل ہم عروج و کمال سے ہم کنار ہوئے ۔ اوروہ کونسی وجوہات ،اسباب و عوامل کی وجہ سے شوکت و عظمت سے محروم ہو کر متنوع و گوناگوں مسائل میں الجھ کر رہ گئے۔بناء بریں تمام دانشورانِ قوم و ملت کے لئے ضروری ہے کہ ،ملت اسلامیہ کے وجود کو لاحق عارضے کی درست تشخیص کئے بغیر مسیحائی کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی اور درست تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ ہم جذبات کی تندی اور تیزی سے آزاد ہوکر ہر نوع کی عصبیت سے پاک ہوکر اپنے مرضِ کہن کی تہہ تک پہنچیں اور پھر اس کی موثر چارہ گری کا اہتمام کریں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہیکہ خودکو خلوص و وفا،رواداری، سنجیدگی ،متانت اور ایمانداری جیسی پاکیزہ اور روحانی صفات کا خوگر بنانا ہوگا۔
اگر ہم عالمی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ،آج مغربی تہذیب کے پھیلاؤ اور قوتِ تسخیر کا بنیادی سبب دراصل جدید علوم اور سائنس پر اس کی گرفت ہے جس نے اسے سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم بنا دیا ہے اور یہی وہ پہلو ہے جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اعلی تعلیم میں ملت اسلامیہ کی عدم دلچسپی یا اس سے بیزار ی ہی تمام قوت وطاقت اور خود ارادیت جیسے جذبوں کو سرد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔یہ ہر فرد کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ سائنس، ٹیکنالوجی، عصر حاضر کے علوم و فنون اور علم و حکمت کے مختلف شعبوں پر عبور مسلمانوں کا خاصہ رہا۔ قرآنی تعلیمات میں کائنات کے سر بستہ رازوں کی تحقیق و جستجو کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام کی نظریاتی اقدار اور سائنسی ارتقا کے درمیان کبھی تصادم و پیکار کی فضا پیدا نہیں ہوئی بلکہ جدید سائنسی علوم پر دسترس اسلام کی متحرک اور روشن خیال فکر کا حصہ رہی ہے ۔ ساتویں سے چودھویں صدی عیسوی تک ہم اسلام کے اس پہلو کو معراج کمال پر دیکھتے ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب کیمیا، طبیعات،علم الہندسہ،فلکیات، طب، فلسفہ اور تاریخ کے شعبوں میں جابر بن حیان،الکندی، الخوارزمی، الرازی، الغزالی اور ابن خلدون جیسے عالی قدر مفکرین، سائنس داں اور اہل حکمت و دانش کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آ تا ہے۔ اسلام کی فکر انگیز تعلیمات سے آراستہ ان شخصیات نے اپنی تحقیقات اور افکار کے ذریعے کائنات کے اسرار و رموزکے مطالعہ و تحقیق کا ذوق وشوق پیدا کیا۔ فروغ علم کے اس زریں عہد میں علم و حکمت کا جو عظیم خزانہ سامنے آیا، اس کی مثال یونان سمیت کسی خطہ ارضی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ فکرپرواز اور علمی و تحقیقی سرگرمیوں کی اس لہر نے یورپ سمیت دنیا کے کئ خطوں کی نسل نو کو علم و فن کی نئی بلندیاں سرکرنے کا خوشگوار موقع عنایت کیا ،نیز علم و حکمت اور تحقیق و عمل کی ایسی قندیل روشن کی جس کی وجہ سے ہمارا یہ زریں باب ہمیشہ جھلملاتا رہے گا۔ افسوس کہ علم و حکمت کا یہ کارواں تاریخ کے ریگزاروں میں کھو گیااور سلطنت علم کی فرمانروائی کھوتے ہی ہمہ پہلو زوال ہمارا مقدر ہوگیا۔ سلطنت علم کی فرمانروائی سے محرومی، سیاسی زوال کا پیش خیمہ بنی۔ سیاسی زوال نے تہذیبی جاہ و جلال کی چکا چوند ماند کردی۔ ان سارے عوامل نے یکجا ہوکر مسلمان خطوں کو معاشی پسماندگی کی تاریکیوں میں دھکیل دیا اور معاشی پسماندگی کے سبب مسلمانوں کے کم و بیش سارے علمی مراکز سامراج کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ المیہ یہ ہیکہ آ ج بھی ہمارے اکابرین و سرکردہ شخصیات ملت کے اس کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کے لئے کوئی بھی اقدام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ذرا تصور کیجئے ہندوستان کی آ زادی کو اب تک سات دھائی ہوچکی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہیکہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک مسلم کمیونٹی باہم ہم آ ہنگی کے مؤثر فلسفہ سے بے اعتنائی کیوں برت تی رہی ؟ یا بالفاظ دیگر جان بوجھ کر مفاد پرست ،موقع پرست نیز نام نہاد قیادتوں اور سیادتوں نے اس قوم کو باہم مربوط و منظم ہونے سے روکے رکھا؟ ۔اپنے مسائل کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس پہلو کا بھی پوری شرط و بسط کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا کہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اخوت و یگانیت کی وہ مثالی فضا کیوں قائم نہیں ہو سکی جو توحید و رسالت پر ایمان رکھنے کا منطقی تقاضا ہے۔ یہ پہلو قابل غور ہے کہ فکری، نظریاتی اور تہذیبی ہم آہنگی کے باوجود ہم اقتصادی اور سیاسی تعاون کے بے پناہ امکانات کو عملی جامہ پہنانے سے کیوں قاصر ہیں۔ امت کے اجتماعی وسایل، امت کو درپیش مسائل کا مداوا کیوں نہیں کر پا رہے ہیں۔ ؟
کیا ہمارا سرمایہ، ہماری توانائیاں اور ہماری صلاحیتیں پوری طرح امت مسلمہ کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے کام آرہی ہیں۔ ؟صورتحال کی سنگینی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب یہ تلخ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ بعض اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کی فضا موجود ہے۔
یہاں یہ عرض کرنا نہایت ضروری ہے کہ فکری اختلاف با شعور اور ذی فہم، معاشروں کی بقاء و حفاظت اور عظمت و ترقی کی شاندار روایت ہے۔ بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو معاشرے فکری طور پر جامد و پست ہوتے ہیں ۔ان کی معاشرتی اورعالمی سطح پر کوئی شناخت و امتیاز نہیں ہوتی ہے۔ مگر یہ فکری اختلاف اس وقت قابل قبول اور لائق تحسین ہوگا جب اپنی حدود میں رہے ،کسی بھی طرح کے نزاع اور ہواؤ ہوس کا شکار نہ ہونے پائے ۔جب بھی فکر ی اختلاف پر ذاتی منفعت اور خود غرضی کی بالادستی ہوجاتی ہے ۔تب یہ فکری اختلاف امت کی پریشانی اور الجھن کا باعث بنتا ہے۔ لہذا اپنی فکر اور فلسفہ سے وابستہ رہتے ہوئے قوم کے تمام افراد کو، سیاسی اور سماجی اقدار کو مستحکم کرنے کے لئے وحدت و مرکزیت اور یکجائیت و اجتماعیت کا دامن تھامنا لازمی امر ہے۔ سوال یہی نہیں کہ اس قوم کو اتحاد و اتفاق سے دور رکھا گیا، بلکہ اس سے بھی اہم اور بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ آزادی کے بعد سے ابھی تک زبوں حالی اور نکبت و پستی کا لگاتار شکار بھی ہورہی ہے۔ اسی طرح ملک کے دیگر تمام موثر شعبوں ،محکموں اور اداروں میں اطمینان بخش عدم شمولیت بھی ان تمام سیاسی اور نیم سیاسی یا مسلم کمیونٹی کی رہبری کا دم بھرنے والے افراد و جماعتوں کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ امت پر مسلکی تشدد یا باہم عدم برداشت کا جو بد نما داغ لگا ہے ۔ اس کے پروان چڑھانے میں اپنوں کے ساتھ مغربی ، فسطائیت اور عالمی طاقتوں کا بھی پورا پورا عمل دخل ہے۔ بد قسمتی ہماری یہ ہیکہ ہم آ ج دیگر قوموں کے کارناموں اور ان کے تہذیب و کلچر سے بہت تیزی سے مرعوب ہونے کے ساتھ ساتھ ان مسحور کن باتوں پر کسی حد تک عمل پیرا بھی ہوجاتے ہیں ۔ آ ج ہم اس بات کو کہیں یا نہ کہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ آ زادی کے بعد سے ابھی تک ہماری قیادت نے کوئی بھی مسلم کمیونٹی کی تعمیر وترقی اور روشن و صالح خطوط پر رہنمائی کے لئے دیرپا لائحہ عمل تیار نہیں کیا۔ صالح اور امانتدار قیادت کے فقدان کی وجہ سے مسلم کمیونٹی کو گاہ بگاہ شرمندگی اور خفت و اذیت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اور مزید دشواریوں کا سامناہے۔ تشویشناک امر یہ بھی ہیکہ جو قوم اصول جہانبانی اور سیاست و فقاہت کے تمام اسلوب آ داب سے واقف تھی آ ج وہی قوم اپنے اس بنیادی اور عظیم ورثہ سے نہ صرف نا آ شنا ہوتی جارہی ہے بلکہ بعض افراد کا تو نظریہ یہ ہیکہ انتخابی سیاست اور دیگر بنیادی امورو معاملات میں شرکت و شمولیت کسی گناہ سے کم نہیں ہے۔ اس طرح کی فکر و نظر اور سوچ و یقین رکھنے والے آ ج بھی ہزاروں کی تعداد میں خود ہماری صفوں میں موجود ہیں۔ تصور کیجئے کہ جب قوم کے افراد کی فکری سطح اس قدر منجمد اور گھٹیا ہو تو کیا اس قوم کے افراد وقت کی نزاکت اور موجودہ سیاسی و سماجی اتار چڑھاؤ کے رجحانات سے نبرد آزما ہوپائیں گے۔ یا اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت و نگہداشت اور اپنے حقوق کی بازیافت کے لئے کوئی بھی منصوبہ طے کرنے میں کامیابی کی طرف بڑھ پائیں گے۔ آ ج مسلم کمیونٹی کے ہر گروہ اور جماعت کی اپنی الگ الگ تنظیم ہے اور وہ اپنی فکر سے وابستہ افراد کی ترجمانی و قیادت کا دعویٰ بھی کرتی نظر آ تی ہے۔ ان تنظیموں کا کوئی اجتماعی طور پر معاشرہ کی تعمیر و ترقی تودور کی بات ،حد تو یہ ہیکہ اگر انصاف سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آ تی ہےکہ کسی بھی گروہ کی نمائندگی کرنے والی جماعت نے اپنے مسلک و مشرب کے لوگوں کی ترقی اور عصری ہم اہنگی۔ تعلیم یا دیگر ضروریات کی تکمیل میں ابھی تک مؤثرکاردگی اور ذمہ دار ی تک نہیں نبھا ئی ہے۔ جبکہ وقت و حالات کا تقاضا یہ ہیکہ آ ج تمام مسالک کے قائدین کو یکجا ہوکر اپنی کمیونٹی کی افراد کی تعلیمی ،سیاسی،اقتصادی،معاشی ،اخلاقی،اور دینی پسماندگی کو معدوم کرنے کا کام کرنا چاہئے تھا۔ زمینی سطح پرمسلم کمیونٹی کی عظمت و رفعت اور تقدس و احترام کا صحیح معنوں میں کوئی بھی عملی کردار ادا نہیں کیا گیا۔ جبکہ ہم امت کی ہر محاذ پر زبوں حالی کا رونا روتے نظر آ تے مگر اس کے لئے عملی طور پر ہم کوئی موثر کام نہ کررہے ہیں اور ایسا لگتا ہے نہ مستقبل میں کچھ اچھا کرنے کی امید نظر آ تی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مادی، سیاسی اور اقتصادی طور پر شکستہ حال قومیں پھر سے فتح مند ہوسکتی ہیں اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہیں لیکن ذہنی، فکری اور روحانی اعتبار سے شکست کھا جانے والی اقوام دولتِ خودی سے محروم ہوکر تاریخ کے ظلمت کدوں میں کھو جاتی ہے۔ مسائل کی سنگینی، مصائب کے ہجوم اور مشکلات کی کثرت کے باوجود فرزندانِ اسلام کا مستقبل روشن و تابناک ہے۔ ہمارے دل توحید کی دولت سے مالا مال ہیں اور ہماری روح حب رسول ﷺ کی لذتوں سے سرشار ہے۔ ہم امن کے پیامبر اور سلامتی کے سفیر ہونے کے ساتھ ساتھ نسلی تشدد و انتہا پسندی کے سخت مخالف ہیں۔ قدرتی وسائل اور انتہائ ذہین،ہمت، شعاراور جفا کش افرادی قوت کے حامل بھی ہیں۔ علم و فن سے محبت ہماری فطرت میں شامل ہے۔ یہ ناسازگار موسم بہت جلد ختم ہو جائیں گے اور ہمارے بال و پر ایک بار پھر اسی قوت پرواز سے آشنا ہوں گے جو ہماری تاریخ و تہذیب کا نمایاں حصہ رہا ہے ۔

Comments are closed.