مودی اور شاہ کی سیاست آئی سی یو میں ۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ ،8790193834
پی ایم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی شہ پر انکے وزیر اور ممبران پارلیامنٹ جس طرح سے بے لگام ہوگئے ہیں اور اپنی سیاست کو دفن ہوتا دیکھ کر جس طرح سے مسلمانوں کے خلاف متنازعہ اور نفر ت انگیز بیانات دے رہے ہیں اس سے تو ایک بات صاف ہوگئی ہے کہ انکی سیاست آئی سی یو میں چلی گئی ہے حالانکہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کوند نے سی اے اے اور 370قانون کو لے کر مودی حکومت کی پیٹھ تھپتھپائی ہے کہ انکی سیاست آئی سی یو سے باہر نکل آئے لیکن اب شاید ممکن نہیں ہے کیوں کہ بی جے پی کے وزیر مملکت برائے وزیر خزانہ انوراگ ٹھاکر نے بی جے پی کے منصوبے پر پانی پھیر دیا۔ اپنی تقریر کے دوران انوراگ ٹھاکر نے لوگوں کو اکسایا اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ عین بابائے قوم مہاتما گاندھی کی 72ویں برسی پر ایک دہشت گرد، یعنی گوڈسے کے حمائتی نے سی اے اے اور این آر سی کو لے کرخاموش احتجاج کر رہے جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم شاداب فاروقی پر سر عام گولی چلا دی۔ جس سے اسکے سینے میں نہ لگ کر ہاتھ میں لگی ورنہ وہاں کا منظر کچھ اور ہی ہوتا۔حیرت تو یہ ہے کہ جب وہ گولی چلا رہا تھا اس وقت بڑی تعداد میںجائے وقوع پر پولیس عملہ بھی موجود تھی لیکن وہ خاموش تماشائی بنی رہی یا یوں کہیں کہ پولیس اس بات کا انتظار کر رہی تھی کہ دہشت گرد اور بھی گولی چلائے اور مظاہرین میں سے کوئی شخص مر نہ جائے تب تک وہ حرکت میں نہیں آئے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سارا کھیل ایک فرقہ پرست وزیر انوراگ ٹھاکر کے نفرت انگیز نعروں سے ہوا جس میں انہوں نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘‘ اگر اس طرح کے نعرے ایک وزیر کے منھ سے نکلے تو ظاہر ہے فرقہ پرست ہندو تنظمیں سرگرم ہو جائے گی اور انہیں لگے گا کہ اب ہمیں گولی مارنے کی چھوٹ مل گئی ہے، یعنی ’’سیئیاں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا‘‘ حیرت تو اس بات کی ہے کہ نفرت انگیز زہر پھیلانے کے بعد بھی پی ایم مودی اور امیت شاہ کی سر پرستی انوراگ ٹھاکر کو حاصل ہے ان پر نہ تو تنظیمی سطح پر کوئی کاروائی کی جاتی ہے اور نہ ہی پی ایم مودی بھڑکانے والی تقریر کی مذمت کرتے ہیں۔ مجھے فخر ہے شاہین باغ میں پر امن احتجاج کررہی ہزاروںمائوں ، بہنوں اور بچوں پرجنکی خاموش جنگ نے بی جے پی کی بنیاد ہل دی ہے ۔ اب تو ایسا ہو گیا ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ کو راتوں میںشاہین باغ میں ہو رہے پر امن احتجاج ڈارنے لگے ہیں یہی وجہ ہے کہ انکے چہرے پر ایسا خوف طاری ہے کہ وہ اپنی تقریر میں شاہین باغ، شاہین باغ کی رٹ لگائے پھر رہے ہیں، چونکہ دہلی میں8فروری کو اسمبلی کا انتخاب ہونے والا ہے اور امیت شاہ دہلی کی بنیادی مدعا کو بلائے طاق رکھ کر اب انہوں نے شاہین باغ کو مدعا بنا لیا ہے انکا خوف ہی کہا جائے گا کہ شاہین باغ کا ڈر خوف کی حالات میں اپنے عوامی جلسے سے تقریر کرتے ہیں کہ ای وی ایم کا بٹن اتنے زور سے دبائو کہ شاہین باغ کو کرنٹ لگے، مجھے کہہ لینے دیجئے کہ شاہین باغ کی خواتین کی نمازوں کا کرنٹ انہیں اتنی زور سے لگی ہے کہ وہ تلملا گئے ہیں اور انکے ذہن سے دہلی کی بنیادی مسئلے غائب ہوگئے ہیں یعنی خالی ہوگئے ہیں بس انکے ذہن و دل میں شاہین باغ ہی رہ گیا یہی وجہ ہے کہ جب بھی وہ اپنا لب کھولتے ہیں تو شاہین باغ ہی انکے منھ سے نکلتاہے۔پانچ ریاستوں میں شکست کا منھ دیکھنے کے بعد اب دہلی بھی انکے ہاتھ سے جاتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب اپنی تقریر میں ہندو مسلمان اور بابری مسجد کرنا شروع کر دیا ہے عوام کے جذبات سے کھیلنے کا آغاز ہو چکا ہے۔اس سیاسی جنگ میں ’’ عام آدمی پارٹی‘‘ بی جے پی کو اوندھے منھ گرانے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے اور اسکی یہ حکمت عملی کامیاب بھی ہو رہی ہے ۔ حیرت تو یہ ہے کہ بی جے پی خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہے، اروند کیجریوال کو دہشت گرد کہنا، مسلمانوں کو گالی دینا، شاہین باغ کو پاکستان کہنا، بابری مسجد اور رام جنم بھومی کو پھر سے زندہ کرنا اور پھر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مظاہرین پر گولی چلوانا ان سب کارگذاریوں کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کی بوکھلاہٹ صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ انکی دہلی سے بھی سیٹ گئی دہلی میں قبضہ انکے بس کی بات نہیں خواہ وہ کتنے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دیں لیں یا پھر اپنے پیادوں سے دلوائیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ملک کی عوام اب سمجھ چکی ہے کہ بی جے پی جب کہیں ہارنے لگتی ہے تو وہ ہندو مسلم اور رام مندر کا کارڈ کھیلنے لگتی ہے اور دہلی میں بھی وہی کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس بات سے انکے شکست کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے پی ایم مودی کے علاوہ بی جے پی سی ایم اور وزراء دہلی میں انتخابی ریلی سے خطاب کریں گے اور شاہین باغ اور اروندکیجریوال کو نشانے پر لے کر عوام کے جذبات سے کھیلیں گے لیکن پی ایم مودی اور امیت شاہ کو یہ نہیں معلوم کہ دہلی کی عوام بیدار ہے اسے سب پتہ ہے کہ بی جے پی کے پاس نہ تو کوئی سی ایم کا چہرہ ہے اور نہ ہی کو بنیادی مدعا ہے جس سے رائے دہندگان کو اپنی جانب متوجہ کرسکے۔حالانکہ بی جے پی نے اپنے منوفیسٹو میں اروند کیجروال کو شکست دینے کے لئے انہیں کی طرز پر فری اور سستا اشیاء دینے کا اعلان کیا ہے لیکن یہاں کی عوام نے بی جے پی کے وعدے اور دعوے کو بخوبی سمجھ لیا ہے ہر سال دو کروڑ نوکریاں اور غریبوں کے اکائونٹ میں 15لاکھ روپئے دینے کا اعلان اب تک پورا نہیں ہوا تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ دہلی کے لوگوں کو بی جے پی فائدہ پہنچانے کا کام کرے گی بی جے پی کے اعلانات پر ملک کے لوگوں کو اعتماد بالکل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بی جے پی دہلی کے لوگوں کو جتنا بھی سنہرا خواب دیکھانے کی کوشش کرے ان پر یہاں کی عوام بھروسہ نہیں کر سکتی کیوں کہ دودھ کا جلا مٹھا پھونک پھونک کر پیتا ہے اس لئے جو سروے آرہے ہیں اس سے تو یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ بی جے پی کی دہلی میں بھی دال نہیں گلنے والی ہے یہاں ہندو مسلمان اور رام مندر کا کارڈ نہیں چلنے والا ہے اس لئے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ پی ایم مودی اور امیت شاہ کی سیاست آئی سی یو میں چلی گئی ہے۔ مہنگائی بے روزگاری،ملک میں لاقانونیت، جی ڈی پی کی شرح زمیں دوز، معیشت کا برا حال، کسانوں اور طالب علموں کی خود کشی ، لڑکیوں کی آبروزی ملک کے معتبر یونیورسیٹیوں میں تخریبی سیاست، پولیس کی یکطرفہ کاروائی سے پورا ملک بے چینی کے عالم میں ہے ملک میں نفرت کی آگ الگ سے سلگائی جا رہی ہے ۔یعنی نیا بھارت کا تصور کہیں سے بھی نہیں ہو رہا ہے اور پھر سی اے اے، این آرسی، این آر پی لاکر ملک توڑنے والی سیاست کو ہوا دی جا رہی ہے، شاہین باغ کے علاوہ ملک کے سیکڑوں شاہین باغ کی خواتین سے کوئی بات نہیں کی جا رہی ہے اور نہ ہی احتجاج ختم کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی ہی حکومت کی جانب سے ہو رہی ہے، مجھے کہہ لینے دیجئے کہ یہ سارا کھیل پی ایم مودی اور امیت شاہ کی جانب سے کھیلا جا رہا ہے اور انکا یہ کھیل کب تک جاری رہے گا یہ کہا نہیں جا سکتا لیکن ایک بات ضرور ہے کہ جہاں جھارکھنڈ کی عوام نے امیت شاہ اور اور پی ایم مودی کی ہیٹلری قانون پر سبق سکھا دیا ہے اب دہلی کی عوام انکے کالے قانون کے خلاف ایسا بٹن دبانے جا رہی ہے کہ انہیں شاہین باغ کی خواتین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔
Comments are closed.