ہندو راشٹر کیسا ہوگا

ڈاکٹر عابد الرحمن(چاندور بسوہ)
دیکھئے ملک کس سمت جا رہا ہے ، سوشل میڈیا میں ایک تصویر گشت کر رہی ہے کہ دو بچے بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے پولس والے بیٹھے ہیں جیسے کہ مجرموں کو پکڑنے کے بعد ان سے تفتیش کی جارہی ہو۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کرناٹک کی ایک اسکول کی چوتھی پانچویں اور چھٹی کلاس کے یہ بچے ہیں جن سے پولس والوں نے پوچھ تاچھ کی ، ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اسکول کے ایک ڈرامے میں حصہ لیا جس میں شہریت ترمیمی قانون ،اور این آر سی کے خلاف کچھ باتیں کہی گئیں ، معاملہ پولس میں اس طرح پہنچا کہ ایک مقامی رائٹ ونگ کارکن نے اسکول اتھارٹی ،اور ڈرامے میں حصہ لینے والے بچوں کے خلاف ’دیش دروہ‘ کا مقدمہ درج کروایا ،جس میں کہا گیا کہ اس میں وزیر اعظم مودی جی کے تعلق سے توہین آمیز الفاظ استعمال کئے گئے ۔ فوراً حرکت میں آتے ہوئے پہلے تو پولس نے ان بچوں سمیت تمام افراد کو پولس اسٹیشن بلوایا لیکن جوینائل جسٹس ایکٹ کا حوالہپ دئے جانے پر اسکول آکر ان بچوں سے جن میں ایک صرف نو سال کا بچہ ہے سے پوچھ تاچھ کی اسکی تصویر سوشل میڈیا میں بھی آئی اور دی وائر نے اس کی تفصیلی رپورٹ بھی شائع کی جس کے مطابق اسکول کے اس ڈرامے کے ویڈیو میں وزیر اعظم مودی جی سمیت کسی کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا ، اس کے باوجود ڈرامے میں موجود لڑکی نے ایک دوسرا ویڈیو جاری کر کے معافی مانگ لی ہے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اس معاملہ میں بی جے پی کی طلباء شاخ اے بی وی پی نے بھگوے جھنڈے اٹھائے احتجاج کیا ، اسکول اور متعلقہ طلباء پر سخت کارروائی کی مانگ بھی کی۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پر امن احتجاج کرنے والے طلبا ء پر ایک شخص نے ’ یہ لو آزادی ‘کہتے ہوئے گولی چلادی جس ایک طالب علم زخمی ہوگیا ،یہ سب ایسے وقت میں ہوا جبکہ جائے واردات پر پولس موجود تھی ۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے مرکزی وزیر اور بے جے پی لیڈر نے دیش کے غداروں کو گولی مارنے کے نعرے لگائے تھے، یہاں غداروں سے ان کی مراد شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے سوا کیا ہوسکتی ہے؟ اورایک نوجوان نے بتایا جاتا ہے کہ وہ ابھی بالغ بھی نہیں ہے وزیر محترم کے نعرے کا پریکٹیکل جواب بھی دے دیا ہے۔ یہاں بھی میڈیا میں اس نوجوان کے نا بالغ ہونے کی خبر پر زیادہ زور دیا جارہا ہے لیکن ککرناٹک اسکول کے معصوم بچوں کے نا بالغ ہونے پر نہ کسی نے زور دیا اور نہ ہی پولس کو شرم دلائی ۔اسی طرح دہلی کے شاہین باغ میں احتجاج کر نے والی عورتوں اور اس کے منتظمین کے متعلق دشنام طرازی والی زبان بھی استعمال کی جا چکی ہے انہیں ملک مخالف بھی کہا جا چکا ہے۔یہی نہیں بلکہ ایک ہندو سنت سمیت کئی اہم شخاص جو خاص طور سے حکومت وقت کی پالسیوں پر سوال اٹھاتے رہے ہیںکو قتل کی دھمکی آمیز خط بھیجا گیا ہے جس میں ان لوگوں کو غدار کہا گیا ہے۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر نے والوں کے ساتھ یہ جو کچھ کیا جا رہا ہے یہ ملک کے حال کا ایک معمولی اشو نہیں ہے،جو یہ سمجھ کر خاموش ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے اور انہی کے خلاف ہوتا رہے گا،وہ غلط ہیں اگر انہوں نے اسی طرح اس کی خاموش حمایت جاری رکھی تو یہ آگ جو آج مسلمانوں کے گھروں کو جلا رہی بہت جلد ان کے گھروں تک بھی پہنچ جائے گی۔ یہ دراصل وہ آئینہ ہے جس میں اس ملک کے مستقبل کی تصویر صاف نظر آرہی ہے ، جو ہندو یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو زیر کر کے یا این آر سی کے ذریعہ انہیں ڈیٹینشن سینٹر میں ڈال کر یا ملک سے باہر نکال کر یا انہیں سماجی سیاسی اور معاشی طور پر انتہائی لاغر کر کے یا شودر اور مہا شودر بنا کر ہندوؤں کے لئے ایک وشال ہندو راشٹر بنا لیا جائے گا تواس راشٹر میں ہندوؤں کے خلاف یہ ساری چیزیں نہیں ہو گی ۔ ان کے ساتھ پولس اور انتظامیہ کا برتاؤ دوستانہ ہوگا اپنائیت والا ہوگا تو سمجھئے ایسا سمجھنے والے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ دراصل خاص طور سے مسلمانوں کی اور حکومت کے مخالفین کی اس ہراسانی میںدیدہء بینا رکھنے والوں کے لئے جموزہ ہندو راشٹر کا منظر نامہ بالکل صاف ہے کہ اس راشٹر میں دوسری رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی ،دوسری رائے دیش دروہ اور غداری کے مترادف ہوگی ، جو کوئی بھی حکومت وقت اور بر سر اقتدار طبقے کے فیصلوں اور آدیشوں کی خلاف ورزی کرے گا اس کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کیا جائے گا جس طرح آج سی اے اے این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں ،ہندوؤں اور بچوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ملک سے مسلمانوں کو نکالنے کے بعد یہاں بچ رہنے والی سو کروڑ ہندو آبادی سماجی سیاسی مذہبی اور فکری اعتبار سے بالکل یکساں ہو گی ،اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا ، مسلمانوں کے علاوہ بھی پوری ہندو سوسائٹی میں آج بھی کوئی یکسانیت نہیں ہے یہ اگر متحد ہے تو صرف مسلمانوں کے خلاف ، مسلمانوں کے بعد تو اس کے اختلافات ایسے ابھریں گے جیسے لاوا ابلتا ہے ایسی صورت میں حکومت یا برسر اقتدار طبقہ سے اختلاف کرنے والوں کے ساتھ وہی ہوگا جو کرناٹک میں ان معصوم بچوں کے ساتھ ہوا، وہی ہوگا جو مختلف یونیورسٹیزمیں پڑھنے والے طلباء پر پولس کے مظالم کی صورت میں ہوا ، وہی ہوگا جو جامعہ میں پر امن احتجاج کرنے والے طلباء پر ایک شخص کی فائرنگ کی شکل میں ہوا ،وہی ہوگا جو ہندو مذہبی سنت سمیت اہم شخصیات کو ملے قتل کی دھمکی والے خط کی صورت میں ہوا ، اور اگر بات آگے بڑھی تو وہی ہوگا جو ڈاکٹر دابھولکرگووند پنسارے ایم ایم کلبرگی اور گوری لنکیش کے قتل کی صورت ہم دیکھ چکے ہیں۔ مسلمانوں کو چھوڑئے ہندو سوچیں کیا وہ ایسے سماج ایسے نظام اور ایسے راشٹر کے لئے تیار ہیں؟
Comments are closed.