والدین کی پریشانی

انعم توصیف، کراچی
قرآن پاک میں اللہ ﷻ ارشاد فرماتے ہیں”وقل رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا“
ترجمہ: ”اور کہو اے میرے رب ان دونوں(میرے ماں باپ) پر رحم فرما جیسا کہ ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔“
بھاگتی دوڑتی اس زندگی میں نفسا نفسی کے اس دور میں معاشرتی مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ والدین اکثر پریشان نظر آتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے فرماں بردار نہیں ہیں۔ وہ ہمیں وقت نہیں دیتے، ہم گھروں میں اکیلے ہوتے ہیں وہ بیوی بچوں یا پھر دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے، سیرو تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ یہ اج کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے۔۔
اب ہم اگر اس آیت پر غور کریں تو اس مسئلے کی وجہ صاف ظاہر ہوجائےگی۔۔ افرا تفری، مادیت پرستی کے اس دور میں ہم اپنی اولاد کی تربیت کا بہترین ذریعہ مال و ذر کو سمجھتے ہوئےپیسوں کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں۔ ماں جیسی ہستی جس کی گود کو اولاد کی پہلی تربیت گاہ کہا جاتا ہے۔ وہ ہی ”ماں“ آزادی کے نام پر صبح سے شام تک مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے میں فخر محسوس کررہی ہے۔ چاہے جاب کی ضرورت ہو یا نہ ہو محض وقت گزاری اور دنیا والوں کی واہ واہ سمیٹنے کے لیے عورتیں گھر کی چار دیواری کو قید خانہ سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کی پرواہ کیے بنا نوکری کرکے تھکنا پسند کررہی ہیں چاہے اس کی وجہ سے اولاد کی زندگی پر منفی اثرات ہی کیوں نہ مرتب ہورہے ہوں۔ اپنی مصروفیات میں گم لوگ، بچوں کو مکمل نظر انداز کرکے یا تو گھروں میں خادموں کے سپردکردیتے ہیں یا پھر ان معصوموں کو گھروں میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اب تو سونے پہ سہاگہ ڈے کیر سینٹرز بھی کھول دیے گئے ہیں جہاں چند روپوں کے عوض آپ کے بچے پالے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں واضح دکھایا گیا تھا کہ ایک ڈے کیر سینٹر کی ملازمہ بچے کو بری طرح ڈانٹ بھی رہی ہے، اسے مار بھی رہی ہے اور ساتھ میں اس سے یہ بھی کہہ رہی ہے کہ وہ اپنے والدین کو کچھ نہ بتائے۔ ذہنی و جسمانی ٹارچر کرتی اس عورت کی ہمت اتنی کیسے بڑھی؟
یہ سب والدین کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے والدین اپنی اولاد کو اتنی اہمیت دیتے نہیں جتنا کا حق ہے۔ والدین کے پیار، محبت، توجہ کے جو مثبت اثرات بچوں پہ پڑتے ہیں اس کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔
ایسے بچے جن کو بچپن میں والدین کا پیار اور توجہ نہ ملے تو کیا وہ بڑے ہو کر والدین سے اس درجے کی محبت کرسکتے ہیں جن کے وہ حقدار ہیں؟ بھلا وہ اپنے والدین کے لیے رحم کی دعا کرسکتے ہیں جب کے ان کے والدین نے ان کو ویسے پالا ہی نا ہو جیسا کہ ان کا حق تھا۔ کیا ان کے بڑھاپے میں ان کی اولاد ان کو توجہ و محبت دے سکے گی؟ بچپن میں ہونے والے واقعات انسان کے ذہن پہ گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر آپ کی غیر موجودگی اور بے توجہی کی بنا پر آپ کے بچے کے ساتھ کچھ برا ہوا ہو تو وہ کہیں نہ آپ کو بھی اس کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے آپ سے بدظن ہوجائے گا۔ اس کا اظہار یا تو وہ اپنے برے رویے سے کرے گا یا پھر وہ خاموشی اختیار کرلے گا۔ یہ دونوں باتیں ہی آپ کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایسے بچے پھر نہ ہی اپنے والدین کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔۔ اولڈ ہومز پہ لکھی ہوئی اکثر تحریریں نظروں سے گزرتی ہیں۔ کبھی سوچا بھی ہے کہ ان اولڈ ہومز تک رسائی اتنی آسان کیوں ہوگئی ہے؟ محبتیں مفقود کیوں ہوتی جارہی ہیں؟ غلطی ہر بار اولاد کی نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ اپنے اعمال کا بدلہ پاتے ہیں۔
اللہ رب العزت والدین کے لیے رحم کی دعا بھی ایسی اولادوں کی زبانوں پر جاری فرماتا ہے جن کے والدین بھلے ہی ان کو پر آسان زندگی فراہم نہ کرسکیں لیکن ان کی اعلی تربیت کریں۔ ان کو بھرپور وقت وتوجہ دیں۔ ان کو گھروں میں اکیلا چھوڑ کر خود سیرو تفریح نہ کرتے پھریں۔ ان کو خادموں کے سپرد کرکے بے فکر نا ہوجائیں۔ اپنی اولاد کواللہ کی طرف سے ذمہ داری سمجھتے ہوئےان کی بہترین انداز میں پرورش کریں۔ ایسے ہی لوگوں کی اولاد ان کی فرماں بردار ہوتی ہے۔۔ ان کو اپنی متاع عزیز جان کر وقت دیتی ہے۔ اللہ کریم بھی ان پر رحم کرتا ہے۔۔۔
ہم اپنی اولاد کو آج جو کچھ بھی دیں گے کل کو وہ ہی ہمارے بچے ہمیں لوٹائیںگے پھر چاہے وہ وقت ہو، عزت ہو، یا پھر محبت۔

Comments are closed.